ڈاکٹر احسان عالم ۔’’ آئینۂ تنقید ‘‘کے آئینے میں

سلیم انصاری ،جبل پور


کسی بھی زبان کے ادب میں یہ بات باعثِ اطمینان ہوتی ہے کہ نئے لکھنے والوں کی تازہ کھیپ آتی رہے تاکہ زبان و ادب کو درکار تازہ لہو کی فراہمی میں تسلسل قائم رہے ۔میرے نزدیک ڈاکٹر احسان عالم کا شمار اردو کے ان سپاہیوں میں ہونا چاہیے جنہوں نے بہت کم عرصہ میں اپنی تنقیدی صلاحیتوں کے سبب اردو نثر کے میدان میں اپنی شناخت مستحکم کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے ۔جس کے لئے وہ یقینی طور پر قابلِ مبارک باد ہیں ۔اب تک ان کی ترتیب و تصنیف کردہ کتب کی تعداد ڈیڑھ درجن سے بھی تجاوز کر کئی ہے ۔

’’آئینۂ تنقید ‘‘ ان کی تازہ ترین نثری کاوش ہے جس میں تقریباً ۲۸ مضامین شامل کیے گئے ۔ یوں تو انہوں نے مختلف موضوعات پر سیکڑوں مضامین قلمبند کئے ہیں جو اکثر رسائل و جرائد اور اخبارات میں شائع بھی ہوئے ہیں لیکن ظاہر ہے سارے مضامین کی سمائی اس ایک کتاب میں ممکن نہیں ۔اپنی کتاب کے بارے میں انہوں نے خود واضح کیا ہے کہ’’ آئینۂ تنقید ‘‘میں شامل زیادہ تر مضامین کرونا لاک ڈاؤن کے درمیان لکھے گئے ہیں ۔۵۱۲ صفحات پر مشتمل زیرِ نظر کتاب میں شامل زیادہ تر مضامین شخصی نوعیت کے ہیں ، حکیم اجمل خاں ، علامہ اقبال ، مرزا غالب،سرسید ، مولانا ابوالکلام آزاد، سعادت حسن منٹو، یاس یگانہ چنگیزی،راجندر سنگھ بیدی،قرۃ العین حیدر ، فیض احمد فیض سے لے کر وہاب اشرفی، کلیم عاجز ، مناظر عاشق ہرگانوی،جمال اویسی اور منصور خوشتر تک ادبی شخصیات کی ایک کہکشاں پھیلی ہوئی ہے جن پر ڈاکٹر احسان عالم نے خامہ فرسائی کی ہے ۔

کتاب میں شامل مضامین کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف کا مطالعہ وسیع اور کثیر الجہت ہے نیز وہ اپنی تحاریر میں سنجیدہ نظر آتے ہیں ۔اپنی بات کے تحت ڈاکٹر احسان عالم نے بڑی وضاحت سے لکھا ہے کہ تنقیدی نظریات وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں اور یہ تبدیلیاں زندگی کی علامت ہے جس کا اثر تخلیق کار اور تنقید نگار دونوں پر ہوتا ہے ۔ تخلیقی عمل ایک پیچیدہ انفرادی عمل بھی ہے اور سماجی عمل بھی ۔یہ بات سچ ہے کہ نقاد کا وجود تخلیق کار کا مرہونِ منت ہے ، مگر کسی بھی فن پارے کے عیوب و محاسن کو منظرِ عام پر لانے کے لئے نقاد کے کنٹریبیوشن سے انحراف ممکن نہیں ۔ اس اعتبار سے دیکھیں تو ایوانِ ادب میں نقاد کا وجود ناگزیر ہے ۔مجھے خوشی ہے کہ ڈاکٹر احسان عالم تنقید کے عمل میں نہ صرف سنجیدہ ہیں بلکہ غیر جانب دار بھی ہیں ۔انہوں نے اپنے نقد و تجزیہ کا مرکز و محور صرف اور صرف فن پاروں کو ہی بنایا ہے ۔ان کے یہاں اگر حقانی القاسمی کو مستقبل میں امکانات نظر آتے ہیں تو یہ ایک خوش آئند بات ہے ، ان کے مطابق جوں جوں ان کا تخلیقی شعور مزید پختہ ہوتا جائے گا، ان کی تخلیقی زنبیل فکری زر و جواہر سے معمور ہوتی جائے گی اور پھر جو درِ گنجینۂ گوہر کھلے گا ، تو دیکھنے والے عش عش کریں گے۔تقریباً یہی خوش آئند توقعات ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی کو بھی مصنف سے ہے ،ان کے مطابق مختلف اور متنوع موضوعات پر ان کی تنقیدی تحریروں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مستقبل میں اپنے امتیازی جوہر سے اس دنیا میں ایک اہم جگہ ضرور حاصل کرلیں گے۔حقانی القاسمی اور ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی کی خوش آئند توقعات کو ڈاکٹر علیم اﷲ حالی کی اس رائے سے بڑی تقویت ملتی ہے کہ امید ہے ڈاکٹر احسان عالم خوب سے خوب تر کی تلاش کا بامعنی سفر جاری رکھیں گے اور اہلِ نظر اپنی توجہ سے محروم نہ کریں گے ۔

