تقریبا 30 سال پہلے یونیورسٹی آف انجئنرنگ اینڈ ٹیکنولوجی
لاہور سے الیکٹریکل انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد میں نے مختلف
اداروں اور کمپنیوں میں ملازمت کے لئے درخواستیں دینا شروع کر دیں۔ ٹیسٹ
اور انٹرویوز ہوتے رہے۔ ایک دو جگہ سے ملازمت کے لئے بلاوہ بھی آیا۔ ایک دن
تقریبا 10 بجے صبح مجھے ایک فون پر بتایا گیا کہ محسن صاحب مبارک ہو، آپ
منتخب ہو گئے ہیں، اپنا پاسپورٹ ہمیارے پاس جمع کرائیں اور شام 4 بجے اسلام
آباد ایرپورٹ پہنچ جائیں کیوں کہ آپ نے فرانس جانا ہے، وجہ یہ تھی کہ فرانس
میں ایک اعلی ٹیکنیکل ٹریننگ شروع ہو رہی ہے اس میں شامل ہونا بہت ضروری
ہے۔
یہ بات سنتے ہی ٹیلی فون کا رسیور میرے ہاتھ سے گرتے گرتے بچا۔
میں نے فورا یہ بات اپنے والدین کو بتائی۔ میری والدہ کو یقین نہیں آ رہا
تھا کہ جسے تھوڑی دیر پہلے گھر کا سودا لانے کے لئے بازار بھیجا تھا، وہ اب
کچھ دیر میں فرانس جا رہا ہے۔ اور جس نے کبھی لاہور بھی اکیلے سفر نہیں کیا
وہ کیسے اکیلے باہر کے ملک جا سکتا ہے۔
میرے والد صاحب کو تو یہ سو فیصد انسانی سمگلنگ کا کیس لگ رہا تھا۔ وہ بار
بار کمپنی کی تفصیلات پوچھ رہے تھے۔
والدہ نے ڈھیر نصیحتوں، آنسووں اور دعاووں کے ساتھ گھر سے روانہ کیا۔ والد
صاحب اور بھائی کے ساتھ ائیر پورٹ پہنچا۔ پاسپورٹ اور ٹکٹیں مجھے اور میرے
ساتھ منتخب ہونے والے انجینیر کو ایر پورٹ دی گئیں۔ ہماری فلائٹ کچھ اس طرح
تھی۔ اسلام آباد کراچی لندن پیرس لنیوں (مغربی فرانس)
رات میں نے کراچی میں اپنی بہن کے گھر گذاری جو کہ پاکستان نیوی میں ڈاکٹر
ہیں انھوں نے بھی نصیحتوں کی لسٹ تیار رکھی ہوئی تھی۔۔ اور وہیں سے سلسلہ
شروع کیا جہاں سے والدہ نے چھوڑا تھا۔ اگلی صبح وہاں سے لندن اور پھر پیرس
اور پھر آٹھ سو کلومیٹر دور لینیوں اگلے دن تین بجے گرتے پڑتے اس حالت میں
پہنچے کہ ہمارا سامان نہیں پہنچ سکا۔ اور وہ ہمیں دو دن کے بعد ملا۔
یہ مضمون میرے فرانس جانے کے بارے میں نہیں ہے بلکہ فرانس سے پاکستان واپسی
کے متعلق ہے۔
پیرس La Paris
لاہور کے بعد مجھے ذاتی طور پر جو شہر پسند آیا ہے وہ پیرس ہے۔ (بقول شاعر
کیا بات ہے لاہور کی۔۔)
پیرس ایک بہت خوبصورت شہر ہے۔ جدید اور قدیم پیرس کو بہت خوبصورتی سے محفوظ
کیا گیا ہے۔ فرانس پہنچ کر ہم نے اپنی کمپنی کے تعلیمی ادارے کو درخواست دی
کہ پڑھنا لکھنا ہم بعد میں کرتے رہیں گے، پہلے ہمیں پیرس کی سیر کروائی
جائے جو کہ انھوں نے فورا قبول کر لی اور ہمیں بتایا کہ یہاں آنے والا ہر
طالب علم سب سے پہلے یہی درخواست کرتا ہے۔اس لئے سب کے لئے اگلے ہفتہ پیرس
کی سیر کا پروگرام رکھا ہے۔ پیرس کی سیر پر ایک الگ کتاب لکھی جا سکتی ہے۔
پیرس کی سب سے خوبصورت جگہ شانزے لیزے میں پاکستان کی ایمبیسی قائم ہے۔
