پتوکی سے اوکاڑہ کی جانب دوسرا قصباتی شہر" واں رادھا
رام " کے نام مشہورتھاجس کا نام بعد میں تبدیل کرکے حبیب آباد رکھ دیا گیا
ہے ، ویسے تویہ شہر مرچوں کی منڈی کے طور پر مشہور تھا لیکن اس شہر میں
مرچوں کے ساتھ ساتھ ، گندم ، سبزیاں، خربوزے ، تربوز، تریں وغیرہ کثرت سے
پیدا ہوتے تھے ۔ نئی آبادی سے جوڑیاں نہراں کے درمیان وسیع رقبے پر سرسبز و
شاداب کھیت پھیلے ہوئے تھے جو مغرب کی جانب قادرآباد والی بڑی نہر تک پہنچ
جاتے۔بڑی نہر کے قریب کسی بزرگ کا عرس ہوا کرتا تھا اس موقع پر کشتیوں کے
مقابلے،کبڈی کے نامور پہلوان بھی شریک ہوا کرتے تھے ۔رنگ برنگے کھلونوں کی
دکانیں سجی ہوتیں جو ہمارے دلوں کو لبھاتیں لیکن انہیں خریدنے کے پیسے
ہمارے پاس نہیں ہوا کرتے تھے۔ ارد گرد کے دیہاتوں سے لوگ جوق در جوق اس
میلے میں شریک ہوکر من پسند چیزیں خریدتے ، کبڈی کے میچ دیکھتے اور مشہور و
معروف پہلوانوں کو اپنی آنکھوں سے کشتیوں کرتے ہوئے دیکھتے ۔یہ وہ وقت تھا
جب کرکٹ کے کھیل کا چرچا عام لوگوں تک نہیں پہنچا تھا ۔اگر کوئی کرکٹ ٹیم
کھیلنے آئی بھی تھی تو اس کے میچز لاہور شہرتک محدود تھے ۔ لاہور سے
90کلومیٹر دور جنوب میں کسی کو کانوں کان بھی خبر نہ تھی کہ کرکٹ اور ہاکی
بھی کسی کھیل کا نام ہے اس لیے دیہاتوں میں کبڈی اور کشتیوں کے مقابلے ہی
ہوا کرتے تھے ۔سرکس اور ناچ گانے والے بھی ایسے میلوں میں بڑے اہتمام کے
ساتھ شریک ہوکر اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کیا کرتے تھے، ان دنوں عالم لوہار
کا بہت چرچا تھا ، اسے سننے کے لیے دور دور سے لوگ جمع ہو جاتے اور وہ لکڑی
کے بنے اونچے سٹیج پر چمٹا ہاتھ میں پکڑے نئے سے نئے گیت گایا کرتا تھا ۔جو
شخص بہت امیر اور آسودہ حال سمجھا جاتا اس کے پاس ریکارڈ پلیئر کی مشین
ہوتی ، وہ مشین چابی سے چلتی تھی اس پر جب ریکارڈ رکھتے تو وہ گھومنے لگتا
۔اس کے بعد ایک چھوٹی سی سوئی کو مشین پر فٹ کرکے جب گھومنے والے ریکارڈ پر
رکھتے تو گانے کا آواز سنائی دیتی ۔سوئیوں کی چھوٹی سی ڈبی اور رنگ برنگے
گانوں کے ریکارڈ بازار سے انتہائی مہنگے داموں فروخت ہوا کرتے تھے ۔جب
مارکیٹ میں نیا ریکارڈ آتا تو سب کی کوشش ہوتی کہ وہ بھی اسے خرید لے ۔لیکن
ریکارڈنگ مشین اور ریکارڈ خرید نا ہر کسی کے بس کی بات نہ تھی ۔اڑس پڑوس سے
اگرگانے کی آواز آتی تو اسے سن کر ہی دل بہلا لیا جاتا تھا ۔
ٹیلی ویژن اور ریڈیو کا تصور بھی نہیں تھا ،جبکہ جیسے آجکل اخبارات ہر شہر
سے شائع ہوتے اور پڑھے بھی جاتے ہیں جن میں پورے ملک کی خبریں بھی چھپتی
