لوگ اب فیصلہ بتاتے ہیں، اور عدالت بھی مان جاتی ہے

سیاسی نظام کے چار ستون ہوتے ہیں ۔ اس میں مقننہ کا کام قوانین وضع کرکے ان کی ترسیل کرنا ہوتا ہے۔ اس لیے بھاشن کرناسیاستدانوں کی مجبوری ہے اور عدلیہ کی ذمہ داری قوانین کی عمل آوری پر نظر رکھنا اور آئین کے مطابق فیصلے کرنا ہے۔ آج کل یہ ہورہا ہے کہ مقننہ من مانے فیصلے کررہا ہے اور عدلیہ فیصلے کم اور بھاشن زیادہ کرتی ہے۔اصلاًآئین کے وفادار انتظامیہ کا کام عدلیہ کے فیصلوں کا نفاذ ہے اور مگر وہ سیاسی آقاو ں کی آنکھ موند کر تابعداری کرررہا ہے اور ذرائع ابلاغ جس کی ذمہ داری حکومت پر کڑی نظر رکھ کر اس کی تنقید کرنا ہے وہ اس کی گود میں بیٹھ تلوے چاٹ رہا ہے۔ اس لیے عوام اپنے آپ کو بے یارومددگار محسوس کررہے ہیں ۔ اس صورتحال کی ایک مثال سپریم کورٹ کے ذریعہ اتر پردیش کی جیلوں میں زیر سماعت قیدیوں کو بغیر کسی تاخیر کے رہا نہ کرنے پر شدید ناراضگی کا اظہار ہے۔ اس نے اتر پردیش حکومت کے ساتھ الہ آباد ہائی کورٹ کو بھی پھٹکار لگاکر ان 853 قیدیوں کی تفصیلات دینے کے لیے دو ہفتے کا وقت دیا جو ریاست کی مختلف جیلوں میں 10 سال یا اور بھی زیادہ عرصے سے بند ہیں۔

کسی ملزم کو اس قدر طویل عرصے تک بغیر فیصلے کے جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھنا ایک جرم ہے اس پر صرف یہ نصیحت کرنا کہ اگر آپ اسے نہیں سنبھال پا رہے ہیں تو ہم یہ بوجھ اٹھا کر سنبھال لیں گے کافی نہیں ہے بلکہ جو لوگ اس کا ارتکاب کررہے ہیں ان کو سزا ہونی چاہیے مگر پھر وہی بھاشن ۔ اس بابت یوپی حکومت ان 853 مقدمات کا تجزیہ کرنے کے بجائے عدالت سے مسلسل وقت مانگ رہی ہے اور عدلیہ موقع دیتا جارہا ہے اور نصیحت فرما رہا ہے حالانکہ اگر وہ سزا دےیاکم ازکم جرمانہ عائد کرے تو دباو بڑھ سکتا ہے ورنہ ’مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر‘ والی بات ہوگی ۔ انتظامیہ کے سارے مفادات اور مضرات چونکہ سرکار سے وابستہ ہیں اس لیے مقننہ کے چشم ابرو کی غلامی کرتا ہے اور ذرائع ابلاغ ان انتہائی سنگین مسائل کو زیر بحث لانے کے بجائے ہندو مسلم کھیل سے عوام کی توجہ بھٹکانے میں لگانے مصروف رہتا ہے ۔ یہ عصرِ حاضر کا المیہ ہے۔ عدالت کا یہ کہنا قابلِ ستائش ہے کہ یہ انسانی آزادی کا معاملہ ہے اور اگر ریاستی حکومت نے کام نہیں کیا تو وہ ایک ساتھ سب کو ضمانت پر رہا کردے گی لیکن یہ کب ہوگا؟ اور اس کے لیے مزید کتنا وقت انتظار کرنا پڑے گا ؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا خیال ایک عام شہری کو بے چین کردیتا ہے۔

