ذہانت شرط ہے - حصہ دوئم

کالج کی طرف سے منو کے نام سے ملنے والا اجازت نامہ تھام کر مجھے یوںلگا جیسے میں نے سکندر کی حیثیت سے آدھی دنیا فتح کرلی ہو۔ اب میرے اور ٹی وی پر آنے میں اب صرف ایک نام نہاد کمرہ امتحان ہی رہ گیا تھا، بشر طیکہ بھانڈا نہ پھوٹ جاتا۔ ٹی وی اسٹیشن پر پہنچنے کا وقت بارہ بجے تھا۔ اس زمانے میں پاکستان ٹیلی ویژن کے کراچی مرکز میں گھسنا کوئی آسان کام نہ تھا ۔ کام کے متلاشی اور بہترین ٹیلنٹ رکھنے والے فنکاروں کو کسی پروڈیوسر کے سامنے جاکر صرف چند لمحوں کی پرفارمنس دکھانے کی حسرت ہوتی تھی۔ مگر وائے افسوس کہ جو لوگ عمر دراز مانگ کر لائے تھے چار دن، ان فنکاروں کی آرزوﺅں کے کئی دن ٹی وی اسٹیشن کے داخلی دروازے پر ہی کٹ جاتے تھے۔ اور ہم یہ شارٹ کٹ مارکر چند ہی لمحوں بعد منو کے کالج کا کارڈ اور پرنسپل صاحب کا اجازت نامہ دکھا کر ’کراچی ٹی وی ‘ کے اندر غڑاپ سے داخل ہوچکے تھے۔ اِس دوران ہمیں یہ بھی پتہ چلا کہ ٹی وی اسٹیشن کے استقبالیہ پر بیٹھے کلرک بادشاہ کی ایک نظرِ کرم حاصل کرنے کیلئے لوگ کیا کیا تگڑم نہیں لگاتے ۔

اس دن میں نے پوری کوشش کی کہ کسی جاننے والے کا سامنا نہ ہو مگر پھر بھی ایک آدھ جاننے والے سے سامنا ہوہی گیا۔ میرے اور مولانا واسع کے درمیان حرام ہونے والی واحد مرغی کے مسئلے سے سبھی آگاہ تھے اِس لئے ایک آدھ نے پوچھا بھی کہ، ”حضرت آپ یہاں آئے، کس لئے ؟“۔ اور میرا جواب ہوتا تھا۔ ”صرف آپ جیسے لوگوں کی محبت کھینچ لائی“۔ ایک آدھ عقلمند نے حیرانگی کا اظہار بھی کیا کہ بڑی پہنچ رکھتے ہو جو بغیر کسی سفارش ٹی وی اسٹیشن کی عمارت کے اندر آگئے۔ وجہ وہی جو اوپرآچکی۔