ہیں ،اس زمانے میں اخبارات کا بھی رواج نہیں تھا ۔صرف قصے اور چھوٹی چھوٹی
نئی سے نئی پرانی کہانیاں چھپتی رہتیں تھی ۔مثلا کسی جگہ ایک بکری نے بچہ
دیا جس پر اﷲ اور محمد ﷺکا نام لکھا ہوا تھا، یا کوئی مرنے والا کفن سمیت
زندہ ہوکر گھر واپس آگیا ۔حضرت یوسف علیہ السلام ، سیف الملوک اور ہیر
رانجھا کے قصے بھی پڑھے اور سنائے جاتے تھے ۔ذرائع ابلاغ کا کام بڑے بڑے
اشتہاروں سے لیاجاتا تھا جس پر مختلف شہروں کے پہلوانوں کے تصویریں چھپی
ہوتی تھیں ۔
1958 سے 1964تک میرے والدین اس شہر میں قیام پذیر رہے۔ریلوے کیبن پر میرے
والد صاحب کی تین مختلف اوقات کار میں ڈیوٹی ہوا کرتی تھی جبکہ رہنے کے لیے
ہمیں ایک چھوٹے سے کمرے اور برآمدے پر مشتمل کوارٹر ملاہوتھا ۔جس کے آگے
چھوٹا سا صحن بھی تھا ۔کوارٹر کے سامنے کچھ جگہ خالی تھی جس کے تین اطراف
گلاباسی نے اچھا خاصا پردے کا ماحول بنا رکھا تھا ۔اس کھلی جگہ پر پیپل کا
ایک بھاری بھرکم درخت بھی تھا ۔گرمیوں کے موسم میں ریلوے کوارٹروں کی
عورتیں گھرکے کام کاج سے فارغ ہوکر پیپل کے نیچے آبیٹھتیں ۔ کوئی ازار بند
بنانے لگتی، تو کوئی اپنے بیٹے کے پہننے کے لیے اون سے جرسی بننا شروع
کردیتی ۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس زمانے میں لیسیں بننے کا رواج عام تھا جو
گھروں میں پھٹوں پر برتن سجانے کے کام آتیں ۔ میری والد ہر مہینے تنخواہ پر
چائے پینے والی دو چار پیالیاں خرید لاتے ۔جنہیں والدہ گھر کے اندر سجاوٹ
کے طور پر اوپر نیچے سجا لیتیں ۔اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ہمارے
چھوٹے سے کوارٹر میں ڈیڑھ سو پیالیاں جمع ہو چکی تھیں ۔جبکہ پیتل اور تانبے
کے بڑے برتن اس کے علاوہ تھے ۔ اس وقت میری عمر سات آٹھ سال ہوگی ۔ریلوے
کوارٹروں کے پیچھے مغرب کی جانب کچی دیواروں اور دو کمروں پر مشتمل ایک
پرائمری سکول تھا جس کے ہیڈ ماسٹر ابراہیم صاحب ہوا کرتے تھے ۔اس سکول سے
ملحقہ ایک چھوٹی سی مسجد بھی تھی جس میں نمازیوں کے وضو کرنے کے لیے ایک
کنواں بھی تھا ۔اس کے جنوب میں وسیع و عریض اراضی پر مشتمل ایک باغ تھا جس
میں ریڈ بلڈ مالٹے، شہتوت ، جامن ، کچھ اور درخت بھی پھلوں سے لدے ہوئے
دعوت نظارہ دیتے ۔ جب ہمارا مفت پھل کھانے کو دل کرتا تو لڑکوں کی ایک ٹولی
بناکر ہم باغ کے ارد گرد بنی ہوئی مٹی کی چھوٹی سی دیوار پھاند کر باغ میں
اتر جاتے ۔درختوں پر چڑھ کے جی بھر کے مفت کے پھل کھاتے ۔اگر اس باغ کا
رکھوالا دیکھ لیتا اور وہ للکارکے ہمارے پیچھے دوڑتا تو ہم تیزی سے بھاگ
