گھومتی ندی۔ایک گھومتی خودنوشت

گھومتی ندی ،پروفیسر وارث کرمانی کی خودنوشت ہے جو رام پور کی رضا لائبریری سے ۶۰۰۲ میں شائع ہوئی تھی۔لگ بھگ ۰۵۴ صفحات پر مشتمل اس خودنوشت کے ناشر ڈاکٹر وقار الحسن صدیقی ہیں، کتاب میں جن کا تعارف بطور افسر بکار خاص درج ہے۔ گھومتی ندی ماہنامہ شبخون الہ آباد میں ۲۰۰۲ سے ۵۰۰۲ تک قسط وار شائع ہوتی رہی تھی۔ پروفیسر کرمانی مدرس کی حیثیت سے علی گڑھ یونیورسٹی سے وابستہ رہے۔

اس خودنوشت کی ورق گرانی کے دوران مشفق خوا جہ مرحوم کے سدا بہار کردار استاد لاغر مراد آبادی یاد آئے۔ ایسی ہی ایک آپ بیتی کو پڑھنے کے بعد ، استاد خواجہ صاحب سے اس کا معاوضہ طلب کرنے لگے تھے۔ فرمایا کہ مصنف کو اس کے لکھنے میں اتنی محنت نہ کرنی پڑی ہوگی جتنی مجھے اس کو پڑھنے میں صرف ہوئی ہے۔ خودنوشت سوانح عمریوں کا ’پوسٹ مارٹم ‘ کرنے میں ڈاکٹر پرویز پروازی کا نام بھی کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ پس نوشت، پس پس نوشت اور اس کے بعد پس نوشت سوم میں ڈاکٹر پروازی نے یہ عمل جراحی بڑی بیدردی سے آزمایا ہے۔ کچھ کی اس عمل کے بعد سلائی کردی ہے، لیکن بہتیری تو ایسی ہیں کہ آپریشن کے بعد میز پر کھلے زخموں کے ساتھ جراح کے انتظار میں پڑی ہی رہ گئیں ۔

ڈاکٹر پروازی نے ہندوستان بالخصوص پٹنہ سے شائع ہوئی تما م خوددنوشتوں کو روکھا پھیکا قرار دیا ہے۔ گھومتی ندی ان کی نظر سے اوجھل رہی ورنہ شاید وہ بھی اس کی زد میں آجاتی۔

یہ ایک ایسے شخص کی داستان ہے جو ایک زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ کل نو ابواب پر مشتمل اس کتاب میں جابجا ایک بیان کردہ موضوع سے یک لخت دوسرے پر جست لگانے کی علت پائی جاتی ہے۔ ایک جگہ مصنف امریکہ کے پروفیسر برو س اور ان کی اہلیہ ، جو علی گڑھ میں تحقیق کے لیے آئے ہوئے تھے، سے اپنے تعلقات کا ذکر کرتے ہیں اور پھر یکایک دیوا شریف کی اودھی زبان کے اشعار اور کہاوتوں کا تذکرہ شروع ہوجاتا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ہم یہ کہیں کہ وارث کرمانی ۵۲۹۱ میں دیوا شریف میں پیدا ہوئے اور اب ریٹائر ہوکر دیوا شریف ہی واپس چلے گئے ہیں۔

یادوں کی برات میں حضرت جوش نے اپنے اٹھار ہ معاشقوں کا ذکر کیا ہے۔ یادوں کی برات پاکستان سے شائع ہوئی تھی، پروفیسر وارث کو ہندوستان میں یہ محاذ خالی جاتا دیکھنا گوارا نہ ہوا اور انہوں نے بھی جوش کی تقلید میں اپنی رومان پرور داستانوں کا ذکر کیا ہے۔ ایک معاملہ تو ایسا ہوا کہ وہ اپنی بیوی کی سہیلی کے خط کا جواب لکھنے کے دوران ان (سہیلی) پر عاشق ہوگئے۔۔۔۔ کچھ عشق کیا، کچھ کام کیا ، پھر دونوں کو بیوی کے ڈر سے چھوڑ دیا۔

قرة العین حیدر نے اپنا ناول آگ کا دریا زہرا خاتون بیگم جرار حیدر کے نام کیا تھا، انہی زہرا خاتون پر بھی پروفیسر صاحب عاشق ہوگئے تھے۔ نتیجہ خاتون کی بیزاری کی صورت میں نکلا۔

کہیں کہیں مصنف نے اپنے بارے میں بڑی بیباکی سے الفاظ و تشبیہات کا استعمال کیا ہے، ایک جگہ کہتے ہیں:”علی گڑھ یونیورسٹی میں، میں نے اپنے حلقہ احباب کو اخوان الشیاطین کا خطاب دے رکھا تھا، بغیر یہ سوچے ہوئے کہ میں خود انہی میں شامل تھا۔“