جب ذوق آگہی کا دعویٰ رکھنے والے سب لوگ اپنے ناموں کا اندراج منتظمین کے پاس کرواچکے تو کچھ دیر بعد اعلان ہواکہ تمام شرکاء کمرہ امتحان میں چلے جائیں۔ میںنے اِس کے بر عکس دکھانے کو ایک کتاب پکڑلی اور لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے صوفے پر بیٹھے سب کے جانے کا انتطار کرنے لگا ۔ جب سب جاچکے تو میں نے یوں ظاہر کیا جیسے میں کسی گہری نیند سے جاگا ہوں اور منتظم کو جا پکڑا کہ ہم بھی پڑے ہیں راہوں میں۔ دیر سے رابطہ کرنے پر وہ حضرت مجھے لفظوںسے بنے جتنے جوتے مارسکتے تھے انہوں نے ایسا کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ چھوڑا۔ مگر میں پرنسپل گورنمنٹ ڈگری سائنس کالج صابر کالونی سے نبٹ چکا تھا ، سو انہوں نے بھی تھوڑی دیر بعد مجھے ایک کاغذ پکڑایا اوریوں منو کا بھوت تحریری امتحان کیلئے کمرہ امتحان میں داخل ہوگیا۔ سب سے آخر پہنچنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ کسی کو میرے آنے کی کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ سو نمبروں کا امتحانی پرچہ مجھے آج بھی یاد ہے کہ اس میں پندرہ نمبر قومی ترانہ لکھنے کے تھے (شائد پرچہ اسوقت کے کسی فیصل قریشی نے بنایا ہو)۔ گھنٹا وقت ِامتحان کیلئے مخصوص تھا مگر میں پچاس منٹ بعد ہی پرچہ پیچھے کھڑے ایک ہرکارے کو دے کر پیٹ پر ایسے ہاتھ پھیرتے باہر بھاگا کہ وہ میری جلد بازی دیکھ مسکرا اٹھے۔ اپنی ایکٹنگ کو مزید پکا رنگ دینے کیلئے میں نے واقعتا ٹوائلٹ کا راستہ ناپا اور جب تک وہاں سےفارغ ہوکر ایک دو اسٹوڈیو ز کا چکر لگاکر واپس آیا تو معلومات عامہ کے باقی چیمپئن واپس آچکے تھے۔ اور میں بھی ان میں یوں گھل مل گیا اور امتحان میں کیا کیا آیا ایسے پوچھنے لگا جیسے کچھ جانتا نہیں!

ایک ڈیڑھ گھنٹہ سب امیدواروں کو زبردستی انگریزی کی ایک دستاویزی فلم دکھائی گئی جسکے خاتمے سے پہلے ہی غالباً ناظم بھائی ( اس وقت کے اسسٹنٹ پروڈیوسر ناظم الدین) نے سب کو آگاہ کیا کہ نوجوانوں تمہاری قسمتوں کا فیصلہ نوٹس بورڈ پر لگا دیا گیا ہے۔ نتیجہ آیا تو اکثر لوگوں کو پریشانی لاحق ہوگئی کیونکہ غیر متوقع طور پر پندرہ کامیاب امیدواروں میں ایک نام بالکل نیا تھا۔ اور پریشان ہونے والوں میں سب سے پیش پیش میں تھا جو سب سے پوچھ رہا تھا کہ یاروں یہ ”نعیم زیدی “ کون ہے؟۔

فہرست میں نام تھا بھی کافی اوپر ، اسلئے کچھ لوگوں کو کھد بھد تو ہوئی لیکن زیادہ نہیں۔ اسی ماحول میں پروگرام پروڈیوسر (غالباً حیدر امام رضوی) نے اعلان کیا کہ تمام کامیاب امیدوار اپنے مہمانوں کو ساتھ لانے کیلئے چار چار دعوت نامے وصول کرلیں۔ تھوڑی دیر بعد جب مجھ سمیت سب لوگ باہر آچکے تو میں نے واسع سے کہا کہ دوست میں اندر اپنے کاغذات بھول آیا ہوں ،”ذرا لمحہ ٹہر ساقی کہ میں لوٹ آﺅں“۔

اندر جاکر پھر وہی کہا نی دہرائی گئی اورمنتظمین سے وقت پر رابطہ نہ کرنے پر معذرت کی ، پھر سو جوتے مزید کھانے کے بعد سو پیاز یں وصول کیں (چار دعوت ناموں کی شکل میں) او ر ایک دعوت نامہ بنام منو کہ ٹی وی انتظامیہ فلاں تاریخ کو آپکی شرکت کی متمنی ہے ، دیکھئے بھولئے گا مت وگرنہ پروگرام شروع نہ ہوپائے گا۔ باہر واسع میری جان کو روتے انتظار کررہے تھے یہ جانے بغیر کہ میں ان سے شرط لگاکر کس اوکھلی میں سر دے چکا ہوں اور اب سر پر پڑنے والے موسلوں سے نبرد آزما ہوں۔

گھر واپس پہنچا تو والدہ بہشتن نے صرف وہ یونیورسل جملہ کہا جو بیٹے کی گھر آمد پر ہر عظیم ماں کہتی ہے یعنی،” بیٹا آگئے“۔

