چنددن پہلے میں ٹی وی چینل 92 دیکھ رہا تھا جس میں
ایک بہت بڑے مبصر ناقد اور تجزیہ نگار موجودہ حالات پہ اپنا تجزیہ دے رہے
تھے اینکر یاسر کے اس سوال پر کہ بنی گالا کو پولیس اور دیگر ایجنسیوں نے
چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے اور عمران خان (سابق وزیر اعظم) کو گرفتار کئے
جانے کے امکانات کا جواب دیتے ہوئے بڑے بلندو بانگ دعوے کرتے ہوئے گویا
ہوئے وہ کہہ رہے تھے یاسر میں آپ کو بتاؤں عمران خان کو کسی صورت بھی
گرفتار نہیں کیا جاسکتا عمران خاں کو کوئی گرفتار نہیں کر سکتا بہت اعتماد
تھا ان کی گفتگو میں بقول ان کے عمران خان کو گرفتار کرنا وفاقی حکومت کے
لئے انتہائی نا ممکن ہے میزبان نے پھر سوال کیا کہ اگر ان کو گرفتار کر لیا
گیا تو کیا ہو گا جس پر انہوں نے اعتماد سے َبھر پور انداز میں جواب دیا کہ
یاسر اگر عمران خان کو گرفتار کیا گیا تو حکومت کے لیے بڑی مشکل ہو جائے گی
لینے کے دینے پڑ جائیں گے حکومت کو حکومت کے اس اقدام پر عوام کا ایک
خوفناک رد عمل اے گا جبکہ لوگوں کو کنٹرول کرنا حکومت وقت کے لئے مشکل ہی
نہیں بلکہ ناممکن ہو جائے گا لوگ پورے ملک میں احتجاج کرنے کے لئے سڑکوں پر
نکل آئیں گے اور پورے پاکستان بند کر دیں بلکہ پورے ملک کو جام کر دیا جاے
گا اتنا شدید رد عمل ہو گا عوام کا اور عوام کے اس سمندر میں ہر شے خس و
خاشاک کی طرح بہہ جایگی تو میزبان نے پوچھا کیا اب بھی لوگ خان کو بچانے کے
لئے اسلام آباد پہنچے چکے ہیں یا نہیں تو جواب میں رانا صاحب نے بتایا اس
وقت بہت سارے لوگ بنی گالا موجود ہیں اور بہت سارے لوگ خان کو بیرون
گرفتاری سے بچانے کے لئے بنی گالا پہنچی رہے ہیں انہوں نے مزید بتایا کہ اس
وقت علی افضل ساہی خرم شہزاد ورک وغیرہ وغیرہ اپنی ٹیموں کے ساتھ وہاں پر
موجود ہیں عوام نکل آئیں گے عوام طوفان برپا کر دیں گے لوگ احتجاج کریں گے
پتہ نہیں لوگ کیا کر دیں گے یہ ساری باتیں سن کر مجھے شہید ذوالفقار علی
بھٹو یاد آ گیا بھٹو بہت بڑا اور تگڑا لیڈر تھا اور ایک پاور فل وزیر اعظم
بھی جس نے امریکہ کو للکارنے کی غلطی کی تھی اس زعم میں کہ میں ملک کا
پاپولر اور عوام کے دلوں میں بسنے والا لیڈر ہوں میں کسی کو بھی آنکھیں
دکھا سکتا ہوں پھر اس کے خلاف 9 جماعتوں نے عوامی اتحاد بنایا جس کو 9
ستارے کے نام سے بھی جانا جاتا ہیان کے بارے میں بھی کہا جاتا تھا کہ ان
کوامریکہ کی سر پرستی حاصل ہے بھٹو کے خلاف 1977 میں باقاعدہ تحریک چلائی
گئی لیکن بھٹو کسی طرح بھی ان کے قابو نہیں آ رہا تھا تحریک اتنا زور پکڑ
گئی کہ ضیاء الحق کو ملک میں مارشل لا لگانا پڑا وہ الگ بات ہے بقول کچھ
لوگوں کے کہ ضیاء الحق نے مارشل لاء غلط لگایا تھا کیونکہ جس رات مارشل لاء
