پاکستان کے75سال
(Athar Masud Wani, Rawalpindi)
قیام پاکستان کے75سال مکمل ہونے کے موقع پر ہمیں یہ صورتحال درپیش ہے کہ ملک پہ مسلط ماورائے آئین و قانون حاکمیت کی پالیسیوں نے ملک اور عوام کو خراب اور نامراد کرتے ہوئے کمزور سے کمزور تر کیا ہے۔ملک میں حاکمیت کا تعین اب بھی بنیادی مسئلے کے طور پر درپیش معاملہ ہے۔ملک و عوام کو اس حال پہ پہنچانے کے ذمہ دار، پالیسیاں بنانے اور چلانے والے، اب بھی اپنی غلطیاں تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور وہی غلطیاں دہرانے کو ملک کا مفاد قرار دینے پہ مصر ہیں جن کی وجہ سے ملک اس حال کو پہنچا ہے۔آج75سال کے حالات و واقعات کا تجزئیہ کرتے ہوئے یہ سوال سامنے آتا ہے کہ کیا ہم آزاد ہیں؟ یا ہم پہ مخصوص عناصر کی حاکمیت مسلط رکھتے ہوئے ہمارے ملک کو ایک آلہ کار کے طور پراستعمال کیا جاتاہے، جس کے نتائج نہ تو ملک اور نہ ہی عوام کے حق میں بہتر ثابت ہوئے ہیں۔اب تو یہ دعا کرنا بھی عبث معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے حاکموں کو اس باقی ماندہ ملک کی اہمیت اور افادیت کا ادراک ہو۔
|
|
|
اطہر مسعود وانی پاکستان کے قیام کو75سال مکمل ہو گئے ہیں۔14اگست1947کو عوامی فلاح و بہبود ، عوامی حاکمیت کے خواب کے ساتھ قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں ایک آزاد و خود مختار ملک کا قیام عمل میں آیا۔قائد اعظم پاکستان بننے کے 11ماہ بعد وفات پا گئے۔پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان4سال کے بعد راولپنڈی میں سازش کے طو رپر قتل کر دیئے گئے۔ اس کے بعد سرکاری ، حکومتی سطح پہ سازشوں کا سلسلہ تیز تر ہوا ۔1956میں ملک کا پہلا آئین بنا۔گورنر جنرل سکندر مرزا نے اکتوبر 1958میں آئین منسوخ کر دیا اوراس کے بعد جنرل ایوب نے ملک میں مارشل لاء لگا کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔جنرل ایوب نے 1962میں صدارتی نظام پر مبنی طرز حکومت مسلط کرتے ہوئے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی قیادت میں قائم قومی عوامی سیاسی اتحاد کو اپنی مسلح اور سرکاری طاقت کے بل بوتے دھونس اور دھاندلی سے شکست دی ۔جنرل ایوب نے 1962میں نیا آئین متعارف کرایا۔
تقریبا 11سالہ اقتدار کے بعد ملک گیر عوامی مظاہروں کی وجہ سے جنرل ایوب کو اقتدار چھوڑنے پہ مجبور ہو نا پڑا تاہم جنرل ایوب نے 1969 میں اقتدار پارلیمنٹ کے سپیکر کے حوالے کرنے کے بجائے جنرل یحیی کے حوالے کر دیا۔ جنرل یحیی نے1970میں الیکشن کروائے ،مشرقی پاکستان کی عوامی لیگ کی کامیابی کو تسلیم نہ کرتے ہوئے اقتدار عوامی لیگ کے حوالے نہ کرنے پر مشرقی پاکستان میں عوامی تحریک چلی ۔ مشرقی پاکستان میں بغاوت، آرمی ایکشن اور انڈیا کی فوجی مداخلت کی مدد سے مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے میں بنیادی وجہ مغربی پاکستان کی مشرقی پاکستان کے ساتھ معاشی، سماجی ، اقتصادی اور سیاسی تعصب اور استحصال رہا ۔