گرچہ اس وقت میں خاصہ کم عمر تھا اور پورے شہر میں اکیلے کدکڑے لگاتا پھرتا تھا لیکن والدہ نے ہمیشہ میرے بڑے بھائی عارف زاہدی اور مجھ پرا عتبار کیا کہ جو کچھ کررہے ہیں ، ٹھیک ہی کررہے ہونگے۔ ممکن ہے کچھ عرصے تک ”گورنمنٹ گرلز سیکنڈری اسکول مراد میمن ، سعود آباد“ کی ہر دلعزیز ڈرائنگ اور امور خانہ داری کی استانی صاحبہ سیدانی نجمہ جعفری نے ہمارے پیچھے کوئی چڑیا بھی لگائے رکھی ہو ، لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ جب ریڈیو، ٹی وی اور اخبارات میں ہمارا نام اور کام اچھے کاموں کیلئے آنے لگا تو یہ اعتبار اوراعتماد مزید بڑھکر اور راسخ ہوتاگیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ مائیں جو اپنے لڑکوں کو آنچل کے سائے میں سینے سے لگاکر رکھتی ہیں انکے حق میں حقیقتاً مشکلات پیدا کررہی ہوتی ہیں۔ رابندر ناتھ ٹیگور کی نظم کا ابتدائیہ انہی ماﺅں کے نام ہے کہ ”ماں تو مجھے اطلس اور کمخواب کے کپڑے پہناکر کھیلنے کو مت بھیج۔۔۔۔“۔ بہر حال ، ” میری ماں تیرا شکریہ کہ تونے مجھے اطلس اور کمخواب سے دور رکھا“۔

مزید چند دن تک میں ایک عجیب کشمکش میں مبتلا رہا، ٹی وی پر میری پہلی رونمائی ہونے والی تھی اور یہ مجھ جیسے ۰۸ گز کے گھر میں رہنے والے خاندان کیلئے ایک بڑی بات تھی۔ لیکن سرخاب کا یہ پر اپنے کارناموں کی ٹوپی پر کس طرح سجاﺅں اور والدہ کو کس طرح آگاہ کروں؟۔ میری انا کا مسئلہ جو بظاہر ایک ایسی شرارت تھا جسکی بنیاد جھوٹ پر رکھی گئی تھی ، اسنے مجھے سخت مشکل میں پھنسا دیا تھا۔ اب میں اِس مسئلے سے کیسے نبرد آزما ہوں اور مکڑی کے اِس جالے سے کیسے نکلو ں ، بظاہرکوئی راستہ سجھائی نہیں دے رہا تھا کیونکہ زندگی ٹوٹل کنفیوژن تھی۔

ذوق آگہی کی تیاری تو ایک طرف رہی میں تو اس مخمصے میں بھی گرفتا ر تھا کہ ٹی وی سے ملنے والے چار دعوت ناموں کا کیا کروں ؟ کیونکہ وہاں جاکر جو ممکنہ خفت ساتھ جانے والوں کو ملنی تھی اس کا ہونا تقریباً یقینی تھا۔ اور یوں گھر سے کسی بھی بڑے کو ساتھ لیجاکر پروگرام میں بٹھانا نری بے وقوفی تھی۔

بہر حال جذبات ، عقل پر حاوی رہے اور میں پورے معاملے کو پی گیا۔ صرف نفلی عبادات کی رفتا ر تھوڑی بڑھ گئی جسمیں کامیابی کی بجائے میں صرف یہ دعا مانگتا تھا ،”اے اللہ میاں ۔ عزت کے ساتھ میری بے عزتی ہو“۔