لگا اس دن اپوزیشن اور حکومت کے درمیان حاری مزاکرات کامیاب ہو گئے تھے اور
اختلافات ختم ہو گئے تھے با قاعدہ معاہدہ ہو چکا تھا اور بھٹو صاحب اسمبلی
تحلیل کر کے الیکشن کی تاریخ اناؤنس کرنے والے تھے بحر حال مارشل لاء لگا
دیا گیا اور بھٹو صاحب کو گرفتار کر لیا گیا بھٹو کا خیال تھا لوگ ملک میں
افراتفری مچا دیں گے اور مجھے بچا لیں گے مجھے رہا کروا لیں مگر ایسا نہیں
ہوا اور بھٹو صاحب کے خلاف نواب احمد رضا قصوری کے قتل کا مقدمہ چلایا گیا
اور انہیں اسی جرم میں سزائے موت دے کر راستے سے ہٹایا گیا لوگ نکلے مگر اس
طرح نہیں جو توقع بھٹو صاحب کو تھی آج بھی وہی حالات ہیں بھٹو نے پاکستان
میں ایٹم بم کی بنیاد رکھ کر امریکہ سے دشمنی لی اور عمران خان نے
absolutely not کہہ کر امریکہ کو ناراض کر لیا پھر وہی ہوا جو ہونا تھا
عمران کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئی اور حکومت بدل گئی اس وقت بھٹو کے خلاف
9 جماعتوں کا اتحاد تھا اور آج عمران خان کے خلاف 14 جماعتوں کا اتحاد ہے
اور وہی لوگ پھر سے ایک شخص کے خلا ف بر سر پیکار ہیں جو1977 میں بھٹو
کیخلاف تحریک میں شامل تھیں فرق صرف اتنا ہے 77 تحریک بڑوں چلائی اور کے پی
ڈی ایم اے ان محرکین کے بچے شامل ہیں جیسے مفتی محمود کا بیٹا فضل الرحمان,
انس نورانی شاہ احد نورانی کا بیٹا ولی خان کا بیٹا وغیرہ وغیرہ جس طرح
1977 میں بھٹو 9 جماعتوں کا اکیلا مقابلہ کرتے کرتے زندگی کی بازی ہار گیا
ویسے ہی اب خان 14 جماعتوں کے گھیرے میں ہیقومی اتحاد کی طرح آج پھر وہی
تاریخ انکے بیٹے دہرا رہے ہیں اس وقت بھی عدالتوں کو مینیج کیا گیا اور آج
بھی کوشش کی جارہی ہے اس وقت ایک جنرل صدر تھا اور اب ہو سکتا ہے کسی کی
صدر بننے کی خواہش ہو اس وقت بھی اداروں کی ہواؤں کا رخ بھٹو کی مخالف سمت
تھا اس کے حالات اور آج کے حالات میں ایک فرق یہ بھی ہے اس وقت صرف پی ٹی
وی تھا اور آج بہت سارے نیوز چینل کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا بہت ایکٹو ہے جو
کوئی بھی خبر چھپی نہیں رہنے ہر خبر منظر عام پر لے آتے ہیں لیکن حالات
سارے کے سارے وہی77 والے ہیں بھٹو قابو نہیں آتا تھا اس کے خلاف قتل کا
مقدمہ گھڑ لیا گیا خان کو قابو کرنے کے لئے فارن فنڈنگ جو فارن فنڈنگ سے اب
ممنوعہ فنڈنگ ہو گیا ہے لیکن خان مطمئن ہیں عوامی حمایت اور عوام کی
والہانہ محبت کی وجہ سے جبکہ بھٹو بھء عوام کی محبت کے دھوکے میں ماراگیااﷲ
کرے عوام کا ریسپانس خان کی توقعات کے عین مطابق ہو کہیں بھٹو والا ہاتھ نہ
ہو جائے خان کے ساتھ خان کی گرفتاری کی بنیاد شہباز گل کو گرفتار کرکے رکھ
دی گئی ہے حکومت نے عوام کی نبض چیک کرنے کے لئے یہ اقدام اٹھایا ہے اگر
عوام کی طرف سے کو ئی رد عمل آیا تو پھر سٹرٹیجی تبدیل ہو سکتی ہے
|