مغربی پاکستان پر مشتمل نئے پاکستان کا اقتدار ذالفقار علی بھٹو کے حوالے ہوا۔بھٹو نے پہلے سول چیف مارشل لاء ایڈ منسٹریٹر کے طورپر سابق مارشل لاء حکومتوں کے اقدامات کی توثیق کرتے ہوئے ، عوامی وزیر اعظم کے طور پر ملک کا اقتدار سنبھال لیا۔1973میں ذالفقار علی بھٹو نیتمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے نیا آئین بنایا جو مختلف تبدیلیوں کے ساتھ اب بھی نافذ العمل ہے۔1977میں الیکشن میں دھاندلی کے الزامات پر عوامی تحریک کی صورتحال میں جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کر دیا،1979میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے ایک مقدمے میں پھانسی دے دی۔ 1985میں غیر جماعتی انتخابات کراتے ہوئے مارشل لاء اٹھایا۔ 1988میں ایک فضائی حادثے میں جنرل ضیاء کی ہلاکت کے بعد جنرل مرزا اسلم بیگ نے فوری طور پر الیکشن کرائے جس میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بن گئیں اور انہوں نے ملک میں فوجی اقتدار کا خاتمہ اور جمہوریت بحال کی۔
1988 سے 1999کے درمیان حکومت بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے پاس رہی، ہر ایک 1988 اور 1999 کے درمیان مسلسل دو مرتبہ وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہے۔1988-90 اور 1993-96 کے دوران بے نظیرل بھٹو؛ اور شریف 1990-93 اور 1997-99 کے دوران وزیر اعظم رہے۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ کوئی بھی منتخب وزیراعظم اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری نہ کر سکا۔1999میں جنرل پرویز مشرف نے مارشل لاء نافذ کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔نام نہاد ریفرنڈم کے ذریعے خود کو آئندہ پانچ سال کے لئے صدر بنایا اور2002میں لیگل فریم ورک آڈر کے تحت آئین میں کئی ترامیم کرائیں۔پہلے ظفر اللہ جمالی اور بعد ازاں شوکت عزیز کو وزیر اعظم مقرر کیا۔انہوں نے ظفر اللہ جمالی اور بعد ازاں شوکت عزیز کو وزیر اعظم مقرر کیا۔2007میں عدلیہ کومعطل کرنے کے خلاف عوامی حمایت یافتہ وکلاء تحریک سے ان کا اقتدار کمزور ہوا اور 2008 میں مواخذے سے بچنے کے لئے مستعفی ہونے پر مجبور ہوئے اور لندن چلے گئے۔2008 کے الیکشن سے پہلے ہی بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی میں دہشت گردی کے ایک واقعہ میں قتل کر دیا گیا۔الیکشن میں کامیابی سے پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی،اس حکومت نے18ویں ترمیم کے ذریعے صدارتی نظام ختم اور پارلیمانی طرز حکومت بحال کیا۔
مشرف عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے 2013 میں پاکستان واپس آئے، لیکن ملک کی اعلی عدالتوں کی جانب سے نواب اکبر بگٹی اور بے نظیر بھٹو کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے جانے کے بعد انہیں الیکشن میں حصہ لینے سے نااہل قرار دے دیا گیا۔ 2013 میں نواز شریف کے دوبارہ منتخب ہونے پر، انہوں نے مشرف کے خلاف ایمرجنسی کے نفاذ اور 2007 میں آئین کو معطل کرنے میں سنگین غداری کے الزامات پر مقدمات کا آغاز کیا۔ مشرف کے خلاف مقدمہ 2017 میں شریف کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد بھی جاری رہا، اسی سال جب مشرف کو دبئی منتقل ہونے کی وجہ سے اکبر بگٹی قتل کیس میں مفرور قرار دیا گیا تھا۔ مشرف کو غداری کے الزام میں ان کی غیر حاضری میں موت کی سزا سنائی گئی۔
