یہ کائنات جس کے ہم سب مسافر ہیں انسانی عزم و ہمت کی
لاجواب داستان ہے۔ایک ایسی داستان جو دلکش ہونے کے ساتھ ساتھ پر کشش اور
لطف انگیز بھی ہے ۔ اس میں خطرات بھی چھپے ہوئے ہیں اور بہت سے انسان ان
خطرات کا ایندھن بھی بن جاتے ہیں۔یہ ضروری تو نہیں کہ ہر انسان کو منزل ِ
مراد بھی مل جائے ۔وہ جو چاہتا ہے ویسا ہی ہو جائے۔خواب دیکھنا انسان کا حق
ہے لیکن اس کی تعبیر اسے اس کی زندگی میں مل جائے اس کی کوئی گارنٹی نہیں
ہوتی ۔میں نے اپنی زندگی میں ناممکنات کو ممکنات میں بدلتے دیکھا ہے ۔ ایسی
ایسی مہم جوئی دیکھی ہے کہ سینے میں سانس رک جاتا تھا لیکن مہم جوانسانوں
کے قدم نہیں ڈگمگاتے تھے ۔اگر اس کائنات سے باہمت انسانوں کے کردارو عمل کو
کھرچ کر الگ کر دیا جائے تو یہ پوری کائنات بانجھ ،بے نگ اور بے کیف ہو
جائے۔یہ تو باہمت انسانوں کا کمال ہے کہ وہ نئے نئے افق تراش کر انسانوں کو
نئی ڈگرسے متعارف کرواتے ہیں۔دنیا جس روش پر چل رہی ہوتی ہے وہ اس سے بالکل
مختلف انداز اپناتے ہیں اور یوں اہلِ جہاں سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے
ہیں۔ایسے افراد عام انسانوں کی طرح ہو تے ہیں لیکن ان کے سوچنے کا انداز
بالکل مختلف ہو تا ہے۔وہ کسی سے کچھ نہیں مانگتے اور نہ ہی دستِ سوال دراز
کرتے ہیں بلکہ اپنی دھن میں جو کرنا ہوتا ہے کرتے چلے جاتے ہیں۔ شروع شروع
میں کچھ کم ظرف لوگ ان کا مذاق اڑاتے اور انھیں ٹھٹھہ کرتے ہیں۔ان کی سوچ
کو پاگل پن سے تشبیہ دیتے ہیں لیکن جب وہ مستقل مزاجی سے اپنی چنی گئی راہ
پڑ ڈٹے رہتے ہیں تو پھر کئی با صفا انسان ان کے ہمنوا بن جاتے ہیں۔شائد یہ
شعر ایسے ہی من چلوں پر صادق آتا ہے ۔ (میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل
مگر ۔،۔ لوگ آتے گے اور کارواں بنتا گیا)۔،۔
شارجہ کرکٹ سٹیڈیم کی وجہ سے یو اے ای کو دنیائے کرکٹ میں ایک مقام حاصل ہے
لہذا ابوظبی جو کہ یو اے ای کا کیپیٹل ہے اس شہر میں پاکستانیوں نے کرکٹ کو
اپنی سر گرمیوں کا مرکزبنایا ۔صحرا کی تپتی ہوئی دھوپ اور ریت میں کرکٹ کا
پودا لگانا غیر معمولی محنت کا متقاضی تھا لیکن اظہار حیدر، جہانگیر بٹ
،الطاف حسین،شاہنواز،قمر صدیقی ،اخلاق احمد ،طارق حسین بٹ،محمد صادق ،فیاض
قادری،سہیل خاور ،خالد محمودجیسے باہمت افراد نے اس کھیل کو اپنی توانائیوں
سے تقویت عطا کر کے اسے تناور درخت بنا دیا۔ لیکن وہ ایک نام جس نے کرکٹ کے
ڈھانچہ کو بدل کر رکھ دیا وہ نام ظریف احمد بابرکا تھا ۔ وہ خود توپارہ صفت