مجھے لگتا ہے کہ ڈاکٹر احسان عالم کی تنقیدی کاوشات کو سمجھنے کے لئے ، ’’ آئینۂ تنقید‘‘ میں شامل چند مضامین کے content پر گفتگو ضروری ہے ۔اس کتاب میں شامل شخصیات میں سے کچھ شخصیات پر پہلے بھی مضامین نظر سے گزر چکے ہیں مگر کئی مضامین ایسے ضرور ہیں جو قارئین کے لئے بالکل نئے اور تازہ کار ہیں ۔حکیم اجمل خان کی سوانح اور کارناموں پر گفتگو کرتے ہوئے مصنف نے یہ انکشاف کیا ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ترجمانی کے لئے ۱۹۲۳ میں رسالہ ’’ جامعہ‘‘ اور اس کے بعد ’’ پیامِ تعلیم ‘‘ کا اجرا کیا اور یہ دونوں رسالے آج تک جاری ہیں ۔اردو کے رسائل و جرائد کی تاریخ میں قدامت کے لحاظ سے ان رسائل کو اولیت اور اہمیت حاصل ہے ۔ یہ معلومات ممکن ہے نئی نسل کے بعض قارئین کے لئے نئی ہو مگر افادیت کی حامل ہے ۔زیرِ نظر کتاب میں علامہ اقبال کے حوالے سے دو مضامین شامل ہیں ، جن میں سے ایک مضمون سوانحی اور شخصی نوعیت کا ہے جب کہ دوسرا مضمون اقبال کی شاعری کے متعلق ہے جس میں ان کی وطنی شاعری کا جائزہ لیا گیا ہے۔عام طور سے اقبال پر یہ اعتراض کیاجاتا ہے کہ انہوں نے اپنی شاعری اسلامی فکر اور فلسفے پر مرکوز رکھی ہے مگر میرے نزدیک یہ پورا سچ نہیں ۔ اقبال کی شاعری کا ایک قابلِ لحاظ حصہ وطنی، تہذیبی اور عصری فکر و اْگہی اور منظر نگاری سے عبارت ہے ۔یہی نہیں انہوں نے بچوں کے لئے بھی شاعری کی ہے ۔اس طرح دیکھیں تو اقبال کی شاعری کا کینوس وسیع ہے اور کئی جہتوں میں روشن ہے ۔ مجھے خوشی ہے کہ ڈاکٹر احسان عالم نے اقبال کی وطنی شاعری پر تفصیلی گفتگو کی ہے ۔دورانِ گفتگو انہوں نے بتایا کہ ’’ ترانۂ ہندی‘‘ میں وطن کی جو تعریف کی ہے وہ لاکھوں کروڑوں ہندوستانیوں کے جذبات کی سچی ترجمانی کی ہے ۔اور آج بھی اس نظم کے اشعار زبان زدِ عام ہے اور ہمیں وطنیت کے جذبے سے سرشار کرتی ہے ۔

