جوں جوں عید قریب آرہی ہے
بازاروں میں عید شاپنگ کا رش بڑھتا جا رہا ہے اور تمام بیگمات اور بچوں کی
یہی خوا ہش کہ میاں کی جیب جلد از جلد خالی کرا دی جائے۔ ہمارے للو میاں
بیچارے بھی اسی قبیلے کنبے سے تعلق ہونے کی بنا پر انکی بیگم بھی جیب کاٹنے
کو قربانی کرنے والا چھرا ہر وقت تیا ر رکھتی ہیں۔ اس عید پر بھی للو میاں
نے تو بہت کوشش کی کہ بیگم اور بچوں کو کسی بھی طرح سے دفتر سے ملنے والے
اکلوتے عیدبونس کی بھنک نہ پڑے، مگر کچھ قریبی رن مرید ہمسایوں نے حقِ
ہمسایہ گیری پورا پورا ادا کرتے ہوئے، با لخصوص بیگمات کے منہ در منہ ہوتی
بات للو میاں کی بیگم اور بچوں تک بھی پہنچ ہی گئی ۔ یہاں تک کہ ملنے والے
بونس کی تعداد اور اماﺅنٹ بھی پتہ چل گیا۔ بس پھر کیا تھا للو میاں کے گھر
پہنچتے ہی بیگم نے پھڈا شروع کر دیا کہ اتنے روز سے ملا بونس چھپائے کیوں
رکھا، میں کب سے اس بونس کی انتظار میں لسٹ بنائے بیٹھی ہوں وغیرہ وغیرہ
اور چار فٹ لمبی لسٹ للو میاں کے سامنے دھر دی جو کہ انکے اپنے کپڑے ، جوتے
، جیولری، ابا، اماں ، بہن، بھائی، بھانجے، بھانجیوں، بیٹا اور بیٹی کے
سامان پر مشتمل تھی، لیکن للو میاں کی کسی بھی شے کا نام شامل لسٹ نہ تھا۔
بلآخر ادھر ادھر سے سفارش لگوا کر للوں میاں بھی اپنے کچھ آئیٹم بصد بمشکل
ڈلوا نے میں کامیاب ہوگئے۔ پہلے توللو میاں نے دائیں بائیں سے نکلنے کی بہت
کوشش کی مگر اس دوران بچے بھی چونکہ اس میٹنگ میں شامل ہو چکے تھے، لہذا
للو میاں بیچارہ کہیں سے بھی نہ نکل پایا اور ساتھ ہی ، عید قریب کا بہانہ
کر کے شاپنگ کا دن اور ٹائم بھی شادی کی تاریخ کی طرح فورا ہی مقرر کر دیا
۔
مقررہ دن صبح دس بجے اٹھنے والی بیگم صبح چھ بجے ہی اٹھ بیٹھیں کہ جیسے ابا
کے قلوں میں شرکت کرنی ہو اور بچوں کو جلد ی جلدی ناشتہ پانی کراکر نو بجے
شاپنگ کو تیار۔ للو میاں نے یاد کرایا کہ بیگم ابھی تو دکانوں والے آیتیں
پڑھ پڑھ کر پھونک رہے ہونگے یا صفا ئی کر رہے ہونگے تو ایسی بھی کیا جلدی
ہے اور مزید یاد کرا یا کہ ہماری اماں کے ہاں جانے کو تو تم دِن بارہ بجے
سو کر اٹھتی رہی ہو اور سارے فا لتو کام اسی دن یاد آتے ہیں، بیگم نے فورا
ناک چڑھائی اور کہا کہ وہاں جانے سے ملتا ہی کیا ہے سوائے نصیحتوں کے۔
بازار سے تو ہم بہت کچھ لاتے ہیں نہ۔مزید یہ کہ جتنا جلد جائیں گے اتنی
اچھی شاپنگ ہوگی۔
خیر جناب علی الصبح للو میاں بمعہ آدھا درجن بھر بچوں کے قافلے کے ساتھ
داخلِ بازار ہوئے۔ دکانداروں نے دیکھتے ہی فورا بہن آئیے ، باجی آئیے، نئی
ورائٹی آئی ہے، ادھر آجائیں، ایک بار ضرور دیکھ لیں، لیں نہ لیں ایک بار
دیکھ ضرور لیں ، ایک کے ساتھ دوسرا فری، لاٹ کا مال ہے، غیر ملکی کپڑا ہے
وغیرہ وغیرہ کی آوازیں لگا کر گھیرنا شروع کر دیا۔ پھر جناب بچوں کو میاں
کے حوالے کر بیگم ایک کپڑے کی دکان میں داخل ہو ہی گئیں۔ دکاندارنے کپڑوں
کے ڈھیر لگا دیے مگر بیگم صاحبہ کوئی بھی ورائٹی پسند نہ آئی اور وہ اور
دکھائیں، اور دکھائیں پر اصرار کر تی رہیں۔ دکاندار نے بہت کہا کہ یہ سوٹ
لے لیں، دو ہی بچے ہیں ، میرا بھائی انڈیا سے لایا تھا، یہ گرم سوٹ لے لیں
