گورنر راج: کب اور کیسے لگایا جاسکتا ہے؟ ماضی کے تجربے اور حال کے تجزیے

image
 
پنجاب میں اقتدار کی جنگ ہارنے کے بعد حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) نے صوبے میں گورنر راج لگانے کے بارے میں بیان بازی شروع کردی ہے۔ یہ وہی پنجاب ہے جہاں سابق صدر آصف علی زرداری نے 2009میں اس وقت کے وزیراعلیٰ شہباز شریف سے اختیارات چھین کر اپنے گورنر سلمان تاثیر کو سونپ دیئے تھے۔ ماضی میں پنجاب ہی نہیں سندھ اور بلوچستان میں بھی گورنر راج لگایا جاچکا ہے-
 
جیسا کہ آپ کو یاد ہوگا کہ ماضی میں نواز شریف اور محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت کو دو دو بار برطرف کیا جاچکا ہے۔ ماضی میں صدر مملکت کو آئین کی شق 58-2B کے ذریعے یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ کسی بھی وقت اسمبلیاں تحلیل کرسکتے ہیں اور ایسے ہی جب وزیراعظم چاہیں کسی بھی صوبے میں گورنر راج لگاسکتے تھے- لیکن 18 ویں ترمیم کے بعد اسمبلیاں توڑنا اور گورنر راج لگانا بہت مشکل ہوچکا ہے۔
 
چند ماہ قبل جب ملک میں تحریک انصاف کی حکومت تھی تو اس وقت وفاق سے سندھ میں گورنر راج لگانے کی آوازیں سنائی دیتی رہی ہیں لیکن شدید ترین خواہش کے باوجود پی ٹی آئی سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو ہٹانے سے قاصر رہی۔ گورنر راج دراصل کسی صوبے کا نظام حکومت براہ راست وفاقی حکومت کے سپرد کرنے کا نام ہے۔
 
 
وفاق کی طرف سے کسی صوبے میں ایمرجنسی کی صورت میں گورنر راج نافذ کیا جاسکتا ہے مگر اٹھارہویں ترمیم کے تحت گورنر راج کے نفاذ کو صوبائی اسمبلی کی منظوری سے مشروط کردیا گیا ہے جس کے بعد وفاقی حکومت کے لیے آسان نہیں کہ کسی صوبے میں مخالف جماعت کی حکومت کا اثر ختم کرنے کے لیے گورنر راج نافذ کرے۔
 
آئین کی شق 232 کے مطابق ملکی سلامتی کو درپیش خطرات اور ہنگامی صورتحال میں صدر مملکت فوری ایمرجنسی نافذ کر کے گورنر راج لگا سکتے ہیں لیکن گورنر راج کیلئے متعلقہ اسمبلی سے قرار داد منظور کروانا لازمی ہے اور اگر متعلقہ اسمبلی سے منظوری نہ ملے تو پھر دس دن کے اندر اس کی قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں سے منظوری حاصل کرنا ضروری ہے۔
 
پی ٹی آئی کے دور میں اس وقت کے وزیرداخلہ شیخ رشید گورنر راج کے خواہشمند رہے ہیں اور چونکہ گورنر راج کی سمری وزارت داخلہ کی ذمہ داری ہے اس لئے موجودہ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ بھی گورنر راج کا شوق پال بیٹھے ہیں۔ شیخ رشید تو گورنر راج کی خواہش دل میں لئے وزارت سے بے دخل ہوگئے لیکن اگر رانا ثناء اللہ کی خواہش پر نظر کی جائے تو یہ دیوانے کے خواب سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ گورنر راج لگانے کیلئے اس وقت وفاقی حکومت کے پاس کوئی معقول جواز نہیں ہے اور اگر وزیراعظم چاہیں بھی تو پنجاب میں گورنر راج لگانا آسان نہیں۔
 
image
 
پنجاب میں گورنر راج کیلئے سب سے پہلے صدر کی منظوری چاہیے جو کہ عارف علوی کبھی نہیں دینگے۔ اگر وفاقی حکومت کسی اور طریقے سے پنجاب میں گورنر راج لگانا چاہے تو سپریم کورٹ کسی صورت یہ ممکن نہیں ہونے دیگی۔ اس کے بعد رہ جاتی ہے اسمبلی، تو خدا خدا کر کے بننے والی پی ٹی آئی حکومت کے ارکان کسی صورت گورنر راج کی سمری منظور نہیں ہونے دینگے۔ یوں رانا ثناء اللہ کی دھمکی یا خواہش شائد دل میں رہ جائیگی۔
YOU MAY ALSO LIKE: