دارالامان کا معاشرے میں کردار

(حمیرا غفار)

دارالامان کو ''امن کا مسکن''بھی کہا جا سکتا ہے۔ یہ محروم خواتین کے لئے ایک گھر یا پناہ گاہ ہے، جو خواتین ظالم معاشرے سے مغلوب ہوتی ہیں اور جو بار بار نہ صرف لوگوں کے ظالم اور حیوانیت بھرے رویے کا سامنا کرتی ہیں،جن کی ہمت ٹوٹ جاتی ہیں اور اپنے بنیادی انسانی حقوق تک حاصل کرنے میں ناکام ہوجاتی ہیں، ان کے لئے معاشرہ درد اور پریشانی کی جگہ ہے یا دوسرے لفظوں میں زمین جہنم سے کم نہیں ہے۔

اس طرح کے حالات میں خواتین کے لیے معاشرہ پریشانیوں اور مایوسی کی جگہ بن جاتا ہے۔ ان کے حصے میں صرف ناانصافیاں آتی ہیں جو انہیں نا امیدی کی طرف لے جاتی ہیں۔ ان کے افسردہ دل اور ذہن معاشرے کی طرف سے نظر انداز ہونے کے بعد سکون اور امن کی خواہش رکھتے ہیں۔ ان کی ترجیح اس وقت دارالامان ہوتا ہے۔چونکہ شادی 30 بنیادی انسانی حقوق میں سے ایک ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ خواتین کے پاس شادی کے حقوق تک نہیں ہیں، وہ اپنی خواہش کے مطابق رائے دینے اور اپنے جیون ساتھی کا انتخاب کرنے کااختیار ہی نہیں رکھتیں۔

والدین ایک لڑکی کی ڈھال ہوتے ہیں۔ وہ ان پر پورا بھروسہ کرتی ہے۔ جس شخص کے ساتھ والدین اس کو منسوب کرتے ہیں وہ خاموشی سے ان کی تابعداری کرتی ہے۔ مگر جب آگے کی زندگی میں اگر والدین کا فیصلہ غلط ثابت ہو تواکثر والدین بجائے لڑکی کو انصاف دلانے کے اس کو سب کچھ برداشت کرنے کا حکم دے دیتے ہیں۔ یہ حکم اس کے لیے موت کے فرمان سے کم نہیں ہوتا۔ اور جب وہ اس ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں تو انہیں طاقت کی بنیاد پر اپنے ہی والدین اور سسرال دباؤ ڈالتے ہیں یا انہیں ذبح کرنے کی دھمکیوں کے ذریعے تشدد کا نشانہ بنایا جا تا ہے۔ ایسے حالات میں انہیں دارالامان پناہ دیتا ہے۔انہیں دارالامان میں امید کی کرن ملتی ہے۔

دارالامان پاکستان کے تمام صوبوں میں قائم کیا گیا اور اس کی پروسیسنگ جاری ہے۔ مثال کے طور پر صوبہ سندھ کے شہروں جیسے کراچی، حیدرآباد اور سکھر میں۔ صوبہ پنجاب میں تقریبا 34 اضلاع میں دارالامان سرگرم ہیں اور کام بھی کر رہے ہیں۔ سب سے پہلے سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ نے تشدد کا شکار خواتین کو پناہ دینے کے لیے تمام 8 ڈویژنل ہیڈکوارٹرز میں دارالامان قائم کیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خواتین میں حقوق کے حوالے سے بیداری میں اضافہ ہوا اور وہ اپنے حقوق کے بارے میں زیادہ جانکاری حاصل کر نی لگی۔ نتیجتاً ہر ضلع میں شیلٹر ہوم کی ضرورت پیش آئی اور محکمہ نے دارالامان کا جال پنجاب کے تمام 36 اضلاع میں پھیلا دیا۔ یہ گھر ایک وقت میں 20 سے 50 رہائشیوں کو ایڈجسٹ کر سکتے ہیں۔

