دنیا میں شائد ہی کوئی انسان ایسا ہو جسے کبھی کسی نہ کسی
پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑا ہو اور اس وقت پریشانی پر قدم رکھ کرجو ثابت
قدم کھڑا رہتا ہے وہ جیت جاتالیکن جو لوگ پریشانیوں کو سر پر سوار کرلیتے
ہیں وہ نہ صرف ٹوٹ جاتے ہیں بلکہ بکھر بھی جاتے ہیں خوبصورت معاشرے میں ا
نسان کو اہمیت دی جاتی ہے اور مختلف ادارے اس مصیبت سے انسان کی جان
چھڑوانے کی کوشش کرتے ہیں رہی بات ہماری اورہمارے جیسے معاشرے کی جہاں ایسا
محسوس ہوتا ہے یہاں پر ہر ادارہ عام انسان کو مزید پریشان اور تنگ کرنے کے
لیے معرض وجود میں آیا یہاں کا کلرک بھی بادشاہ ہے جو بڑے بڑے افسران کو
بھی خاطر میں نہیں لاتاخوش قسمتی سے ان کلرک بادشاہوں سے جان جھوٹ جائے تو
اگلے مرحلے میں افسران سائل کا خون نچوڑنے کی کوشش کرتے ہیں اپنے اداروں کی
کارکردگی دیکھ کر بعض اوقات تو ایسا لگتا ہے یہ ادارے اور ان میں بیٹھے
ہوئے افراد ہماری مشکلات اور مسائل کو ختم کرنے کی بجائے انہیں مزید بڑھا
رہے ہیں انہی پریشانیوں کے ہاتھوں تنگ آکر بہت سے لوگ خود کشی بھی کرچکے
ہیں پنشن میں تاخیر ،زائد بلوں کی بھر مار اورسرکاری اداروں میں بیٹھے ہوئے
عوام دشمن افراد کے ناروا رویوں کے باعث میں نے خود احتجاج کے دوران لوگوں
کو اپنے اوپر پیٹرول چھڑکتے دیکھا ہے ان مظالم کے خلاف ایک سفید پوش شخص
کھڑا بھی نہیں ہوسکتا کیونکہ اسے انصاف کے حصول کیلیے وکیل کرنا پڑے گا جو
فیس کے ساتھ ساتھ قانونی اور غیر قانونی اخراجات کی بھر مار کردے گا پھر
عدالتوں میں وہ کیس کئی کئی سال چلے گا زندگی ساتھ دے تو فیصلہ سن لیتا ہے
ورنہ اگلی نسل تاریخیں بھگتے گی ہماری پولیس ،واپڈا ،سوئی گیس ،اے جی آفس
سمیت تقریبا سبھی محکمے عام لوگوں کو انصاف فراہم کرنے کی بجائے انہیں ذہنی
مریض بنا رہے ہیں میں سمجھتا ہوں کی اس وقت پاکستان میں غریب اور مجبور
عوام کی حقیقی معنوں میں اگر کوئی ادارہ خدمت کرہا ہے تو محتسب کا ادارہ ہے
جو مفت انصاف بانٹ رہا ہے بلکہ عام لوگوں کو ایسی ایسی سہولیات دیکر صدا
ئیں بلند کررہا ہے کہ ہے کوئی مفت میں انصاف لینے والا جہاں پرکوئی فیس
نہیں کوئی وکیل نہیں ،کوئی سفارش نہیں ،کوئی بحث اور تاریخ نہیں ،کوئی کوٹ
اور پتلون نہیں اور نہ ہی کوئی رشوت اور بخشش لینے پیچھے دوڑے گابلکہ یہ وہ
ادارہ ہے جہاں پھٹے پرانے اور ٹانکے لگی جوتی کے ساتھ غریب سائل کو عزت سے
بٹھا کر سنا جاتا ہیفوری فیصلہ سنایا جاتا ہے اور پھر اس فیصلے پر محتسب
پہرہ بھی دیتا ہے جب تک وہ مسئلہ حل نہ ہو جائے غریب اور پسماندہ طبقے کو
فوری اور سستا انصاف فراہم کرنے کے لیے حکومت نے 1983 میں وفاقی محتسب کا