جاتے۔خوش قسمتی سے باغ کا رکھوالا ایک بوڑھا شخص تھا جس سے بھاگا نہیں جاتا
تھا ۔جبکہ ہماری رفتار اس سے دوگنی ہوا کرتی تھی ۔اس لیے وہ ہمیں کبھی پکڑ
نہ سکا ۔
میں نے کچی ،پکی ، پہلی ، دوجی ،تیجی اور چوتھی جماعت بھی اسی پرائمری سکول
سے پا س کی تھی ۔ سکول کے چھوٹے بچے گرمیوں میں درختوں کے سائے میں ٹاٹ
بچھا کر پڑھتے اور سردیوں میں وہی ٹاٹ دھوپ میں کھینچ لیے جاتے۔جبکہ ٹیچر
لکڑی کی بنی ہوئی کرسی پر بیٹھا کرتے تھے۔اس وقت ماسٹر صاحب کو ہم آسمانی
مخلوق سمجھتے تھے جنہیں کتابوں میں لکھے ہوئے سب سبق یاد ہوتے ۔
یہ بھی بتاتا چلوں کہ والد صاحب سے مجھے بہت پیار تھا جبکہ ماں سے محبت کا
تو کوئی حساب ہی نہیں تھا ۔ان دنوں وہاں کشتیا ں اور کبڈی کے میچ اکثر ہوا
کرتے تھے ۔ ڈھول کی تھاپ پر ایک شخص سر پر پگڑی باندھے اعلان کرتا تھا کہ
کون کونسے شہر سے پہلوان یہاں کشتی کرنے آرہے ہیں ۔شہر کے علاوہ اردگرد کے
گاؤں کے لوگ بھی اس جگہ بھی اکٹھے ہوجاتے جہاں کشیاں اور کبڈی کے میچ ہونا
قرار پاتے تھے ۔اس لیے والد صاحب نے مجھے بھی پہلوان بنانے کا پختہ عزم
کرلیا اور رات بارہ بجے سے صبح آٹھ بجے کی ڈیوٹی پر وہ مجھے گہری نیند سے
جگا کر اپنے ساتھ کیبن پر لے جاتے جو اسٹیشن تقریبا ایک کلومیٹر کے فاصلے
پراجاڑ بیابان میں تھی ۔ ریلوے ٹریک کے درمیان چلتے ہوئے نیند کی وجہ سے
مجھے ٹھوکریں بھی لگتی ۔ اردگر د کے اندھیرے اور جنگلی جانوروں کی چیخ
وپکار اور گیڈوں کی ہوکیں ماحول اورزیادہ خوفناک بنا دیتیں ۔ ان دنوں
خنزیر(جو سب سے خطرناک درندہ تصور کیا جاتا تھا ) رات کو سفر کرنے والوں کو
سب سے زیادہ خوف اسی کا ہوا کرتا تھا جس کے سر پر چھری نما دو سینگ ہوتے،
وہ سیدھا ہی بھاگتا ہوا سامنے آنے والی ہرچیز کوہلاک کردیتا ۔ دوسری جانب
میں تو ویسے ہی ڈرپوک بچہ تھا لیکن میں اپنے باپ کی انگلی تھام کرکسی خوف
کے بغیر ان کے ساتھ ساتھ رات کے بارہ بجے ریلوے ٹریک پر چلتا ہوا کیبن پر
پہنچ جاتا ۔والد صاحب کپڑا بچھا کر مجھے لکڑی کے پھٹوں پر ہی سلا دیتے ۔
گرمیوں کے موسم میں جب صبح کے چار بجتے تو والد صاحب مجھے بیدار کرکے سرسوں
کے تیل سے میرے پورے جسم کی مالش کرتے ۔مالش کے بعد مجھے ایک سو مرتبہ
پہلوانوں کی طرح بیٹھکیں لگانے کا حکم دیتے ،جب بیٹھکیں لگانے کا کام ختم
ہو جاتا تو ڈنڈنکالنے کا حکم جاری ہو جاتا ۔تھک ہار کر فارغ ہوتا تو اتنی
دیر میں صبح صادق کا اجالا ماحول کو روشن کر دیتا ۔
ایک مرتبہ شہر میں کبڈی کا میچ ہونے کی خبر ملی جس میں میرا بڑا بھائی
محمدر مضان خان لودھی بھی شریک ہو رہا تھا ۔والد صاحب چونکہ مجھے بھی
