امام حسین ؓ نے1383سال قبل معرکۂ کربلا میں شہادت و
عزیمت کا جو چراغ روشن کیا اس کے نور سے امسال پھر غزہ کے دروبام جگمگا
اٹھے ۔ اسرائیل کی حالیہ بمباری سے جملہ 44؍افراد نے جامِ شہادت نوش کیا جن
میں 14 بچے شامل ہیں۔ پندرہ ماہ قبل ہونے والی جنگ میں شکست کے بعد اسرائیل
نےپھر سے درندگی کا مظاہرہ کیا ۔ یہ صورتحال غزوۂ بدر کے بعد پیش آنے
والے غزوۂ احد سے مماثل ہے ۔ ایسے میں فلسطینیوں کی حالت پر ٹسوے بہانے
والے عرب حکمرانوں سے قرآن کہتا ہے:’’ اور منافق کون، وہ منافق کہ جب اُن
سے کہا گیا آؤ، اللہ کی راہ میں جنگ کرو یا کم از کم (اپنے شہر کی) مدافعت
ہی کرو، تو کہنے لگے اگر ہمیں علم ہوتا کہ آج جنگ ہوگی تو ہم ضرور ساتھ
چلتے، یہ بات جب وہ کہہ رہے تھے اُس وقت وہ ایمان کی نسبت کفر سے زیادہ
قریب تھے۔ وہ اپنی زبانوں سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں
ہوتیں، اور جو کچھ وہ دلوں میں چھپاتے ہیں اللہ اسے خوب جانتا ہے‘‘۔
اسرائیل کے ساتھ دوستی کا دم بھر نے اور فلسطینی جانبازوں کو مداہنت کی
نصیحت کرنے والے بزدلوں کے متعلق ارشادِ ربانی ہے :’’یہ وہی لوگ ہیں جو خود
تو بیٹھے رہے او ران کے جو بھائی بند لڑنے گئے اور مارے گئے ان کے متعلق
انہوں نے کہہ دیا کہ ا گروہ ہماری بات مان لیتے تو نہ مارے جاتے ان سے کہو
اگر تم اپنے قول میں سچے ہو تو خود تمہاری موت جب آئے اُسے ٹال کر دکھا
دینا‘‘۔اس کے بعد وہ عظیم حقیقت بیان کی گئی جو حضرت امام حسین ؓ سے لے کر
قیامت تک اپنی جانِ عزیز کا نذرانہ پیش کرنے والوں کو ترغیب شہادت دیتی ر
ہے گی ۔ فرمانِ قرآنی ہے :’’جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں انہیں
مردہ نہ سمجھو، وہ تو حقیقت میں زندہ ہیں، اپنے رب کے پاس رزق پا رہے ہیں۔
جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے اُس پر خوش و خرم ہیں‘‘۔ ایسی
پاکیزہ ارواح کو اپنے بعد والوں کی بابت اطمینان ہے کہ:’’ جو اہل ایمان ان
کے پیچھے دنیا میں رہ گئے ہیں اور ابھی وہاں نہیں پہنچے ہیں ان کے لیے بھی
کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے۔وہ اللہ کے انعام اور اس کے فضل پر شاداں
و فرحاں ہیں اور ان کو معلوم ہو چکا ہے کہ اللہ مومنوں کے اجر کو ضائع نہیں
کرتا ‘‘۔
اسرائیلی جبرو ظلم کا راکٹ حملے سے جواب دینے والے مجاہدین کے لیے رب
کائنات کی بشارت ہے کہ جن لوگوں نے: ’’زخم کھانے کے بعد بھی اللہ اور رسول
کی پکار پر لبیک کہا اُن میں جو اشخاص نیکوکار اور پرہیز گار ہیں اُن کے
لیے بڑا اجر ہے‘‘۔اللہ کی کتاب میں ان کی قلبی کیفیت کا بیان اس طرح ہے کہ
:’’اور وہ جن سے لوگوں نے کہا کہ، "تمہارے خلاف بڑی فوجیں جمع ہوئی ہیں،
اُن سے ڈرو"، تو یہ سن کر ان کا ایمان اور بڑھ گیا اور اُنہوں نے جواب دیا
کہ ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارسا ز ہے۔آخر کار وہ اللہ
تعالیٰ کی نعمت اور فضل کے ساتھ پلٹ آئے، ان کو کسی قسم کا ضرر بھی نہ
پہنچا اور اللہ کی رضا پر چلنے کا شرف بھی حاصل ہو گیا، اللہ بڑا فضل
فرمانے والا ہے‘‘۔ چار دن کی تباہی و بربادی کے بعد جنگ بندی کا اعلان
ہوگیا لیکن فلسطینی جانبازوں کا حوصلہ اب بھی بلند ہے اوروہ دشمن سے مقابلہ
کرنے کے لیے کمربستہ ہیں۔
ان مجاہدین کی حوصلہ شکنی کرنے والوں کی نقاب کشائی اس طرح کی گئی ہے کہ
:’’اب تمہیں معلوم ہو گیا کہ وہ دراصل شیطان تھا جو اپنے دوستوں سے خواہ
مخواہ ڈرا رہا تھا ۔ لہٰذا آئندہ تم انسانوں سے نہ ڈرنا، مجھ سے ڈرنا اگر
تم حقیقت میں صاحب ایمان ہو‘‘۔ اس کے ساتھ یہ خوشخبری بھی سنائی گئی کہ :’’
جو لوگ آج کفر کی راہ میں بڑی دوڑ دھوپ کر رہے ہیں ان کی سرگرمیاں تمہیں
آزردہ نہ کریں، یہ اللہ کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکیں گے‘‘۔ آگے امت کی آستین
کے سانپوں کووعید سنائی گئی ہے کہ :’’اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ اُن کے لیے
آخرت میں کوئی حصہ نہ رکھے، اور بالآخر ان کو سخت سزا ملنے والی ہے ۔جو لوگ
ایمان کو چھوڑ کر کفر کے خریدار بنے ہیں وہ یقیناً اللہ کا کوئی نقصان نہیں
کر رہے ہیں، اُن کے لیے درد ناک عذاب تیار ہے ‘‘۔ ارضِ فلسطین پر بپا حق و
باطل کی کشمکش اس شعر کی مانندپکار پکار کہہ رہی ہے؎
کہتا ہے کون ختم ہوئی کربلا کی جنگ ؟
ہم لڑ رہے ہیں آج بھی فکرِ یزید سے
|