میرا بھائی سوات کی سیر کو گیا تھا، وہاں سے لایا تھا، فلاں سوٹ کے صرف دو
ہی پیس بچے ہیں، باقی سب بک گئے، یہ والا تو آپکو پورے بازار میں نہیں
ملیگا، یہ جاپانی ہے، یہ انڈونیشیا کا ہے، یہ بنکاک کا، یہ انڈیا سے سپیشل
منگوایا ہے، یہ آپ پر بہت سوٹ کریگا، واہ واہ کیا کلر ہے۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔
مگر بیگم نے سب کو ہلکی اور سستی ورائٹی کہہ کر رد کر دیا۔ دکاندا ر بیچارہ
جو درجنوں ورائٹیاں دکھا دکھا کر تھک چکا تھا، اسے یہ کہتے ہی بنی کہ پھر
ٹھیک ہے آپ آرڈر دے دیں آپکا مال آرڈر پر بنوادیں گے۔ بیگم جس دکان میں
گھسے نکلنے کا نام نہ لیں۔ للو میاں بیچارے ہر کارے کی طرح بچوں اور شاپنگ
کر دہ سامان کو سنبھا لے پیچھے پیچھے۔ ایک بار للوں میاں نے تنگ آکر بلا وا
بھیجا تو بیگم نے تڑی لگائی کہ شاپنگ آرام سے کرنے دیں ورنہ انڈیا کے انا
ہزارے کی طرح سرِ بازار بھوک ہڑتال کر دونگی۔للو میاں نے بھی سوچا کہ گلگت
کے وزیرِ اعلیٰ کی طرح خرچہ پانی بند کرنے کی دھمکی لگا دی جائے پر انہیں
اخبار کی ایک خبر یاد آگئی کہ روس میں ایک ناراض بیوی نے شوہر کو چھری مار
کر ہلاک کردیاتھا۔یہ خیال آتے ہی للو میاں نے فورا اپنا یہ پروگرام کینسل
کر کے بیگم کو اسکے حال پر چھوڑ دیا۔ بیگم صاحبہ بندر کی طرح ایک دکان سے
دوسری اور اور دوسری سے تیسری دکان ، آخر کار ساتویں دکان جو کہ سب سے
مہنگی اور مشہور دکان تھی وہاں پر انہیں کچھ مال پسند آیا اور وہ بھی
دلہنوں والا یعنی لہنگا، فراق، بنارسی، ساڑھی، چکن سوٹ، ویلوٹ سوٹ وغیرہ
وغیرہ ۔ للو میاں نے لاکھ کہا کہ بیگم اب تمہاری عمر ان کپڑوں کے پہننے کہ
نہیں ہے، تم اب لڑکی نہیں، چھ عدد بچوں کی اماں ہو، اپنا ڈیل ڈول دیکھو اور
سوٹ دیکھو، کچھ عرصے بعد تم نانی یا دادی بن جاﺅگی، کچھ خیال کرو ، مگر
بیگم کے الٹے سے جواب نے للو میاں کو لاجواب کر دیا کہ جی عورت کبھی بوڑھی
نہیں ہو تی۔ للو میاں نے دل میں سوچا کہ واقعی جب پوری ایک میک اپ کٹ ایک
بار ہی چہرے پر تھوپ لی جائے تو پھر بڑھاپا کیسا۔ تو جناب کپڑے لینے کے بعد،
پھر اسکی میچنگ کے جوتے ، میچنگ کی چوڑیاں، پونی، بندے، میچنگ کا میک اپ
وغیرہ لیتے ھوئے بھی بیگم موصوفہ نے گھنٹوں لگا دیے۔
اس دوران چھوٹی منی کو لیٹرین کی حاجت ہوگئی، اب للو میاں بیچارہ منی کو
گود میں اٹھائے دکانداروں سے لیٹرین کہاں ہے کی انکوائری کر رہا تھا۔ کسی
نے کہا کہ فلاں مسجد میں کرا لاﺅ، کسی نے کہا کہ کسی کے بھی گھر میں گھس کر
کرا لو، کسی نے بتایا کہ سڑک کے اس پار کرایے کے باتھ روم چلے جائیں، مگر
منی میں اتنی تاب نہ تھی کہ برداشت کرتی،للو میاں نے آخر اسے قریبی گزرتی
نالی پر بٹھا کر فراغت دلائی۔ تھوڑی دیر بعد ہی منی موصوفہ نے نعرہ لگایا
کہ اب وہ مزید پیدل نہیں چل سکتیں لہذا اسے گود میں اٹھایا جائے، بیگم اور
بچوںنے بھر پور طریقے سے اسکی تائید کی۔ للو میاں کو فورا ایک جھماکے دار
خیال کہ آیا کہ کسی زمانے میں وہ بھی سرور ہیلتھ کلینک، جٹ لائن کراچی میں
باڈی بلڈنگ کے ذریعے ڈولے یعنی بازو بناتے تھا انہوں نے فورا جوش میں آکر