روزانہ ڈنڈ بیٹھکیں نکلواتے تھے اس لیے میرے دل میں بھی یہ شوق پیدا ہوا کہ
میں بھی کبڈی کے میچ میں حصہ لوں ۔ چنانچہ لنگوٹ کس کے میں بھی کبڈی کی اس
ٹیم میں شامل ہو گیا جس میں میرا بھائی شامل تھا ،جبکہ اسی شہر کے لڑکوں پر
مشتمل دوسری ٹیم ہمارے مدمقابل تھی ۔جس میدان میں کبڈی کا یہ میچ شروع ہونے
والا تھا اس کے اردگرد شہر کے سارے لوگ جمع تھے ۔دونوں جانب سے جوش و خروش
عروج پر تھا ۔ایک دو لڑکے مخالف ٹیم کے ہماری جانب کبڈی کھیلنے آئے اور
پکڑے گئے جبکہ ہمارے لڑکے دوسری جانب گئے تو کوشش کے باوجود وہ مخالف ٹیم
کے ہاتھ میں نہ آئے ۔اس طرح ہماری ٹیم کی واہ واہ ہو رہی تھی ۔ مخالف ٹیم
میں ایک لڑکا جس کی ایک آنکھ خراب تھی وہ کبڈی ڈالنے کے لیے ہماری جانب
آیا۔اس کی کوشش تھی کہ وہ سب سے کمزور لڑکے کو ہاتھ لگائے اور ہاتھ چھڑا کر
اپنے علاقے میں آسانی سے چلا بھی جائے ۔بدقسمتی سے میں ہی سب چھوٹا اور
کمزور تھا ، اس لڑکے نے مجھ ہاتھ لگا یاتو میں اسے پکڑنے کے لیے آگے بڑھا
اس نے مجھے ایک زور دار تھپڑمیرے چہرے پر جڑ دیا ۔اس ظالم نے تھپڑاتنی طاقت
سے مارا کہ میرے چہرے پر اس کی انگلیوں کے نشان ابھر آئے۔ میری آنکھوں بے
ساختہ آنسوبہہ نکل آئے اور میں رونے لگا ۔ ارد گرد کھڑے ہوئے ہجوم میں میرے
والد صاحب بھی موجود تھے انہوں نے مجھے بازو سے پکڑا اور اکھاڑے سے باہر
نکال لائے ۔ حسن اتفاق سے اس کے بعد میرے بھائی رمضان لودھی کی کبڈی ڈالنے
کی باری تھی ۔جب وہ دوسری جانب کبڈی ڈالنے گئے تو انہوں نے دانستہ اسی لڑکے
کو ہاتھ لگایا جس نے مجھے زور دار تھپڑ مارا تھا ۔جب بھائی کا ہاتھ اسے لگ
چکا تو وہ پکڑنے کے آگے بڑھا ، بھائی رمضان نے اسے ایک نہیں مسلسل کئی
تھپڑوں کی بارش کردی ۔جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو اردگرد کھڑے ہوئے لوگوں
نے شور مچا دیا کہ رمضان لودھی کبڈی نہیں کھیل رہا بلکہ اپنے چھوٹے بھائی
کا بدلہ لے رہا ہے ۔اس طرح زندگی کا پہلا اور آخری کبڈی کا میچ اختتام پذیر
ہوا اور اس کے کچھ ہی عرصے بعد والد صاحب ہمیں اپنے ساتھ لے کر لاہور کینٹ
آ بسے ۔
یہ بھی بتاتا چلوں کہ کیبن کے کچھ ہی فاصلے پر ریلوے پھاٹک بھی تھا ،جو
اکثر بند ہی رہتا ، چونکہ مغرب کی جانب دور دور تک کھیت ہی پھیلے ہوئے تھے
اور مشرق کی جانب شہر واقع تھا ۔بیل گاڑیوں پر تربوز ، خربوزے ، طریں وغیرہ
لدی ہوتیں، جنہیں ریلوے پھاٹک عبور کرکے شہر کی جانب جانا پڑتا ۔ والد صاحب
مجھے پھاٹک کی چابی دے کر حکم دیتے ، بیٹا جاؤ پھاٹک کھول کر بیل گاڑیوں کو
