کھانے پینے میں کیا رکھا ہے؟

سچی بات تو یہ ہے کہ ہمیں اب تک اُن لوگوں کی سمجھ نہیں آئی جو حکومت کے ہر معاملے کو غلط قرار دیکر دل کی بھڑاس نکالنے، بلکہ نکالتے رہنے پر یقین رکھتے ہیں۔ اور پتہ نہیں یہ دل کی بھڑاس کتنی ہے کہ پوری طرح نکل کر نہیں دے رہی! زرداری انتظامیہ کے تحت پاکستان کے عوام نے تین ساڑھے تین برسوں میں خوراک کو مہنگا ہوتے دیکھا ہے۔ کھانے پینے کی جس چیز کو ہاتھ لگائیے، وہ چُھوئی مُوئی کے پودے کے طرح سمٹ سی جاتی ہے! بچت بازار میں یا ٹھیلے پر سبزیوں کے دام پوچھیے تو اپنی کم مائیگی کا شدت سے احساس ہوتا ہے! ایسے میں خیال آتا ہے کہ دنیا فانی ہے مگر شاید سبزیاں لافانی ہیں! کسی بھی جنرل اسٹور میں قدم رکھیے تو اشیاءکی قیمتیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہم کس قدر ”قیمتی“ دور میں جی رہے ہیں! لوگ قیمتی اشیاءپانے کے لیے بے تاب رہتے ہیں مگر حکومت کی مہربانی سے آٹا، دال، چاول، گھی، تیل، گوشت وغیرہ قیمتی اشیاءکے زُمرے میں آگئے ہیں تو دِلوں میں بدگمانیاں پالی جارہی ہیں! کیا یہ حکومت کی خاص عنایت نہیں کہ اب مہینے میں ایک آدھ مرتبہ گوشت پکانا بھی ”ایونٹ“ کا درجہ پاگیا ہے اور ہم اس طرح کے ایونٹس کو سیلیبریٹ کرکے اپنے آپ پر فخر کرنے لگے ہیں؟

ایک عام خیال یہ تھا کہ کھانے پینے کی اشیاءمہنگی کرکے حکومت نے عوام سے کوئی انتقام لیا ہے۔ بعض دل جلے ”جمہوریت بہترین انتقام ہے“ والی بات کا بھی یہ مفہوم لیتے ہیں کہ حکومت نے جمہوریت کے ذریعے ہم سے انتقام لیا ہے! کسی بھی ”عوام دوست“ حکومت کے بارے میں ایسی بدگمانیاں ہم عوام کو زیب نہیں دیتیں۔ ہم میں اِتنی عقل ہی کہاں ہے کہ حکومت کی ہر مصلحت کو بہتر ڈھنگ سے سمجھ سکیں۔ لوگ سمجھ رہے تھے کہ اشیائے خور و نوش مہنگی کرکے زندگی مشکل بنائی جارہی ہے۔ ایسا کچھ نہیں ہے۔ ہمیں ماہرین کا احسان مند ہونا چاہیے کہ اُنہوں نے حکومت کا فلسفہ سمجھنے میں ایک بار پھر ہماری معاونت کی ہے۔

جن سادہ باتوں کو لوگ سیکڑوں، ہزاروں سال سے جانتے اور سمجھتے آئے ہیں اور ذرا بھی درخور اعتناءنہیں گردانتے، ماہرین اُنہیں اعداد و شمار کی مدد سے، سُرخی پاؤڈر لگاکر، دلہن کی طرح سجاکر ہمارے سامنے رکھتے ہیں تاکہ قبول کرنے میں آسانی رہے! جو کچھ ہم ذرّہ بھر تحقیق کے بغیر بتا سکتے ہیں وہ برطانیہ کی گلاسگو یونیورسٹی کے ڈاکٹر پاؤ شیلز نے خاصی دقت طلب اور عرق ریز ”تحقیق“ کے بعد بتایا ہے، یعنی یہ کہ جن کی آمدنی کم ہو اور جنہیں کھانے کو کم ملے وہ لوگ جلد موت کے آغوش میں چلے جاتے ہیں! ڈاکٹر شیلز کا کہنا ہے کہ کم کھانے سے جسم میں ٹیلو مورس نام کے کیمیکل پر مبنی ہارمون کا تناسب کم ہو جاتا ہے۔