ادارہ بنا یا تھا جو اپنے مختلف مراحل سے ہوتا ہوا اب ایک تناور درخت بن
چکا ہے جسکے سائے میں وہ لوگ آتے ہیں جنہیں کہیں سایہ نہیں ملتا کسی بھی
ادارے کا سربراہ ایک باپ کی مانند ہوتا ہے جو اپنے خاندان کا والی بھی ہوتا
ہے اور وارث بھی اگر کسی خاندان کا والی وارث کوئی نہ رہے تو پھر انکا
شیرازہ بکھر جاتا ہے جس طرح ہمارے دوسرے اداروں کا کوئی والی وارث نہیں ہے
جو اپنے اپنے کام کرنے کی بجائے دوسروں کے کاموں میں ٹانگ اڑانا اپنا فرض
سمجھتے ہیں پھر نہ وہ خود کسی کام کے رہتے ہیں اور نہ ہی انکا ادارہ لوگوں
کے لیے مفید رہتا ہے وفاقی محتسب کو جس شخص نے پاکستان کا سب سے مقبول
ادارہ بنایا وہ اعجاز احمد قر یشی ہیں جنہوں نے پہلے دن ہی اپنے تمام
افسران و عملے پر واضح کر دیا تھا کہ وفاقی محتسب سیکرٹر یٹ خد مت خلق کا
ادارہ ہے یہاں افسروں کی کو ئی گنجا ئش نہیں کہ یہ غر یب عوام کی داد رسی
اور ان کی جائز شکایات کے ازالے کے لئے بنا یا گیا ہے چنا نچہ شکایت کنند
گان کے ساتھ ہمد ردانہ بر تا ؤ کر تے ہو ئے ان کے وکیل کے طور پر ان کے مسا
ئل کو قا نون اور قاعدے کے مطابق جلدازجلد حل کر نے کی کو شش کی جائے انہوں
نے ادارے کو مز ید متحر ک کر نے کے لئے تیز ی سے نئی پالیسیا ں بنا ئیں اور
ایسے متعدد نئے اقدا مات اٹھا ئے جن کی وجہ سے اس ادارے پر عوام کا اعتماد
بڑھا سال رواں کی پہلی ششما ہی میں ہی68652 شکا یات کا اندراج ہوا جن میں
سے65670کے فیصلے بھی ہو گئے جب کہ پچھلے سال کی پہلی ششما ہی میں 51453 شکا
یات مو صول ہو ئی تھیں اور 49056 شکا یات کے فیصلے ہو ئے تھے گو یااس بر س
شکا یات کی تعداد میں 17199 اور فیصلوں کی تعداد میں 16614 کا اضا فہ ہوا
یہ فیصلے اس قدر جا مع اور شفاف تھے کہ ا ن کے خلا ف نظر ثا نی کی درخواست
داخل کرنے والوں کی تعداد ایک فیصد سے بھی کم رہی وفاقی محتسب اعجاز احمد
قریشی کا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ فو ری فیصلوں کی اہمیت اپنی جگہ مگر
اصل چیزان پر عملد رآ مد ہے چنا نچہ اس مقصد کے لئے وہ عملد رآمد کے شعبے
کی خود نگرا نی کر تے ہیں جس کے نتیجے میں فیصلوں کے ساتھ ساتھ ان پر عملد
رآ مد کا گراف بھی پہلے سے بڑ ھ گیا ہے وفاقی محتسب سمند ر پار پا کستا
نیوں اور بچوں کے حوا لے سے شکا یات کے حل کا جس طرح ازالہ کررہا ہے ماضی
میں اس طرح کی کوئی مثال نہیں ملتی اس وقت وفاقی محتسب کے ملک میں پھیلے ہو
ئے14 علا قا ئی دفا تر لا ہور، کراچی، پشا ور، کو ئٹہ، ملتان، بہا ولپور،
فیصل آ باد، ڈی آئی خان، گوجرانوالہ، ایبٹ آ باد، سر گو دھا، حید رآ باد،
سکھر اور خا ران تحصیلوں اور ضلعوں کے ساتھ ساتھ چھو ٹے قصبوں میں بھی کھلی