گزار دو۔ میں جب پھاٹک کھول دیتا توبیل گاڑی والے مجھے تحفے کے طور پر
تربوز ، خربوزے اور طریں دے جاتے ،جو والد صاحب ایک چادر میں باندھ کر میرے
کندھے پر اس طرح رکھ کر گھر جانے کا حکم جاری کردیتے کہ مجھے آگے سے تربوز
ٹکراتا اور پیچھے سے خربوزے پریشان کرتے ۔بہرکیف پریشانیوں کا سامنا کرتا
ہوا میں گھر پہنچ ہی جاتا ۔
ایک اور واقعہ کا ذکریہاں بہت ضروری سمجھتا ہوں کہ ایک صبح جب ہم سب گھر
والے مفت کے تربوز کھانے کے لیے بیٹھے تو کہیں سے شہد کی مکھی بھی وہاں آ
پہنچی ۔بھائی اکرم نے خوفزدہ ہوکر اسے مار دیا ،ابھی اسے مار کر تربوز کھا
ہی رہے تھے کہ دو تین اور شہد کی مکھیاں آپہنچیں ۔ان کے دیکھا دیکھی شہد کی
مکھیوں سے تو ہمارا چھوٹا سا گھر بھر گیا اس گھر میں ایک ہی کمرہ تھا جس
میں ہم اوپر نیچے چارپائیاں بچھا کر سویا کرتے تھے ۔ہم سب دروزہ بند کرکے
اس کمرے میں جا چھپے ۔جب ہم خود کو شہد کی مکھیوں محفوظ سمجھ رہے تھے تو
کوارٹر کی پچھلی کھڑکی کی جانب ہمارا دھیان ہی نہ گیا کہ اس کھڑکی میں کتنے
ہی سوراخ موجود ہیں، جہاں شہد کی مکھیاں اندر آگئیں اور ہمارے ہاتھوں اپنی
شہید ہونے مکھی کا انتقام لینے لگیں ۔اب ہمارے پاس چھپنے کی کوئی جگہ نہ
تھی جس کے ہاتھ میں جو کپڑا آیا اس نے اپنا چہرہ چھپا لیا لیکن جسم کا جو
حصہ ننگا رہ گیا اس پر جی بھر کے شہد کی مکھیوں میں خوب ڈسا۔دوسرے دن سارے
گھروالے ایک دوسرے کو پہچان نہیں رہے تھے ۔پڑوس میں رہنے والے ایک بزرگ نے
نصیحت آمیز لہجے میں بتایا اول تو شہد کی مکھی کو نہ مارو اگر ما ر دیا ہے
تو اس کی آنکھیں کچل دو۔ کیونکہ مارنے والے کی شکل مرنے والی شہدکی مکھی کی
آنکھوں میں محفوظ ہو جاتی ہے ۔جب شہد کی دوسری مکھیاں وہاں آتی ہیں تو سب
سے پہلے مرنے والی مکھی کی آنکھوں میں مارنے والے شکل دیکھتی ہیں ۔کچھ یہی
حال سانپ کو مارنے والوں کا ہے ۔مجھے یاد ہے ہمارے کوارٹروں میں برکت مسیح
نام کا ایک شخص رہا کرتا تھا اس نے ایک مرتبہ سانپ کو مار دیا اور سانپ کی
آنکھیں نہ کچلیں ۔جب مادہ سانپ وہاں پہنچی تو اس نے مارنے کو شکل دیکھ کر
اس کا پیچھا کیا ۔ کہا یہ جاتا ہے کہ وہ شخص جہاں بھی ہوگا مادہ سانپ اس کا
پیچھا کرکے اس ڈستی ضرور ہے ۔چنانچہ جب اس مادہ سانپ کے آنے کے دن شروع
ہوتے تو برکت مسیح اپنی ایک ٹانگ چارپائی سے نیچے لٹکا کر بیٹھ جاتے ۔ سپنی
آتی اور اسے ڈس کرواپس چلی جاتی ۔برکت مسیح کچھ دن تکلیف محسوس کرتا پھر
صحت مند ہو جاتا ۔واقعات تو بیشمار ہیں لیکن اختصارسے کام لیتے ہوئے انہی
پر اکتفاجارہا ہے۔
.................... |