نواز شریف کی حکومت قائم ہوتے ہی ملک میں پس پردہ سازشوں کا ایک نیا دور شروع ہوا۔2014میں عمران خان اور طاہر القادری کا اسلام آباد میں حکومت کے خلاف پارلیمنٹ کے سامنے طویل دھرنا کرایا گیا۔2017میں پانامہ کیس میں وزیر اعظم نواز شریف کو وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹاتے ہوئے سیاست میں نااہل قرار دیا گیااور2018کے الیکشن میں'' ووٹ سے دشمن کو شکست دینے کے نعرے '' کے ساتھ، عالمی سطح پہ تسلیم شدہ دھاندلی کے ذریعے عمران خان کو کامیابی دلاتے ہوئے اقتدار میں لایا گیا۔ پس پردہ سازشوں کی صورتحال میں ، عالمی سطح پہ ، پاکستان پہ مخفی اقتدار کے حوالے سے '' ہائبرڈ نظام'' کی اصطلاح استعمال ہونے لگی جو اب تک مسلسل انداز میں جاری ہے۔عمران خان حکومت میں ملک کو بدترین اقتصادی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔آزادی اظہار پہ سخت پابندیاں عائید کی گئیں ،سیاسی مخالفین کے خلاف بدترین انتقامی کاروائیاں عمل میں لائی گئیں۔
2020میں ملک کی 13اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد '' پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ'' قائم ہوا۔' پی ڈی ایم ' اتحاد نے پارلیمنٹ کی بالادستی قائم کئے جانے کے بیانیہ کے ساتھ ملک گیر جلسے کئے جس سے ملک کے' ہائبرڈنظام' اور عمران خان حکومت کی پوزیشن کمزور سے کمزور ہوتی چلی گئی۔عمران خان حکومت میں ملک کی اقتصادی بدحالی تشویشناک حالت کو پہنچی ، ملک دیوالیہ ہونے کے دھانے پہ پہنچ گیا اور عوام کے لئے شدید معاشی بوجھ اور بدحالی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔اسی صورتحال میں عمران خان حکومت اور فوج کے '' ایک پیج'' پہ ہونے کا بیانیہ کمزوری سے ہمکنار ہوا، حکومت اور فوج کے درمیان اختلافات بڑہتے نظر آنے لگے اور اسی تناظر میں 2022اپریل میں ڈرامائی طور پر ' پی ڈی ایم' اتحاد نے اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے عمران خان حکومت کو ختم کرتے ہوئے خود حکومت سنبھال لی۔
پاکستان میں20ویں صدی کا خاتمہ اور 21صدی کا آغاز جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء میں ہوا۔جنرل مشرف نے ملک کو طاقت کی بنیاد پر ملک کو نا صر ف سیاسی طور پر فتح کیا بلکہ ملک میں دہشت گردی کے خلاف اس طویل جنگ کا بھی آغاز کیا جو دو عشرے سے زائد وقت گزر جانے کے باوجود اب تک جاری ہے۔جنرل مشرف نے بلوچستان کے مسائل کو سیاسی بنیادوںپر حل کرنے کے بجائے فوجی طاقت کی بنیاد پر حل کرنے کی حکمت عملی اختیار کی اور اسی دوران ایک فوجی حملے میں سابق گورنر، سابق وزیر اعلی اکبر بگٹی کو ہلاک کر دیا گیا۔یوں تو قیام پاکستان کے وقت سے بلوچستان میں علیحدگی پسند عناصر متحرک رہے لیکن بلوچستان کو سیاسی طور پر ڈیل کئے جانے سے ایسے عناصر محدود سے محدود ہوتے ہوئے عمومی عوامی حمایت سے محروم رہے۔ تاہم اکبر بگٹی کے قتل اور بلوچستان کو مسلح طاقت سے ڈیل کرنے کی حکمت عملی سے بلوچستان کے حالات تیزی سے خراب ہوتے چلے گئے۔قبائلی علاقوں میں عوامی حقوق کے حوالے سے عوامی تحریک چلی جو اب بھی مختلف انداز میں جاری ہے۔