وہاں پاکستانی پرچم دیکھ کر بہت خوشی پوئی۔ اس سیر کے باوجود ہمیں پیرس کی
مزید سیر کی خواہش تھی۔ اس لئے ہم نے اپنے واپسی کے سفر میں اپنا پیرس کا
قیام بڑھا دیا۔
فرانس میں قیام کے دوران یہ دو کام تو ہم نے باقائیدگی سے ہفتہ وار کئے۔
1۔ نماز جمعہ کی ادائیگی جس کے لئے ہمیں اپنے تعلیمی ادارے سے آدھے دن کی
چھٹی لینا پڑتی تاکہ ہم 50 کلو میٹر دور جار کر ایک جامع مسجد میں جمعہ پڑھ
سکیں کیونکہ جہاں ہم رہتے تھے وہاں کوئی جامع مسجد نہیں تھی۔ (لیکن اب
گذشتہ دس سال میں وہاں بڑی جامع مساجد بن چکی ہیں ما شاء اللہ)
2۔ فرانس کے مختلف شہروں کی سیر۔ مغربی فرانس جسے Brittany بھی کہتے ہیں
بہت خوبصورت شہروں پر مشتمل ہے گویا کہ اسلام آباد کے ساتھ سمندر کو لگا
دیں۔ بریٹینی کے صدر مقام شہر کا نام رینیس Rennese (یعنی ملکہ) ہے۔ یہ
فرانس کا دوسرا بڑا اور خوبصورت شہر ہے۔ اس کے علاوہ جنوبی فرانس South of
France جس پر فرانسیسی لوگ فخر کرتے ہیں، ویاں بھی گئے۔ ہمیں یہ بھی پتا
چلا کہ فرانسیسی لوگ پیرس اور بڑے شہروں میں رہنا پسند نہیں کرتے بلکہ گاوں
میں رہتے ہیں۔ ہمارے ایک استاد ہمیں اپنے گاوں میں اپنا گائیوں بھینسوں کا
فارم دکھانے لے کر گئے۔ یہ فارم مکمل طور پر کمپئوٹر کنٹرول تھا۔ہر گائے کے
گلے میں ایک چپ لگی تھی جس میں گائے کی ضرورت کے مطابق خوراک اور صحت کی
معلومات ہوتی تھیں۔
فرانس سے واپسی کا سفر
فرانس رہتے ہوئے ہماری ایک اور خواہش یہ بھی تھی کہ فرانس میں دنیا کی تیز
ترین ریل گاڑی TGV کا بھی سفر کیا جائے۔ جس نے اس وقت 500 کلو میٹر فی
گھنٹہ رفتار کا عالمی ریکارڈ بنایا تھا۔ اس کے لئے ہم نے اپنی ٹریننگ کے
اختتام پر واپسی کے لئے لینیون سے پیرس کا سفر ٹرین TGV سے کیا۔ تقریبا 800
کلو میٹر کا سفر 2 گھنٹے میں مکمل ہوا۔
پیرس پہنچ کر ہم نے یورو ڈزنی، ایفل ٹاور، شانزے لیزے اور بہت سے مقامات کی
سیر بھی کی۔ ایفل ٹاور کی سب سے اونچی منزل پر تیز ہواوں کی وجہ سے جگہ
مسلسل ہچکولے کھا رہی ہوتی ہے۔ یہ ایک گول دائرے کی شکل میں ہے جہاں سے ہر
ملک کی سمت دکھائی گئی ہے
چارلس ڈی گال - پیرس کا ہوائی اڈا
پیرس میں دو ہوائی اڈے ہیں اورلی اور چارلس ڈی گال۔ ہماری واپسی چارلس ڈی
گال ہوایی اڈے سے تھی۔ یہ ایک بہت بڑا، جدید اور خوبصورت ہوائی اڈہ ہے۔ ایر
پورٹ سے پہلے ایک راستے پر دنیا کے ہر ملک نے اپنی فضائی کمپنی کے سٹال اور
پوسٹر لگا رکھے تھے اور وہاں موجود ان کا عملہ لوگوں میں معلوماتی کارڈ
بانٹ رہا تھا۔ ہم نے اپنی ایئرلائین پی آئی اے کا سٹال ڈھونڈا تو ایک جگہ
وہ نظر آیا کہ جیسے اسلام آباد کا مسمار شدہ چائے کا کھوکھا۔ اور معیار کو
برقرار رکھنے کے لئے ایک ٹوٹی ہوئی میز اور کمزور سی کرسی بھی اس میں رکھی