تاریخ مقررہ اور مقام مذکورہ پر سب کے ساتھ میں بھی ٹی وی اسٹیشن پہنچ گیا جہاں ایک اسٹوڈیو میں تیار کیا گیاسَیٹ سب کا انتظار کررہا تھا۔ ایک اسٹیج پر لمبی سی کانفرنس ٹیبل رکھی تھی جس کے دوسری طرف پندرہ کرسیاں رکھی تھیں۔ ہر کرسی کے مقابل ٹیبل پر لکڑی سے بنی ناموں کی ایک ایک تختی بھی دھری تھی جس پر ٹی وی اسٹیشن کے کسی خطاط نے خوبصورتی سے صاحب کرسی کے نام لکھ رکھے تھے۔ اب تک جو کچھ ہو چکا تھا اورجو کچھ ہو رہا تھا وہ میرے لئے قابل قبول تھا لیکن اس واحد لمحے میرے دل کو ایک چوٹ سی لگی ، ”کاش ! ایک تختی پر میرا نام بھی لکھا ہوتا ۔ دوسرے لوگوں کی طرح میرے والدین بھی براہ راست اس مقابلے کو یہاں دیکھ رہے ہوتے اور ساتھ میری کامیابی کی دعائیں بھی کرتے “۔ کاش ایسا نہ ہوتا جو ہونے جارہا تھا کیونکہ یہ بات یقینی تھی کہ کچھ دیر بعد جب میرا بھانڈا پھوٹتا تو مستقبل میں میرا ٹی وی اسٹیشن میں داخلہ ہی بند ہوجاتا!

میرے پاس کوئی گیم پلان نہیں تھا ایک صورت تو یہ تھی کہ میں واسع کواصل حقیقت سے آگاہ کرتا اور غائب ہوجاﺅں، لیکن ایسی صورت میں ٹی وی پر شکل آنے والا میرا دعویٰ پورا نہ ہوپاتا۔ دوسری صورت وہی کہ اوکھلی میں سر دیا تو موسل سے کیا ڈرنا۔یعنی چڑھ جا بیٹا سولی پر کہ رام بھلی کرے گا۔

لوگ ایک دوسرے سے تعارف کراتے رہے۔ سَیٹ پر موجود معلومات عامہ کے ہمارے دوستوں کی اطلاع کیلئے میں وہاں واسع کے مہمان کی شکل میں پہنچا تھا۔ ایک آدھ بار نعیم زیدی صاحب کا تذکرہ خیر بھی آیا جنکے نام کی کرسی دو بہترین شرکاء طارق شمیم اور حافظ نور محمد کے درمیان دھری تھی اور انکی درجہ بندی کا چیخ چیخ کر اعلان کررہی تھی۔ پرویز صادق، واسع ، سعید احمد سعید، سید عارف مصطفی جہاں ابتدا ئی ناموں میں تھے تو وہیں مسرور احمد نے ٹیبل کی دوسری طرف براجمان ہونا تھا۔ کچھ دیر بعد اعلان ہوا کہ پروگرام کے میزبان قریش پور تشریف لا چکے ہیں اِس لئے سب لوگ اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ جائیں۔ چودہ ستارے اپنی اپنی جگہوں پر پہنچ گئے مگر پندرہواں ستارہ ایک کتاب کے پیچھے اپنا منہ دیئے تماشہ دیکھنے والوں کے ساتھ بیٹھا رہا اور نعیم زیدی کی خالی کرسی سب کا منہ چڑاتی رہی۔ شرکاء کو تشویش یقیناً ہوئی لیکن منتظمین کو فوری پریشانی اسلئے نہیں ہوئی کہ میں ایک ہرکارے کے کان میں جاکر یہ مذاق کر آیا تھا کہ نعیم زیدی کو قے اور اسہال کا مرض لاحق ہو چلاہے اور وہ بیت الخلا ء میں اپنا وزن کم کرنے ابھی ابھی صرف مجھے بتاکر گئے ہیں۔ سچ ہے ایک جھوٹ کو چھپانے کیلئے سینکڑوں جھوٹ یونہی نہیں بولنے پڑتے۔قریش پور صاحب نے مائیک کی ٹیسٹنگ کرلی ، پروگرام کے سوالوں کا جائزہ بھی لے لیا اور جب سب کچھ ہی ہوچلا تو حیدر امام رضوی نے اسٹارٹ ساﺅنڈ ایکشن سے پہلے کہا کہ پروگرام شروع ہونے والا ہے، اگر نعیم صاحب آچکے ہوں تو اپنی جگہ جا بیٹھیں ۔ اتنا سننا تھا کہ میںنے اپنا پیٹ سہلایا ، ”کھیعص “ کا وظیفہ پڑھا ور عازم اسٹیج ہوچلا۔ اوپر گنوائے تمام نامو ں نے مجھے اسٹیج کی طرف آتے دیکھا تو زیادہ تر میرے وہ سب دوست مسکرا اٹھے۔ واسع کو کچھ پریشانی ہوئی۔ لیکن میں بے غیرتی اور ڈھیٹ پن کی ساری حدوں کو توڑتا، پیٹ کو پکڑے کرسی پر جا بیٹھا۔ وہاں بیٹھے چند منٹ ہی ہوئے تھے کہ بائیں ہاتھ پر بیٹھے طارق شمیم نے مجھے ایک پرچی دی جس پر واسع کی تحریر میں لکھا تھا، ”بہت اچھے! لیکن خبردار جو دوسرے مرحلے کیلئے کوالی فائی کیا“۔ تحریر کے نیچے ، مجھ سے پہلے بیٹھے تمام لوگوں کے دستخط ان سب کی منشاءکی عکاسی کررہا تھا۔ میں نے اوپر نظریں اٹھائیں تو یہ سب لوگ میری حرکت پر بدستور مسکرارہے تھے۔ایک دو نے انگوٹھا ہوا میں بلند کرکے میرا حوصلہ بھی بڑھایا تو بے اختیار میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ریکارڈنگ شروع ہوئی تو ہر شریک نے اپنا نام اور تعلیمی ادارے کا نام تختی کے مطابق دہرایا۔ باری آنے پر میں نے بھی مائیک کے پاس منہ لیجاکر کہا، ”نعیم زیدی، گورنمنٹ ڈگری سائنس کالج صابر کالونی“ ۔