مشرف دور میں ہی ہندوستانی مقبوضہ کشمیر میں جاری مزاحمتی تحریک سے عملی طور پر لاتعلقی اختیار کرنے کی پالیسی اختیار کی گئی جس سے ہندوستان کو کشمیریوں کی مزاحمتی تحریک کے خلاف اور عالمی سطح پہ تسلیم شدہ متنازعہ ریاست جموں وکشمیر کو مصنوعی طور پر تقسیم کرنے والی لائین آف کنٹرول پر باڑ کی تعمیر سے اس تقسیم کو مضبوط بنانے میں بڑی مدد ملی۔ہندوستان نے5اگست2019کو مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی ریاستی حیثیت کو ختم کرتے ہوئے ہندوستان میں مدغم کرنے کا اقدام کیا۔لیکن جنرل مشرف کی اختیار کی گئی لاتعلقی کی حکمت عملی پہ عمل پیرا پاکستان انتظامیہ نے بیانات میں محدود ہوتے ہوئے کوئی سرگرم ردعمل ظاہر کرنے سے گریز کی حکمت عملی ظاہر کی۔
کئی بار یہ بات زیر بحث آتی ہے کہ 11 اگست 1947 کوپاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی سے قائد اعظم کے خطاب کو سنسر کیا گیا، قائد اعظم کے اس خطاب کی ریکارڈنگ غائب کر دی گئی۔اس خطاب میں قائد اعظم نے کہا تھا کہ آپ آزاد ہیں، آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے، آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے اور ریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے، آپ کا تعلق کسی بھی مذہب ذات یا نسل سے ہو۔ ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ قیام پاکستان سے تین دن پہلے قائد اعظم کی پاکستان کے بارے میں اس ہدایت، پیغام کو کس نے چھپانے کی کوشش کی،یقینا انہوں نے ہی ایسا کیا جن کا اس وقت اقتدار قائم تھا یعنی برٹش حکام۔کیا برطانیہ نے پاکستان کے لئے ایک مذہبی ریاست کا راستہ طے کررکھا تھا؟آ ج ایک بار پھر پاکستان میں اسلامی صدارتی نظام قائم کرنے کی لابنگ نظر آتی ہے۔ پاکستان میں مختلف نوعیت کے مذہبی عناصر کو مضبوط بنانے کی کوششیں نظر آتی ہیں۔یعنی مذہب کو حاکمیت کی سیاست میں ایک ' ٹول ' کے طور پر استعمال کو ایک کارگر حربہ سمجھا جاتا ہے۔
اب قیام پاکستان کے75سال مکمل ہونے کے موقع پر ہمیں یہ صورتحال درپیش ہے کہ ملک پہ مسلط ماورائے آئین و قانون حاکمیت کی پالیسیوں نے ملک اور عوام کو خراب اور نامراد کرتے ہوئے کمزور سے کمزور تر کیا ہے۔ملک میں حاکمیت کا تعین اب بھی بنیادی مسئلے کے طور پر درپیش معاملہ ہے۔ملک و عوام کو اس حال پہ پہنچانے کے ذمہ دار، پالیسیاں بنانے اور چلانے والے، اب بھی اپنی غلطیاں تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور وہی غلطیاں دہرانے کو ملک کا مفاد قرار دینے پہ مصر ہیں جن کی وجہ سے ملک اس حال کو پہنچا ہے۔آج75سال کے حالات و واقعات کا تجزئیہ کرتے ہوئے یہ سوال سامنے آتا ہے کہ کیا ہم آزاد ہیں؟ یا ہم پہ مخصوص عناصر کی حاکمیت مسلط رکھتے ہوئے ہمارے ملک کو ایک آلہ کار کے طور پراستعمال کیا جاتاہے، جس کے نتائج نہ تو ملک اور نہ ہی عوام کے حق میں بہتر ثابت ہوئے ہیں۔اب تو یہ دعا کرنا بھی عبث معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے حاکموں کو اس باقی ماندہ ملک کی اہمیت اور افادیت کا ادراک ہو۔
|