پرانے اسٹائل میں گود کی بجائے منی کو ریلوے کی قلی کی طرح مونڈھے پر چڑھا
یا دوسرے ہاتھ میں بیگم کے شاپنگ کر دہ شاپر اور پورے بازار میں سب کی
نظروں میں بسے رہے۔ مگر یہ سلسلہ زیادہ دیر نہ چلا کہ بوجوہِ زیادتی وزن
سامان اور منی سب کچھ نیچے آرہا اور راہگیروں نے بمشکل بیچارے للو میاں کا
سامان جمع کر کے دیا۔
کچھ دیر بعد بچوں نے بھوک لگ رہی کا شور مچادیا اور بیگم کو بھی فورا فروٹ
چاٹ ، دہی بھلے اور کولڈ ڈرنک وغیرہ یاد آگئی۔ کھانے پینے کی دکان میں جاتے
ہیں وہاں جتنی اشیاءموجود تھیں تمام ہی منگوا لی گئیں اور ہزار کا نوٹ خرچ
کر وا دیا اور جاتے جاتے آدھا درجن جوس کے ڈبے اور منرل واٹر کی بوتلیں بھی
لے لیں کہ بچوں کو پیاس لگے تو کہاں دکانداروں کے گندے مندے گلاسوں میں
پانی پلائیں گے۔ مزید یہ کہ بچوں کو جہاں بھی کوئی نیا کھلونا نظر آیا
انہوں نے جھپٹنے میں دیر نہ کی اور نہ ہی کوئی آتا جاتا کھانے پینے کی
اشیاءوالا ٹھیلے والا چھوڑا، تما اشیاءخوردو نوش ، نوش فرماتے رہے۔
یوں جناب بیگم خود کی شاپنگ سے فراغت پا کر اپنے گھر والوں کی باری پر آئیں
، ایک سے ایک کپڑا پسند کیا۔ للو میاں نے یاد دلایا کہ بیگم ابھی پچھلی عید
پر تم نے اپنی چھوٹی بہن کو ہزار کا سوٹ لیکر دیا تھا اس بار زرا ہلکا والا
لے لو، تو اس نے سنی ان سنی کر دی۔ منے کی پینٹ لینے کو گئیں، ٹرائی روم
میں جو گھسے بچے اند ہی لڑ پڑے اور ٹام اور جیری کی طرح شیشہ توڑ کر باہر
نکل آئے دکاندار نے فورا ہی جرمانے کے طور پر ہزار روپے ہتھیالیے۔ منی سے
جب اسکی پسند پوچھی تو وہ بھی ماں کی طرح سیانی نکلی کہ ہر ملٹی کلر کی
فراک پر جاکر کہتی کہ مما یہ والی لینی ہے۔ دکاندار نے جو قیمت بتا ئی تو
للو میاں کی جان نکل گئی کہ ایک بچی کی فراک اتنی مہنگی کہ اتنے میں تو بڑے
بندے کے دو سوٹ بن جائیں۔ بحث کر نے پر دکاندار نے للو میاں کو سر سے پاﺅں
تک برا سامنہ بنا کر دیکھا تو للو میا ں سمجھ گئے کہ وہ دل میں یہ کہ رہا
ہوگا کہ یہ شاید پنڈ سے آئے ہیں۔
تو جناب گھر کے تمام افراد کی شاپنگ سے فراغت پاکر آخر میں للو میاں نے
بیگم کو یاد کرایا کہ میری بھی بہت سی چیزیں لسٹ میں شامل تھیں انکا کیا
ہوگا۔ بیگم صا حبہ نے بڑی سی جمائی لی اور بولیں کہ بہت تھک گئی ہوں مزید
کسی شاپنگ کی گنجائش نہیں، بس جلدی سے پیزا ہٹ سے پیزا کھلا دیں اور ڈسکو
بیکری سے کیک اور نمکو کارنر سے پانچ کلو نمکو لے لیں اور بس گھر چلیں۔آپ
کی اشیاء ضروریہ اگلے چکر میں لے لیں گے کیونکہ آپکے تو پہلے ہی بکسے بھرے
پڑے ہیں ۔ للو میاں کو غصہ تو بہت آیا پر پھر فورا ہی صبر والی آیت یاد کر
کے صبر کر گئے کہ :اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے:
خیر جناب بڑی مشکل سے رات گئے تک یہ تمام کاروائی مکمل ہوئی او ر اس کاروان
نے واپسی کا قصد کیا۔ سامان اور بچے دیکھ کر کوئی رکشہ اور ٹیکسی والا
بٹھانے کو تیا ر نہ ہو۔ ایک رکشہ والے نے تو سامان اور بچے دیکھ کر آواز ہی
کس دی کہ صاحب کو کھوتا ریڑھی کرا لیں میرے بس کا کام نہیں۔ آخر کار ایک
عدد سوزوکی کیری ہائر کر کے گھر پہنچنا پڑا۔ |