ہوئی تھی۔ اور عملہ غائب۔ یہ دیکھ کر دلی صدمہ ہوا کہ جہاں ساری دنیا سے
سیاح موجود ہیں وہاں ہمارے ملک کی نمائندگی ہی کوئی نہیں
اس کے بعد ہم ائرپورٹ میں داخل ہو گئے۔ وہاں ایک پریشان کن بات پتہ چلی کہ
ہاتھ میں موجود سامان کا بھی وزن ہو گا اور 20 کلوگرام سے زائید فی کلو
گرام پاکستانی روپے کے حساب سے 2000 روپے دینا پڑیں گے۔ ہم دونوں کے پاس
ہاتھ کے سامان کا وزن 30 - 30 کلو گرام تھا۔ یعنی اب ہمیں بیس بیس ہزار
روپے الگ سے دینے پڑیں گے۔ ہم اپنا سامان کھول کر بیٹھ گئے اور حساب کرنے
لگے کہ کیا چیز یہیں ایرپورٹ پر ہی چھوڑ دی جائے تاکہ جرمانہ نہ دینا پڑے۔
ہمارے علاوہ بھی یہ کام بہت سے لوگ کر رہے تھے، گویا کہ راولپنڈی کے راجہ
بازار کا منظر لگ رہا تھا کہ جہاں لوگ بیچنے کے لئے اپنا سامان زمین پر رکھ
دیتے ہیں۔ ابھی ہم اپنا سامان زمین پر رکھ کر حساب کتاب کرنے میں مشغول ہی
تھے کہ ایک پی آئی اے کی یونیفارم پہنے ایک افسر وہاں آیا۔ اور وہاں پر
موجود ان سب لوگوں کو دیکھنے لگا جو اس طرح کے حساب کتاب میں مشغول تھے
۔ہمیں پہلے ہی پی آئی اے پر افسوس اور غصہ تھا، اور اوپر سے یہ موصوف زخموں
پر نمک چھڑکنے پہنچ گئے تھے۔ ہم نے اس افسر کو ایسے دیکھا کہ جیسے ایک دکھ
بھرا مظلوم فریای دیکھتا ہے۔ ہماری حالت دیکھتے ہوئے اس افسر نے اونچی آواز
میں فرانسیسی میں کہا Trente kilo یعنی تیس کلو گرام۔ اس افسر کے ان الفاظ
سے ہمارے پی آئی اے سے تمام گلے شکوے دور ہو گئے اور دل کر رہا تھا کہ جا
کر اس افسر کو گلے لگا لوں کہ جس کی وجہ سے ہمارا سامان اور زر مبادلہ بچ
گیا۔
PK 704
ہماری پی آئی اے کی فلائٹ کا نمبر PK704 تھا۔یہ پی آئی اے کی ایک مشہور
فلائٹ تھی جو کہ نیو یارک، لندن، پیرس، فرینکفرٹ، دبئی اور اسلام آباد جاتی
تھی۔ جہاز دو منزلہ بڑا سا بوئنگ 747 تھا۔ ہم جیسے ہی جہاز میں داخل ہوئے
تو یوں لگا کہ جیسے پاکستان میں پسنجر ریل گاڑی کے کسی ڈبے میں آ گئے ہیں۔
لوگ چار چار سیٹوں پر چادر تان کر سوئے ہوئے تھے۔ سامان فرش پر ادھر ادھر
پڑا تھآ۔ کہیں بچے کھیل رہے تھے تو کہیں خواتین اپنے گھریلو مسائیل پر
باتیں کر رہی تھیں۔ جہاز کا عملہ اور پائیلٹ مسافروں سے اپنی اپنی نشستوں
پر جانے کےلئے التجائیں درخواستیں کر رہے تھے۔ ابھی میں اپنے ماحول کا
جائزہ لے ہی رہا تھا کہ آواز کانوں سے ٹکرائی "محسن، تم ادھر کیا کر رہے
ہو؟" میں نے دیکھا تو وہ ہمارے عرصے کے بچھڑے ہوئے دور کے فیاض ماموں تھے
جو تقریبا 25 برس بعد نیویارک سے پاکستان جا رہے تھے۔ ان کو اپنی داستان
سنائی اور باقی کا سفر ان کے طے کیا۔ اور پھر الحمد للہ 6 گھنٹے بعد اپمے
مکمل سامان کے ساتھ گھر پہنچ گیا
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزارہا شجر سایہ دار راہ میں ہے
|