مقام شکر ہے کہ ہمیں جیتے جی جاننے کو مل گیا ہے کہ کم کھانے سے انسان مر جاتا ہے۔ بات کچھ یوں ہے کہ ہمیں کھاتا دیکھ کر ہی بعض من چلے کہتے ہیں کہ بھوک سے بھی اِنسان مرتے ہیں مگر زیادہ کھاکر مرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے! بعض سادہ لوح احباب ہمیں ”خوش خوراک“ سمجھ بیٹھے ہیں، حالاں کہ معاملہ صرف یہ ہے کہ جو کچھ بھی (یعنی اچھا خاصا) مل جائے وہ ہم خوشی خوشی کھاتے ہیں! بزرگوں نے سچ ہی تو کہا ہے کہ لوگوں سے کسی کی خوشی دیکھی نہیںجاتی! اور خاص طور پر وہ خوشی جو خوراک دیکھتے ہی پیدا ہو! بعض مواقع پر احباب نے خوراک کی قلت کا ٹانکہ ہماری صحت سے جوڑنے کی کوشش بھی کی مگر جب ہم نے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا تو وہ اپنے ارادے سے باز رہے!

ہماری حکومت واقعی ”غریب دوست“ اور اچھی خاصی ”مشکل کشا“ ہے کہ آمدنی کے ذرائع محدود اور مسدود کرکے اور دام مسلسل بڑھاکر کھانے پینے کی اشیاءتک غریبوں کی رسائی مشکل تر بنا رہی ہے تاکہ وہ تیزی سے اپنی ”منزل“ کی طرف بڑھیں! یہ بھی حکومت کا کمال ہی ہے کہ غریب اور اُس کی منزل کے درمیان سے ”راہ“ غائب کردی گئی ہے! جب سبھی کو ایک دن خاک میں مل جانا ہے تو کھانے پینے سے کیا دل لگانا! اور یوں بھی پندرہ سولہ کروڑ انسان دن رات کھاتے رہیں گے تو اُن کے لیے کیا بچے گا جو اقتدار میں آئے ہی کھانے کے لیے ہیں! ہم حکومت کے بارے میں تو بہت روتے ہیں کہ وہ غریب پرور نہیں، مگر کبھی ہم نے اپنے آپ کو ”حکومت پرور“ بنانے کے بارے میں بھی سوچا ہے!

ہر وقت مسائل کا رونا رونے والی آبادی سے گلوخلاصی کا ایسا تیر بہ ہدف نُسخہ کم ہی حکومتوں کو سُوجھا ہوگا! ترقی یافتہ ممالک تو خیر اس معاملے میں بہت ہی ”بُودے“ واقع ہوئے ہیں۔ ہمیں تو اِس بات پر حیرت ہے کہ عوام کو کنٹرول کرنے کا ایسا آسان نسخہ بھی جنہیں نہ سُوجھ سکا وہ ممالک اِتنی ترقی کیسے کرگئے! اِسی لیے تو ہم پاکستانی ترقی ورقی پر کچھ زیادہ یقین نہیں رکھتے! کھانے پینے کی اشیاءکے نرخ کنٹرول کرکے ترقی یافتہ ممالک اپنے عوام کو بہتر انداز سے جینے کا موقع فراہم کر رہے ہیں۔ یہ تو ”عوامی طوق“ خود ہی گردن میں ڈالنے والی بات ہوئی۔ عوام اِس لیے نہیں ہوتے کہ اُنہیں کھلا پلاکر تگڑا اور بے قابو کیا جائے۔ کھلونے کھیلنے کے لیے ہوتے ہیں۔ کبھی آپ نے کسی کھلونے کو کھاتے پیتے دیکھا ہے؟ یا کبھی آپ نے کسی کھلونے کو کچھ کھلایا پلایا ہے؟ عوام بھی کھلونے ہی تو ہوتے ہیں جن سے کھیل کر اہل اقتدار محظوظ ہوتے ہیں۔ ہر وہ حکومت ”قابل رشک“ ہے جو کھلونوں پر خوراک ضائع نہیں کرتی! اِس معیار کی کسوٹی پر پرکھیے تو ہماری حکومت، چشم بد دور، قابل رشک ٹھہرائے جانے کی منزل سے سو قدم آگے ہے!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 525188 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More