کچہر یاں لگاکر عام آدمی کی خدمت کرنے میں مصروف ہیں وفاقی محتسب کے عوامی
خدمت کے کارناموں کی ایک طویل فہرست ہے جن میں سے چند اپنے پڑھنے والوں کے
گوش گذار کرتا ہوں ان میں سر کا ری ملازمین کو پنشن کی جلد ادائیگی، بجلی
اور گیس کے بلوں کی تصحیح اور دیگر شکا یات، آ وارہ کتوں کے حوالے سے شکا
یات کا ازالہ، بچوں کے حقوق کی حفا ظت،اسٹر یٹ چلڈرن کے حوالے سے پائلٹ
پراجیکٹ اور جیل ریفا رمز سرفہرست ہیں لا ہور میں ماہ رمضا ن کے دوران غر
یب قید یوں کے لئے جر ما نے کی رقم ادا کر نے کا بند وبست کیا گیا تا کہ وہ
جیلوں سے چھٹکا را حا صل کر سکیں۔’’پنشن کمیٹی‘‘ کی میٹنگ میں طے کیا گیا
کہ اے جی پی آر 30 دن کے اندر پنشن جاری کر نے کا پابند ہو گا اور اگر کسی
کیس میں کو ئی کمی بیشی ہو تو بھی قوا عد کے مطا بق 65% پنشن کی ادائیگی فو
ری شروع کر دی جا ئے گی تا کہ ریٹا ئر ہو نے والے ملازم کا خا ندان معا شی
مشکلا ت کا شکا ر نہ ہو ملتان میں سا ئلین کی شکا یت پر پوسٹل لائف انشورنس
سے فوری طور پر تقر یباًایک کروڑ روپے سے زیا دہ ما لیت کے چیک جا ری کر
ائے گئے جیکب آ باد انسٹی ٹیوٹ آف میڈ یکل سائنس کو SEPCO کی طرف سے 11
ملین سے زائد بجلی کا بل بھیج کر غیر منصفا نہ بلنگ کا نشانہ بنا یا گیا
جسے درست کروایا گیا اور جن اداروں کے خلا ف شکایا ت بہت زیا دہ تھیں ان کے
لئے آر ٹیکل 17 کے تحت معا ئنہ ٹیمیں مقرر کی گئیں عوام کی آ گا ہی کے پیش
نظر یہاں یہ بتا نا بھی ضروری ہے کہ وفاقی محتسب میں شکا یت درج کرا نے کی
نہ کو ئی فیس ہے اور نہ ہی وکیل کی ضرورت اور ہر شکا یت کا زیا دہ سے زیا
دہ ساٹھ دنوں میں فیصلہ کر دیا جا تا ہے، کو ئی بھی شخص کسی بھی وفاقی
ادارے کے خلاف اپنی شکا یت سادہ کا غذ پر اردو یا انگر یزی میں لکھ کر
متعلقہ دستا ویزات کے ہمراہ آن لا ئن ویب سا ئٹ www.mohtasib.gov.pk
،موبائل ایپ، ای میل[email protected] پر یاپھرڈاک کے ذریعے
وفاقی محتسب سیکرٹریٹ 36-Constitution Avenue، سیکٹر G-5/2، اسلا م آ بادکے
پتے پر ارسال کر سکتا ہے ہیلپ لا ئن نمبر1055 پربھی صبح 8 بجے سے رات10بجے
تک فون کر کے رہنما ئی حا صل کی جاسکتی ہے وفاقی محتسب سیکر ٹر یٹ میں شکا
یت موصول ہونے کے بعد چو بیس گھنٹوں کے اندر اندر اس پر کارروائی شر وع ہو
جا تی ہے شکایت کنند ہ اپنی سہولت کے مطا بق فون یا وٹس ایپ کے ذریعے گھر
بیٹھے بھی اس کا رروائی میں حصہ لے سکتا ہے کاش ہمارے باقی اداروں میں بھی
صرف ایک اعجاز قریشی پیدا ہوجائے تاکہ انصاف کا بول بالا ہولوگ مطمئن ہوں
مجھے پورا یقین ہے کہ پھراگر یہ صدا لگے کہ ہے کوئی انصاف لینے والا تو
کوئی نہیں آئے گا کیونکہ ہر ادارے میں محتسب بیٹھا ہوا ہے ۔(تحریر۔روہیل
اکبر03004821200)
|