پندر ہ نام دہرانے کے بعدتماشائیوں کی طرف سے تالیوں کے پیٹنے کا عمل کیا گیا۔اتنے میں مجھے اپنے داہنے ہاتھ کی طرف سے ایک سرگوشی سنائی دی،”اوئے رضی ۔ تم؟“۔ یہ آواز میرے ساتھ بیٹھے نابینا ساتھی حافظ نور محمد کی تھی۔ جو اب تک ہونے والے ڈرامے سے بے خبر تھے۔ میری مختصراً ”اونہوں“ کے جواب میں انکی فرمائش تھی کہ ان کے حصے کے سوال سن کر ہم نے اسکا جواب کسی پتلی چلانے والے کی طرح بند ہونٹوں سے منمنا ناکر دینا تھا۔ چاہے حافظ صاحب کو اس کا جواب آتا ہو یا نہیں۔

قصہ مختصر پہلے مرحلے میں تمام شرکاءسے تین تین آسان سوال پوچھے گئے ۔ پندرہ میں سے دس لوگوں نے دوسرے مرحلے کیلئے کوالی فائی کرنا تھا۔ تینوں جواب درست دینے والے خود بخود دوسرے مرحلے میں چلے جاتے تھے ۔میں نے ایک سوال کا جواب دینا اِس لئے مناسب نہ سمجھا کہ مبادا دوسرے مرحلے میں نہ چلے جاﺅں۔ یو ں دو درست جواب دینے والوں میں جب ٹائی پڑی ، تو انمیں میںبھی شامل تھا اور اس ٹائی کے دوران میںنے بظاہرسخت مقابلہ کرتے ہوئے آخر کار اسلئے ہتھیار ڈال دیئے کہ یہ ہمارے دوستوں کی صائب رائے بھی تھی اور میرے گیم پلان میں بھی شامل نہ تھا۔ پہلے مرحلے کے بعد کرسیاں سمیٹی گئیں تو میں نہ صرف اسٹیج سے نیچے آگیا بلکہ اپنا پرانا بہانا بناکر پہلے عازم بیت الخلاء اورپھر اپنے بیت کی راہ لی کہ خس کم جہاں پاک رہے اور نہ نو من تیل ہوگا اور نہ رادھا ناچے گی یعنی پروگرام کے بعد جب کوئی مجھے وہاں دیکھے گا ہی نہیں تو احتجاج کیسا۔