اور بے چین انسان تھا ہی لیکن اس نے اپنے مشن میں اپنے بیوی بچوں کو بھی
شامل کر لیاگویا کہ اس کی پوری فیملی گراؤ نڈز کی تیاری میں اس کی دست و
بازو بن گئی ۔ابو ظبی میں کر کٹ سٹیڈیم کی تعمیر بابر کا دیرینہ خواب تھا
اور ہمیں اس وقت یہ بڑا عجیب لگتا تھا کہ ابو ظبی میں کرکٹ سٹیڈیم کی تعمیر
حقیقت کا جامہ پہنے گی لیکن ایسے ہی ہوا ۔ کرکٹ سٹیڈیم کی بنیاد زیڈ اے
بابر کا جنون تھااور جنون کو کبھی کوئی شکست نہیں دے سکتا ۔ اظہار حیدر نے
سٹیڈیم کی تعمیر کا ایک نقشہ بھی بنوا کر رکھا ہوا تھا جو وقت کی دھول میں
کہیں کھو گیا کیونکہ وقت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔سٹیڈیم کی تعمیر کا معجزہ
سعید عتیق سالم ،سلیم الطاف ،وجاہت حسین ،انعام الحق،عمر یوسف ،منصور
جاوید،طارق حسین بٹ،بی آر شٹی،خالد محمود،سہیل خاور،محمد صادق اور ،اقبال
شاہ کاظمی کی کاوشوں سے ظہو رپذیر ہوا ۔سٹیڈیم کی تعمیر کا معرکہ جوئے شیر
لانے کے مترادف تھا لیکن دس سال کے قلیل عرصہ میں دنیا کا جدید ترین سٹیڈیم
اپنی چمک دمک سے دنیا کی نگاہوں کو خیرہ کرنے کیلئے وجود پذیر ہوچکا تھا۔
سٹیڈیم کسی ایک فرد کی نہیں بلکہ کرکٹ سے محبت کرنے والوں کی لازوال محبت
کا شاہکار ہے ۔
میری ذاتی رائے ہے کہ ۱۹۸۷ میں پنجاب ویٹرن کی ابوظبی آمد سٹیڈیم کی تعمیر
کی خشتِ اول بنی کیونکہ پنجاب ویٹرن میں پاکستان کے نامور ستارے موجود تھے
جھنیں دیکھنے کیلئے عوام جو ق در جوق گراؤنڈ نڈ کی رونق بڑھانے کیلئے امنڈ
آئے تھے۔ہزار ہا لوگوں کا مجمع ایک غیر معمولی بات تھی ۔اس سے پہلے عوام کی
اتنی کثیر تعداد نے کبھی گراؤنڈ کا رخ نہیں کیا تھا۔ خفیہ ایجنسیاں اور
دوسرے ادارے اس میچ کے بارے میں شکو ک و شبہات کا شکار تھے۔ یہ ابو ظبی کی
انتظامیہ نے کافی بحث و مباحث کے بعد میچ کی اجازت مرحمت فرمائی ۔انعام
الحق،اظہار حیدر،زیڈ اے بابر ،طا رق حسیں بٹ ،خالد محمود ،جہانگیر بٹ
،اقبال مہدی ، سہیل خاور اس میچ کے روحِ رواں تھے ۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ میچ
انعام الحق کی کاوشوں کا مرہونِ منت تھا اور اس کی معاونت کے بغیر انعقاد
پذیرنہیں ہو سکتا تھا۔زیڈ اے بابر نے گراؤنڈ کو جس انداز میں سجایا تھا اس
پر ہر انسان ان کیلئے رطب اللسان تھا۔اظہار حیدرنے سا حلِ سمندر پر ۵ سٹار
ہوٹل میں کھلا ڑیوں کی رہائش اور کھانے پینے کے اعلی انتظامات کر رکھے تھے