پاکستان کی خواتین ایک ایسے معاشرے میں رہ رہی ہیں جس میں ثقافت اور ذات پات کے نظام پر یقین رکھا جاتا ہے اور اس پر عمل کیا جاتا ہے۔ اس وجہ سے ان کے لئے ہر دن بے حد مشکل ہوتا ہے اور انہیں قدم قدم پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک طرف یہ اپنی نام نہاد ثقافتی روایات اور رسم و رواج کے لئے اپنے ہونٹوں پر مہر لگا دیتی ہیں جبکہ دوسری طرف وہ غیر منصفانہ سلوک اور گھریلو تشدد کے زہر کا گھونٹ پی رہی ہوتی ہیں۔ پنجاب اور بلوچستان کے کچھ دیہی علاقوں میں خواتین کو انسان ہی نہیں سمجھا جاتا۔ ان حالات میں یہ ضروری ہے کہ دارالامان جیسی تنظیم ہو جو نہ صرف پناہ اور تحفظ دے بلکہ ان کے حقوق حاصل کرنے میں بھی اپنا حصہ ڈالے۔

ایک شخص کے لئے خاندان سے جدا ہونا زہر کا گھونٹ پینے کے مترادف ہے لیکن خواتین یہ بھی کر جاتی ہیں، خاص طور پر ان خواتین کے لئے جن کے ساتھ معاشرے نے تشدد کیا ہو۔دارالامان ویسے تو عورت کے تحفظ کے لیے بنایا گیا ایک ادارہ ہے مگر کچھ چیزوں کی وجہ سے دارالامان کے تحفظ اور پناہ کے افعال سے نفرت ہو جاتی ہے،مطلب یہ ہے کہ دارالامان ان خواتین کے لئے اچھی طرح کام نہیں کر رہا ہے جو پرامن ماحول کے لئے دارالامان آتی ہیں۔یہ خواتین دوستانہ رویے کے مقصد سے دارالامان میں پناہ لیتی ہیں لیکن دارالامان کے کارکن ان سے اچھا برتاؤ نہیں کرتے۔ان کے لئے امن کا گھر جیل کے سوا کچھ نہیں ہے۔جگہ کی کمی کا مسئلے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

ملتان دارالامان ہی کی ایک مثال ہے کہ یہ صرف 30 افراد کے لیے تعمیر کیا گیا تھا لیکن اس عمارت میں 80 خواتین رہائش پذیر ہیں اور ساتھ ہی اسی طرح ساہیوال میں 15 کی جگہ35 خواتین رہائش پذیر ہیں۔ یہ ان خواتین کے لئے کس قدر مشکل ہوگا یہ صرف و ہی جانتی ہیں۔ سیکورٹی کا مسئلہ بھی قابل غور ہے کیونکہ کچھ ہی سال پہلے ایک عورت کو باہر کے لوگ آ کر قتل کر کے چلے جاتے ہیں جنہوں نے اندر آکر بڑی آسانی سے اسے قتل کر دیا۔ اس کا نام فاریہ تھا اور 25 نومبر 2011 کے ڈان اخبار کے مطابق اس خبر پر روشنی ڈالی گئی۔ کوئٹہ کے دارالامان کا ایک اور کیس ہے جس میں تقریبا 15 یا 16 لڑکیاں دارالامان سے فرار ہوئیں۔ ان دونوں معاملات کے مطابق یہ واضح ہو گیا ہے کہ دارالامان سیکورٹی کے بارے میں کتنا باشعور ہے۔

خلاصہ بحث یہ ہے کہ اگر خواتین دارالامان جیسی تنظیموں کی مدد سے انصاف کے لئے آواز اٹھاتی ہیں تو اداروں میں تبدیلیاں اور بہتری آ سکتی ہے اور اس کے علاوہ دارالامان کو اپنے کردار کو بہتر بناناچاہئے اور اپنے معیار کو بھی برقرار رکھنا چاہئے جو کہ ان کی اصلی شناخت کا ذریعہ ہے۔ عملے کو اس بات کو یقینی بنانے کے لئے مناسب تربیت حاصل کرنی چاہئے کہ وہ خواتین کو ان کی نازک ذہنی یا جسمانی حالت میں کبھی بھی افسردہ یا پریشان محسوس نہ ہونے دیں۔ مزید یہ کہ عملے کو خوشگوار ہونا چاہئے۔ اگر متاثرین کے اہل خانہ ان سے ملنا چاہتے ہیں تو انہیں اجازت ہونی چاہئے۔ اس سے اس بات کو یقینی بنایا جا سکے گا کہ محروم عورتیں کبھی یہ نہیں سوچیں گی کہ انہیں ایک جہنم سے دوسرے جہنم میں لے جایا گیا ہے اور وہ آرام اور سکون سے اپنی زندگی گزار سکتی ہیں ۔
 

Noor Ul Huda
About the Author: Noor Ul Huda Read More Articles by Noor Ul Huda: 85 Articles with 83245 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.