غالب کی شاعری پر لکھے گئے اپنے مضمون میں مصنف نے یہ انکشاف کیا ہے کہ غالب فلسفی نہ تھے وہ اسرارِ حیات اور رموز و کائنات کا ایک معقول تصور رکھتے تھے ۔ ذہنِ انسانی کو دعوتِ فکر دینا ان کی شاعری کا ایک خاص مقصد بن گیا تھا ۔غالب کی شاعری سے تصوف کے رنگ سے مملو اشعار بھی مصنف نے اپنی دلیل میں پیش کئے ہیں ۔حالانکہ ان کے اس خیال سے جزوی عدم اتفاق کی گنجائش بھی نکلتی ہے کہ غالب فلسفی نہیں تھے۔حالانکہ وہ خود اعتراف کرتے ہیں کہ غالب کی شاعری پہلو دار اوور تہ دار ہے اور ان کا کلام ایک بحرِ بیکراں ہے جن کو چند صفحات میں تحریر کرنا بہت ہی مشکل کام ہے بلکہ ایک حد تک ناممکن ہی ہے۔

شاد عظیم آبادی کی شاعری کے تعلق سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر احسان عالم نے لکھا ہے کہ شاد فلسفی شاعر ہوں یا نہ ہوں ایک عظیم شاعر قطعی طور سے تھے اس کے علاوہ انہوں نے شاد کی شاعری میں صوفیانہ عناصر کی بھی تلاش کی ہے اور بتایا ہے کہ شاد کی وسعت پسندانہ آفاقیت نے اردو غزل کا معیار ہی بلند نہیں کیا بلکہ اس کا مزاج بھی بدل دیا۔ بہادر شاہ ظفر کی شاعری پر اپنے اپنے مضمون میں انہوں نے جہاں ایک طرف حب الوطنی کے عناصر کی نشاندہی کی ہے وہیں ان کی شاعری میں ہندو مسلم مشترکہ تہذیبی روایات کی تلاش بھی کی گئی ہے ۔

فراق گورکھپوری کی شخصیت اور شاعری پر مشتمل اپنے مضمون میں ڈاکٹر احسان عالم نے کئی مثالیں پیش کر کے یہ بتایا ہے کہ فراق کے یہاں جسمانی لذت اور لمس کا جو ا حساس نمایاں طور پر جھلکتا ہے وہ دوسرے شاعروں کے یہاں مفقود ہے ۔فراق اردو کے پہلے شاعر ہیں جن کے یہاں جنسی رومانیت کا تصور پیش کیا گیا ہے ۔یہی نہیں فراق نے اردو شاعری کو نئی نئی تشبیہات اور استعارات دیے ہیں اور سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر ہندوستانی ہیں ۔ بلا شبہ فراق اردو کے ایک بڑے شاعر ہیں ، ان کی شاعری کا کینوس بڑا اور وسیع ہے ،ان کی شاعری کا تفصیلی تجزیاتی مطالعہ کریں تو اندازہوتا ہے کہ ان کے یہاں شاعری میں محض جنس زدہ رومانیت نہیں بلکہ عصری صداقتوں اور تہذیبی قدروں کے زوال کا بھی اظہار ان کے یہاں ہوا ہے ۔اس کے علاوہ ان کے یہاں مناظرِ فطرت اور قدرت کی نیرنگیاں بھی شعری پیکر میں ڈھل جاتی ہیں ۔