گھر آکر کسی کو کچھ بتلانا فضول تھا۔ لگ بھگ ایک ہفتہ بعد چودہ اگست کو ٹی وی پر پورے پاکستان نے جب مجھے ذوق آگہی میں اگر دیکھنا ہی تھا تو اسمیں اب چھپانا کیسا۔ لیکن سر پرائز رکھنے کیلئے میں نے چپ سادھنا ہی مناسب سمجھا ۔البتہ میں اپنا حلیہ بدلنا چاہتا تھا لیکن چونکہ اس وقت تک میری مسیں ہی نہیں بھیگی تھیں اسلئے مونچھوں کے کیسا تھ کوئی حرکت کرنا بے کار تھا ۔ البتہ حفظ ِماتقدم کے طور پر میں نے سر کے بالوں کی قربانی دینا مناسب سمجھی تاکہ ہفتے بعد ٹی وی پر آنے والے نمونے ’نعیم زیدی‘ اور مجھ میں کچھ تو فرق محسوس ہو۔

امول پالیکر کی ہندوستانی فلم ”گول مال“ اسوقت تک میری نظر سے نہیں گزری تھی ورنہ یقیناً میں ریکارڈنگ میں جانے سے پہلے گھر کے برتنوں کی صفائی میں استعمال ہونے والے کالے اسٹیل وول کے تاروں اور صمد بانڈ کے ملاپ سے اچھی سی مونچھیں لگا کر جاتا۔ بہر کیف۔۔۔

اللہ اپنے گناہ گاروں کا کیسے پردہ رکھتا ہے! اِس کا پتہ اس وقت چلا جب پروگرام 14 ، اگست کی بجائے ایک دن پہلے ہی ہوا کی لہروں پر چلاگیا یعنی آن ایئر ہوگیا۔ شومئی قسمت سب گھر والے اس دن کسی شادی میں شرکت کیلئے گھر سے باہر تھے اسلئے گھر میں کسی نے بھی ٹی وی پر وہ پروگرام نہیں دیکھا۔ والدہ کیلئے البتہ اس وقت مشکل پیدا ہوئی جب وہ اسکول گئیں تو انکی چند ساتھی اساتذہ نے (جو ہمیں اس وقت سے جانتی تھیں جب ہم چڈی پہنے اماں کی انگلی پکڑے ساتھ گرلز اسکول جاتے تھے ) مسز جعفری کو ہمارے ٹی وی پروگرام میں شریک ہونے پر مبارکباد دی اور مٹھائی کا تقاضہ بھی کیا، مگر ساتھ میں یہ بھی کہا کہ رضی نے مقابلہ تو خوب کیا لیکن اسکے کالج اور نام کا کیا چکر ہے؟ اسکول سے گھر واپسی پر والدہ نے جب ہمیں غصہ سے دیکھا اور پوچھا تو ہمارے پاس سادا سا جواب تھا ۔ ”اِن لوگوں کو کسی اور کی شکل پر میرا گمان ہوا ہوگا۔ ورنہ اگر میں ٹی وی اسٹیشن جاتا تو کیا آپ لوگوں کو ساتھ نہ لے جاتا“۔