ہندوستانی جیلوں کے اندر زیر سماعت قیدی صرف اتر پردیش میں نہیں ہے بلکہ دہلی میں بھی ہیں۔ ان میں بڑی تعداد سی اے اے کے خلاف تحریک چلانے والے خالد سیفی اور عمر خالد جیسے لوگوں کی ہے جنھیں ایک سازش کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ یہی حال بھیما کورے گاوں کے بہانے مقید دانشوروں کا ہے۔ عدالت عظمیٰ کو تیستا سیتلواد اور ہمانشو کمار کی ظلم کے خلاف جدوجہد میں سازش دکھائی دیتی ہے ۔ وہ اس کی تفتیش اور کا رروائی کا حکم دے کر جرمانہ بھی لگا دیتی ہےلیکن ان پولیس افسران کے ساتھ ایسا سلوک نہیں ہوتا جو سرکار کی خوشنودی کے لیے بے قصور لوگوں کو گرفتار کرلیتے ہیں ۔ مقننہ کے ذریعہ رچی جانے والی سازش کا پتہ لگانے کے لیے عدلیہ خود اپنے ججوں کے ذریعہ تفتیش کیوں نہیں کراتی کیونکہ انتظامیہ سے تو غیر جانبدارانہ جانچ کی توقع ہی نہیں ہے۔ عدلیہ کے پندو نصائح سے زخموں پر مرہم تو لگے گا مگر علاج نہیں ہوگا بلکہ وقت کے ساتھ مرض بڑھتا چلا جائے گا ، اس لیے غالب نے کیا خوب کہا تھا؎
رگوں میں دوڑنے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جو آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے

عدالتِ عظمیٰ کے اندر جس وقت اترپردیش سرکار کو یہ پھٹکار لگائی جارہی تھی اسی دن ملک سے غداری کے ایک معاملے میں دہلی کی کڑکڑڈوما کورٹ نے دہلی تشدد کے ملزم شرجیل امام کی ضمانت عرضی خارج کر دی ۔ شرجیل امام نے ہائی کورٹ سے ضمانت طلب کی تو انہیں ذیلی عدالت میں بھیج دیا گیا اب وہاں درخواست خارج ہوئی تو وہ واپس ہائی کورٹ میں آئیں گے ۔عدالتِ عالیہ سے ضمانت مل جائے تو اسے انتظامیہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردے گا اس طرح عدالتی پھیروں میں ایک بے قصور نوجوان جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید رہے گا۔ جیل بھی ایسی کہ جہاں تلاشی کے دوران افسران کی موجودگی میں دیگر قیدی دہشت گرد ہونے کا الزام عائد کرکے حملہ کرنے کی بات کہتے ہیں ۔ شرجیل نے الزام لگایا تھا کہ جیل کا اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ تلاشی کی بہانے آٹھ دس لوگوں کے ساتھ اس کے سیل میں داخل ہوا۔ اس کے ساتھ مارپیٹ کی اور اسے دہشت گرد اور ملک دشمن کہہ کر مخاطب کیاگیا۔ عدالت جیل کے سی سی ٹی وی کی ریل دیکھی مگر ٹس سے مس نہیں ہوئی ۔ یہ معاملہ کب سپریم کورٹ میں جائے گا اور کب رہائی ہوگی کوئی نہیں جانتا؟

شرجیل امام جنوری 2020 سے عدالتی حراست میں ہیں ۔ ان کی ایک تقریر کو اشتعال انگیز قرار دے کر انہیں بغاوت کاملزم بنا دیا گیا ہے۔ دہلی پولیس نے امام کے خلاف چارج شیٹ داخل کرکے الزام لگایا تھا کہ انہوں نے مرکزی حکومت کے خلاف نفرت، توہین اور عدم اطمینان کو بھڑکانے والی تقریریں کیں اور لوگوں کو اکسایا جس کی وجہ سے دسمبر 2019 میں تشددبرپا ہوا حالانکہ سچائی تو یہ ہے کہ دہلی کا فساد ایک منصوبہ بند ساز ش کا نتیجہ تھا۔اس کی قیادت کپل شرما جیسے لوگوں نے کی تھی ۔ اشتعال انگیز نعرے مثلاً ’گولی مارو سالوں کو‘ لگانے والےتو مرکزی حکومت میں وزیر بن گئے لیکن شہریت (ترمیمی) ایکٹ اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) کے خلاف تحریک چلانے والے عمر خالد ، خالد سیفی اور شرجیل امام جیسے لوگوں کو تشدد کا ذمہ دار ٹھہرا کر جیل بھیج دیا گیا ۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے بھیما کورے گاوں کی یلغار پریشد پر حملہ آور ایک بوٹے اوربھیڈے کو بچانے کے لیے پروفیسر تیلتمبڈے اور گاڈلنگ جیسے لوگوں کو قوم کا باغی قرار دے دیا گیا ۔ ان معاملات میں اگر عدلیہ انصاف نہ دے سکے تو وعظ و نصیحت کا کیا فائدہ؟

