خوف اور راشنکوف

کراچی سے سورج کچھ زیادہ ہی تپا ہوا تھا، اِس لیے اوروں پر دھوپ اور اہل کراچی پر آگ بسا رہا تھا۔ بارش کا انتظار تھا۔ آسمان سے بوندیں تو چند ہی برسیں، گولیاں البتہ برستی رہیں۔ برساتی نالے سوکھے پڑے رہے اور خون کی ندیاں بہتی رہیں۔

مگر پھر اچانک ایک بڑے شہر کو دوسرے بڑے شہر پر رحم آگیا۔ جس سُہانے موسم کو ہم ترستے رہتے ہیں وہ نمودار ہوا اور اہل کراچی کے دل و جاں کو قرار سا آگیا۔ تھوڑی سی بارش ہوئی اور موسم خوشگوار ہوگیا۔ لوگ سوچنے لگے یہ کیسے ہوگیا؟ لندن کا موسم کراچی میں کیسے آگیا؟ مگر پھر عقدہ کھلا کہ لندن نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بارٹر سسٹم (مال کے بدلے مال) کے تحت اپنا موسم ہمیں دیا ہے اور ہمارے حالات اپنے دامن میں سمیٹ لیے ہیں! بڑے شہروں کی بڑی باتیں!

بگ بینگ کے شہر میں اچانک ایک بگ بینگ ہوا۔ نرم خُو لوگوں کی بستیاں اچانک آپے سے باہر ہوگئیں، ظرف کے پیمانے پولیس کے ہاتھوں محض ایک شہری کی ہلاکت سے چھلک گئے۔ ہنگامہ آرائی اور لُوٹ مار کی ایسی فصل تیار ہوئی کہ پورا شہر لالو کھیت کا منظر پیش کرنے لگا! جس طرح ایک ہی رات میں بانس کا درخت زمین کا سینہ چیر کر نکل آتا ہے کچھ اُسی طرح دِلوں میں اچانک کئی کٹی پہاڑیاں اُبھر آئیں! گورے شہر پر کالوں نے کالک پوت دی۔ اچھے خاصے ترقی یافتہ اور پُرسُکون شہر میں جاہل اور پس ماندہ اقوام کا کلچر انگڑائی لیکر خواب ناز سے بیدار ہوا۔ مقامی اور غیر مقامی کے قضیے نے پھر سر اُٹھالیا۔ دوسروں کو جہنم کی دہلیز تک پہنچاکر اپنی جنت بسانے والوں کو جب اپنے پیروں تلے سے جنت سرکتی ہوئی محسوس ہوئی تو بپھر گئے۔ لندن وہی شہر ہے جس میں دوسروں کے گریبان میں جھانکنے کے شوقین نشریاتی ادارے کا صدر دفتر ہے! پُرلطف نکتہ یہ ہے کہ لُوٹ مار کے الزام میں گرفتار کئے جانے والوں کے پُرتاسّف جملے میڈیا میں پیش کرکے اُنہیں بلوائی کے بجائے ”ضمیر کے قیدی“ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ شاید اِسی کو ٹیکس ادا کرنے والوں کے دیئے ہوئے نمک کا حق ادا کرنا کہتے ہیں!

زہے نصیب، لندن کے مکینوں کو بھی کچھ اندازہ تو ہوا کہ نو گو ایریاز کیا ہوتے ہیں! تین دن تک یہ ہوا کہ ہزاروں افراد کام پر تو گئے مگر گھر واپس نہ پہنچ سکے کیوں کہ اُن پر خود اُنہی کے گھر کے راستے مسدود تھے! یہ تو خالص اورنگی ٹاؤن والی کیفیت ہے کہ گھر سے کام پر جانے کے لیے نکلو تو کہیں اور ٹھہرنے کا اہتمام بھی کر رکھو!

سرکاری وظیفوں پر مزے لُوٹنے والوں کے دِماغ نے پلٹا کھایا، پیٹ بھرے کی مستی رنگ لائی اور صفِ اول کے بین الاقوامی شہر میں لُوٹ مار کا بازار گرم ہوا۔ دنیا حیران تھی کہ دریائے ٹیمز کے کنارے لاقانونیت کا یہ کیسا سمندر موجیں مار رہا ہے! ایشیائی باشندوں کی دُکانیں لُوٹنے والے جن شر پسندوں کو پولیس نے گرفتار کیا ان میں ایک گیارہ سالہ لڑکا بھی تھا۔ ایسی ہی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ہنگامہ آرائی کے دوران مال غنیمت لُوٹنے والوں میں چند لڑکیاں بھی تھیں جن میں سے ایک کو سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے گرفتار کرکے عدالت میں پیش کردیا گیا۔ یہ خبر پڑھ کر ہمیں بس یوں ہی خیال آیا کہ ہماری لڑکیاں اور خواتین تو اِس معاملے میں بھی خاصی ”بیک ورڈ“ نکلیں!