کچھ دنوں بعد جب ایک دن اماں کے گلے میں ہاتھ ڈالے ہم نے اقرار جرم کیا تو انہوں نے مسکراتے جواب دیا،”میں تمہاری ماں ہوں، تمہاری رگ رگ سے واقف ، مجھے چڑیا نے بہت پہلے ہی بتلادیا تھا۔ اب تمہاری سزا یہ ہے کہ اگلے مقابلے میں اپنے نام سے شریک ہونا اور مجھے بھی ساتھ لے جانا۔“ چڑیا کا نام واسع تھا یا ہر ماں کے وسوسوں اور خدشات کی عملی شکل ، جو ہوکر رہتی ہے، مجھے آج بھی پتہ نہ چل سکا۔ اماں بھی بہشتن ہوئے ناتھا خان کے پل کے نیچے بنے قبرستان میں سو رہی ہیں ورنہ انکے گلے میں بانہیں ڈال پوچھ لیتا۔ البتہ انکی خواہش میری منزل بنی اور کچھ عرصے بعد میں نے ٹی وی پر ، نہ صرف ”میزان “ اور ”ذوق آگہی “ جیسے ذہنی آزمائش کے مقابلوں میں اپنے نام سے شرکت کی ، بلکہ پہلا نہ صحیح مگر دوسرا ، تیسرا انعام بھی حاصل کیا ۔ البتہ اِس دفعہ ایک بہت بڑا فرق تھا اور وہ یہ کہ جہاں میں اب بھی حافظ نور محمد کے ساتھ بیٹھا تھا وہیں میرے اصلی نام کے ساتھ سپیریئر سائنس کالج کی جگہ میری مادر گیتی کا نام،”این ای ڈی انجینئرنگ یونیورسٹی“ تھا جبکہ واسع، ڈاﺅ میڈیکل کالج کی نمائندگی کررہے تھے ۔ دوسری طرف، چشم فلک نے یہ وقت بھی دکھلایا کہ ذہنی آزمائش کے حوالے سے سپیریئر سائنس کالج کی زرخیز زمین اب بنجر ہوکر ڈگری کالج صابر کالونی بن چکی تھی۔

٭ تیس سال پہلے ملیر ۵۱ کے قبرستان کے پاس بنے ۰۸ گز کے گھر سے واسع نے جو سفر شروع کیا تھا ۔ ماں باپ کی دعاﺅں اور اپنی اَن تھک محنت سے ان کا شمار آج کراچی ہی نہیں جنوبی ایشیاءکے معروف نیورو سرجنز میں ہوتاہے ۔ گویا وہ اب اپنے مریضوں کے اعصاب سے کھیلتے ہیں۔ڈاکٹری کے بعد امریکہ سے ڈاکٹریٹ کرنے کی وجہ سے آج انکے پاس اِتنا وقت بھی نہیں کہ وہ یہ مضمون پڑھ سکیں اور اگرپڑھ لیں تو یاد کرسکیں کہ کیا کبھی ایسا بھی ہوا تھا؟ کیونکہ اتنی دیر میں وہ کئی مریض بھگتا لیتے ہیں۔ بفر زون کے اِتنے ہی بڑے گھر سے طارق شمیم نے ہرجاء ہمارے ساتھ این ای ڈی سے انجینئرنگ کی ، لیکن وہ بھی میکینیکل انجینئرنگ میں ڈاکٹریٹ کا تڑکا لگانے کے بعد آج امریکہ کی انتہائی مشہور یونیورسٹی MIT میں پروفیسر ڈاکٹر طارق شمیم ٹائپ کی چیز ہیں۔ پچھلے سال سنا ہے انہیں مختلف امریکی محکموں نے کئی ملین ڈالرصرف اِس مد میں دیئے تھے کہ وہ اپنے طالب علموں سے فیول سیل اور تھرمل سائنسزجیسی لغویات میں تحقیق کرائیں۔ پرویز صادق ، کے بارے میں سنا تھا کہ وہ ۸۸۹۱ءمیں مقابلے کا امتحان پاس کرکے سول سروس میں چلے گئے تھے۔ باقی سب کہاں ہیں ہمیں اس لئے نہیں پتہ کہ آج ہم وہاں ہیں جہاں ہمیں اپنی ہی خبر نہیں۔ آج ماں نہیں لیکن ماں قسم ! اسکی دعاﺅں کے صلے ، جہاں ہیں بہت خوش ہیں اور ہر سال لاکھوں روپے ٹیکس کی مد میں حکومتی خزانے میں جمع کراتے ہیں۔
Razi Uddin
About the Author: Razi Uddin Read More Articles by Razi Uddin: 3 Articles with 4465 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.