جس سے کھلاڑی بڑے ہی شادا ں و فرخاں اور خوش و خرم تھے۔اقبال مہدی نے براہِ
راست کمینٹری کا شعبہ سنبھالا ہوا تھا ،جہانگیر بٹ اور خالد محمود ایمپا
ئرنگ کی ذمہ داریوں میں مصروف تھے۔گراؤنڈ کے سارے انتظامات اور مہمانوں کا
استقبال طارق حسین بٹ کے ذمہ تھا۔اس میچ کی سب سے پر کشش خبر مین آف دی میچ
کیلئے قیصر امین بٹ کی جانب سے ٹیوٹا گاڑی کا انعام تھا جو محمد اسحاق کا
مقدر بناتھا۔اس میچ کے انعقاد سے عبدالرحمان بخاطر کی نگاہ میں ابو ظبی کا
نیا مقام متعین ہوا اور یوں شارجہ سٹیڈیم کی انتظامیہ کی نظروں میں ابو ظبی
کی اہمیت دو چند ہو گئی ۔ کرکٹ کی رفتار تیز ہو گئی اور انتظامات میں بہتری
نظر آنے لگی۔ایمپا ئرنگ کے شعبہ میں کئی تبدیلیاں کی گئیں اور اس کی ٹریننگ
کیلئے سیمینارز کا انعقاد عمل میں لایا گیا ۔کرکٹ کے رولز متعارف کروائے گے
اور کوڈ آف کنڈکٹ لا گو کیا گیا تا کہ گرائنڈز میں بد تمیزی اور لڑائی
جھگڑے کی روک تھام ممکن بنائی جا سکے۔یہ تمام مراحل زیڈ اے بابرکی کاوشواں
کے بغیر ممکن نہیں تھے ۔ اگست ۱۹۸۹ کا سال اس لحاظ سے یاد گار رہے گا کہ
اس میں امارات کرکٹ بورڈ تشکیل دیا گیا اور ریجنل کونسلز قائم کی گئیں۔سعید
عقیق سالم (چیرمین ) کی نگرانی میں جنرل الیکشن منعقد ہوئے جس میں ابو ظبی
کرکٹ کونسل کی صدارت پر عمر یوسف ،جنرل سیکرٹری شپ پر طارق حسین بٹ اور
نائب صدارت پر بی آر شٹی منتخب ہوئے ۔یہی وہ انتخاب تھا جس نے سٹیڈیم کی
تعمیر کا پہلا مرحلہ مکمل کیا ۔صدرِ یو اے ای شیخ زاید بن سلطان النہیان نے
کرکٹ کیلئے پلاٹ کا تحفہ عطا کیا ۔شیخ نہیان بن مبارک النہیان کی سرپرستی
کے بعد سٹیڈیم کی تعمیر حقیقت بنتی چلی گئی اور آج سب کی کاوشوں کے بعد
کرکٹ کا سٹیدیم اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا ہے ۔خواب بابر کا تھا لیکن
اسے تعبیر سے ہمکنار کرنے والی ٹیم دوسری تھی۔مستقبل کا کوئی بھی مورخ ابو
ظبی میں کرکٹ سٹیڈیم کی تعمیر میں زیڈ اے بابر کی خدمات کو نظر انداز نہیں
کر سکتا ۔ابو ظبی میں کرکٹ کی تاریخ زیڈ اے بابر کے بغیر ادھوری رہے گی۔اس
نے جتنا وقت اور توانائیاں کرکٹ کی نذر کیں کوئی دوسرا فرد اس طرح اپنی
توانائیاں صرف نہیں کر سکتا تھا۔ ابو ظبی میں اسے بابائے کرکٹ کے نام سے
بھی پکارا جاتا تھا اور وہ واقعی اس خطاب کا حقدار تھا ۔وہ ہم سے جدا تو ہو
گیا ہے لیکن اس کی محبت دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گی( خدا اس کی لحد پر شبنم
افشانی کرے) ۔ ،۔
|