کتا ب کے شروع میں چند حضرات کے تبصرے بھی اہتمام کے ساتھ شامل کیے گئے ہیں۔ جموں سے کسی جگناتھ آزادنے لکھا ہے: ” وارث کرمانی کی گھومتی ندی کا تیسرا باب ارض کنعاں میں نے اپنی علالت کے باوجود اول سے آخر تک پڑھ لیا۔“

جگناتھ آزاد صاحب نے یہ نہیں لکھا کہ مذکورہ باب کو پڑھنے کے بعد ان کی علالت میں کیا رد و بدل ہوا ؟ یہ معمہ بھی حل طلب ہی رہا کہ آزاد صاحب ’ارض کنعاں ‘ پڑھنے سے پہلے علیل تھے یا اس کے بعد ہوئے !

گھومتی ندی کے مطالعے کے دوران قاری، اس کتاب کے ساتھ ہی گھومتا رہتا ہے۔ اور آخر میں اس پر یہ انکشاف ہوتا ہے کہ وہ ایک ہی دائرے میں گھوم رہا تھا۔

دائرہ وار ہی تو ہیں عشق کے راستے تمام
راہ بدل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں

گھومتی ندی ایک خودنوشت سے زیادہ پروفیسر وارث کرمانی کا ذاتی روزنامچہ معلوم ہوتی ہے۔ اس بات کا اعتراف انہوں نے کتاب کے صفحہ نمبر ۰۵۱ پر کھلے دل سے کیا ہے۔ اسی صفحے پر وہ مزید لکھتے ہیں: ” میری اس سوانح حیات میں جوحصہ سوانح نہیں ہے، وہی قابل توجہ اور باعث دلچسپی ہوسکتا ہے۔“

حیرت انگیز طور پر یہ بات اس کے برعکس ہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ مذکورہ کتاب کا و ہ تھوڑا سا حصہ جو سوانح ہے، وہی قابل توجہ ہے۔

پروفیسر صاحب نے ایک جگہ ظفر اقبال کے یہ اشعار نقل کیے ہیں اور خود بھی حیرت کا اظہار کیا ہے اور پڑھنے والے کو بھی اپنے انتخاب پر ششدر کردیا ہے:

رنگت ہی بدل گئی بدن کی
جب سانپ نے پہلی بار ڈسا
ڈھیلے ہیں پڑے ہوئے میاں تو
بیگم کا ابھی وہی ہے ٹھسا
پانی اتنا ملا کے اس نے
لسی کا کردیا ہے لسا

ایک دلچسپ اور واقعات سے بھری پری خودنوشت میں سے اقتباسات نکالنابہت دقت طلب کام ہوتا ہے ، اور کیا لیا جائے اور کیا چھوڑا جائے، اس کا فیصلہ مشکل۔۔۔۔ لیکن گھومتی ندی میں ایسے اقتباسات نکالنا جن میں میں دلچسپی کا عنصر ہو، اتنا آسان نہیں۔ اس کے لیے آپ کو لگ بھگ ۰۵۴ صفحات کا مطالعہ کرنا پڑے گا۔ کہتے ہیں کہ بعض سفلی عملیات میں الہامی کتابوں کو الٹا پڑھا جاتا ہے، اگر آپ اس پر عمل کرتے ہوئے گھومتی ندی کو بھی اسی طور برتیں تو منزل یک دم سہل ہوجائے گی اور کتاب کے آخری صفحے پر درج سب سے عمدہ پیراگراف سامنے ہوگا جو کچھ اس طرح ہے: ” گھومتی ندی بہت سے پیچ و خم اور نشیب و فراز سے گزرتی ہوئی اپنے مخرج تک پہنچنے والی ہے۔ میری پرشور زندگی گزر چکی ہے اور اس کی بہت دھندلی سی آواز بہت دور سے کانوں میں آرہی ہے، کبھی ابھرتی اور کبھی ڈوب جاتی ہے۔ میرے چاہنے والے میرے سرپرست رخصت ہوچکے ہیں۔ ندی کے پانی میں غروب آفتاب کا منظر میرے سامنے ہے۔شاد عظیم آبادی کی طرح میں حیرت و حسرت کا مارا خاموش کھڑا ہوں۔ ساحل پر حسرت بہت کم ہے، البتہ حیرت زیادہ ہے۔“

مندرجہ بالا اقتباس ہمیں اس لیے حسب حال لگا کہ گھومتی ندی پڑھنے کے بعد ہم بھی اسے ہاتھ میں تھامے حیرت و حسرت کی تصویر بنے کھڑے ہیں۔ حسرت بہت کم ہے، البتہ حیرت زیادہ ہے۔!
Rashid Ashraf
About the Author: Rashid Ashraf Read More Articles by Rashid Ashraf: 107 Articles with 300765 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.