لندن نے کراچی کے حالات کو گلے لگاکر محض چار دنوں میں ماضی کا سفر کیا یعنی پچیس سال پیچھے چلا گیا۔ 1986 میں بھی لندن کو بدامنی، ہنگامہ آرائی اور لُوٹ مار کا دورہ پڑا تھا۔ اُس وقت بھی تین چار دن شر پسند دندناتے پھرے تھے اور برطانوی دارالحکومت میں گویا کوئی تباہ حال افریقی شہر آ بسا تھا!

لندن سے شروع ہونے والے ہنگاموں اور لوٹ مار نے سات شہروں کو لپیٹ میں لیا۔ پورا نظام ہی تلپٹ ہوکر رہ گیا۔ پہلے دو دن تو حکومت کی سمجھ ہی میں نہ آیا کہ کیا ہو رہا ہے! پھر حواس بحال ہوئے تو کئی شہر سُکون کا سانس لینے کے ساتھ ساتھ سرد آہیں بھی بھرتے دکھائی دیئے۔

معمولی سے واقعات میں ”انقلاب“ کی جھلک دیکھنے والے مغربی مبصرین نے شاید خود کو سُونگھ لیا ہے اِس لیے خاموش ہیں! اگر یہ سب کچھ کسی پس ماندہ ملک میں ہوا ہوتا تو اب تک کئی سوال مغربی میڈیا کے ذریعے دنیا کے سامنے پیش کیے جاچکے ہوتے۔ قتل و غارت میں انقلاب تلاش کیا جا رہا ہوتا، بدامنی کو فیصلے کی گھڑی قرار دیا جا رہا ہوتا اور پورے ملک کو دو راہے پر کھڑا ہوا دِکھانے کی تیاری کی جا رہی ہوتی! کیا لندن کے واقعات اِس امر کے غماز نہیں کہ ایک نیا یورپ اُبھر رہا ہے؟ دوسروں کی لُوٹ مار اور قتل و غارت کو انقلاب قرار دیتے نہ تھکنے والے اپنے گریبان میں جھانکنے سے کیوں گریز کر رہے ہیں؟

جب انسان کا خُبثِ باطن بیدار ہوکر رُو بہ عمل ہوتا ہے تو من و تو کا فرق مٹ جاتا ہے۔ جب انفرادی مفادات پر زد پڑتی ہے، سہولتوں کا بازار مندی سے دوچار ہوتا ہے اور ہنستی گاتی زندگی میں ذرّہ بھر بھی خرابی دکھائی دیتی ہے تو تمام مسلّمہ اقدار دھری کی دھری رہ جاتی ہیں! بدحواسی کے بازار میں
ہم ہوئے، تم ہوئے کہ میر ہوئے

سبھی ایک جیسی دکانداری کر رہے ہوتے ہیں! جب دِلوں میں لالچ کے بھوکے بھیڑیے بپھر کر غُرّاتے اور تنگ نظری کے کالے کُتّے بھونکتے ہیں تو کراچی اور لندن ایک ہی ساز کی صدا معلوم ہوتے ہیں!

اہل کراچی نے انتباہ ملنے پر ایک ماہ کا راشن خریدنا شروع کیا تھا مگر اہل لندن تو اُن سے دو ہاتھ آگے نکلے۔ برطانوی ”سیاہ و سفید“ کے مالک یعنی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے سینہ تان کر کہا کہ خوف کا کلچر کسی طور شہروں اور دِلوں پر مسلط نہیں ہونے دیا جائے گا۔ وزرائے اعظم ایسی ہی باتیں کیا کرتے ہیں، اُن کی کون سُنتا ہے؟ راشن کے معاملے میں لندن کے مکینوں نے ”فرنٹ فٹ“ پر کھیلنے کو ترجیح دی اور خریداری کا ارادہ طاق نسیاں پر رکھ کر لوٹ مار میں لگ گئے! سرکار سے ملنے والا وظیفہ گھٹائے جانے پر بھوکے رہ جانے کا ایسا خوف دِلوں پر طاری ہوا کہ یار لوگ دُکانوں کے تالے توڑکر، شٹر اٹھاکر اشیائے خور و نوش لے اُڑے۔ وائے ناکامی کہ ہم کلاشنکوف کی منزل پر ٹھہر گئے ہیں اور لندن کے ”سیاہ و سفید“ عدیم المثال پُھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ”راشنکوف“ تک پہنچ گئے!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 525221 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More