فی الحال دنیا بھر کی نگاہیں انسانی حقوق کی اس پامالی پر مرکوز ہے۔ امریکہ کے معروف دانشور نوم چومسکی اور گاندھی جی کے پوتے راج موہن گاندھی نے دہلی فسادات کے ملزم عمر خالد کی حراست پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ عمر خالد کو دہلی پولیس نے ستمبر 2020 میں گرفتار کیا تھا۔ ان عالمی شہرت یافتہ دانشوروں کے علاوہ امریکہ کی چار موقرتنظیموں ہندوس فار ہیومن رائٹس، انڈین امریکن مسلم کونسل، دلت سالیڈریٹری فورم اور انڈین سول واچ انٹرنیشنل نے بھی حال میں رہائی کا مطالبہ کیاتھا ۔ نوم چومسکی نےتو دوٹوک انداز میں کہا تھا کہ ، ’امتیازی شہریت قانون CAA اور NRC کے خلاف آواز اٹھانے والے عمر خالدپر دہشت گردی اور فسادات بھڑکانے کابے بنیاد الزا م لگا کر طویل عرصے سے جیل میں رکھا گیا ہے۔انہیں ضمانت نہیں دی جا رہی ہے۔ ان کے خلاف واحد ’سخت‘ الزام یہ ہے کہ وہ بولنے اور احتجاج کرنے کے اپنے آئینی حق کا استعمال کررہے تھے۔ یہ کسی بھی آزاد معاشرے کے لیے شہریوں کا بنیادی استحقاق ہے۔‘ عدلیہ پر تنقید کرتے ہوئے نوم چومسکی نے کہا کہ ’’ان واقعات نے ہندوستان کے عدالتی نظام کا برا چہرہ پیش کیا ہے۔اس دوران جبر اور تشدد کے واقعات نے ہندوستانی اداروں اور شہریوں کو حقوق کے استعمال سے روکا ہے۔ یہ ہندوستان میں سیکولر جمہوریت کو نقصان پہنچانے اور ہندو نسل پرستی کو مسلط کرنے کی کوشش ہے۔‘

نو م چومسکی کے سخت تبصرے کو ان کی لاعلمی کہہ کر مسترد کرنے والے گاندھی جی کے پوتے راج موہن گاندھی سے متعلق ایسا کہنے کی جرأت نہیں کر سکتے ۔ انہوں نے بھی عمر خالد کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’بھارت کی جیلوں میں ایسے بہت سے لوگ ہیں، جنہیں نہ تو جلد رہا کیا جا رہا ہے اور نہ ہی انہیں مناسب طریقے سے انصاف مل رہا ہے۔عمر خالد جیسے باصلاحیت نوجوان کو UAPA کے تحت جیل میں رکھ کر گزشتہ 20 مہینوں کے دوران انصاف اور عوامی سماعت سے محروم رکھا گیا ہے۔ انسانی حقوق کے دفاع کے عالمی اعلامیہ کے مطابق یہ ان کا حق ہےجس پر 1948 میں ہندوستان نے دستخط کیے تھے۔امریکن یونیورسٹی میں پروفیسر راج موہن گاندھی کے مطابق ، ’عمر خالد اور ایسے ہزاروں لوگوں کو جیل میں رکھنے کا ایک اضافی دن دنیا میں جمہوریت اور انسانی وقار پر چوٹ اور ہندوستان کےشرف کو دھچکا ہے۔‘ انہوں نے عمر جیسے آزادی اور مساوات کی خاطر لڑنے والوں کے لیے دستورِ ہند اور انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کی بنیاد پر فراہم کردہ حق کوبحال کرنے کی جدوجہد جاری رکھنے کا عزم کیا ۔ اس معاملے میں عدلیہ کا کردار سب سے اہم ہے اور ملک کے عوام بے صبری سے اس کی ادائیگی کے منتظر ہیں ۔ عمر خالد، تیستا سیتلواد ، شرجیل امام اور ہمانشو کمار پر عدلیہ کے فیصلوں پرمظفر وارثی کا یہ شعر صادق آتاہے؎
یہ فیصلہ تو بہت غیر منصفانہ لگا
ہمارا سچ بھی عدالت کو باغیانہ لگا
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1448693 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.