سعادت حسن منٹو کے افسانوں اور ناولوں پر بہت کچھ لکھا جا چکا ، مگر ان کے ڈراموں پر کم کم ہی لکھا گیا ۔ اپنے مضمون میں مصنف نے ان کے ریڈیائی ڈراموں کے حوالے سے گفتگو کی ہے اور یہ ایک خوش آئند بات ہے ۔منٹو نے ریڈیائی ڈرامے اگرچہ وقتی ضرورت کے اعتبار سے لکھے گئے ہیں مگر ان کے ڈرامے بھی افسانوں کی طرح عورت کی نفسیات کے ارد گرد گھومتے ہیں ۔ یاس یگانہ چنگیزی کی شاعری پر اپنے مضمون میں مصنف نے یہ واضح کیاہے کہ اگرچہ یگانہ شاعری میں اپنا منفرد لہجہ تراشنے میں کامیاب ہوگئے تھے لیکن آتش کے رنگِ سخن کا بھر پور اثر ان کے یہاں نظر آتا ہے ۔یگانہ نے نثر میں بھی اپنی منفرد شناخت بنائی اور غالب شکن جیسی متنازعہ کتاب لکھی جس سے ان کے ہمدرد و ہم نوا بھی ان کے مخالف ہو گئے ۔یہ بات تو واضح ہے کہ یگانہ انانیت کا شکار تھے اور بہت جلد لوگوں کو ناراض کر دیتے تھے یہی وجہ ہے کہ لکھنؤ کے ادبی حلقوں میں انہیں آخر دم تک قبول نہیں کیاگیا ۔ ڈاکٹر احسان عالم نے یگانہ کی رباعیات پر بھی گفتگو کی ہے ۔ اس طرح ان کی شاعری کا ایک مجموعی جائزہ پیش کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔

راجندر سنگھ بیدی کے افسانوں کے حوالے سے جو مضمون ’’ آئینۂ تنقید ‘‘ میں شامل ہے اس میں کئی افسانوں سے مثالیں پیش کر کے مصنف نے یہ ثابت کیا ہے کہ ان کے افسانوں میں عورت کو مرکزیت حاصل ہے اور انہوں نے اپنے افسانوں کو نام نہاد نیچرل ازم اور ترقی پسندی کے منشور سے بچائے رکھا ہے ۔قرۃ العین حیدر کے افسانوں پر گفتگو کرتے ہوئے مصنف نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ تاریخ، تہذیب و تمدن اور ہندوستانی اساطیر کی روایات سے ان کی گہری دلچسپی رہی ہے۔اس کے علاوہ انہوں نے مغربی تہذیب اور ثقافت سے بھی استفادہ کیا ہے ۔ مجھے ڈاکٹر احسان عالم کے یہاں یہ بات اچھی لگتی ہے کہ وہ جس موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں اس کے بارے میں تفصیلی مطالعہ اور مشاہدہ کرتے ہیں ۔

فیض احمد فیض کی شاعری پر بھی ایک مضمون زیرِ نظر کتاب میں شامل ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ ترقی پسند تحریک سے وابستگی کے باوجود فیض کے یہاں سیاسی و انقلابی رحجانات کے علاوہ ایک طرح کی رومانیت اورجمالیاتی شعور و ادراک بھی تھا ۔اور ان سارے عوامل نے فیض کی شاعری کو ایک بہت بڑا کینوس عطا کیا ہے ۔وہاب اشرفی کی تنقیدی نگارشات کے عنوان سے بھی ایک مضمون شامل ِ کتاب ہے جس میں ان کی کئی کتب کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے ۔ ان کی جن کتب کا تذکرہ کیا گیا ہے ان میں قدیم ادبی تنقید،مثنویاتِ میر کا تنقیدی جائزہ،راجندر سنگھ بیدی کی افسانہ نگاری،معنی کی تلاش،آگہی کا منظر نامہ،حرف حرف آشنا،اردو فکشن اور تیسری آنکھ ، بہار میں اردو افسانہ نگاری اور تاریخِ ادبیاتِ عالم وغیرہ شامل ہیں ۔وہاب اشرفی کا شمار اردو ادب کے صفِ اول کے ناقدین میں ہوتا ہے اور ان کی تنقیدی نگارشات کو ادب میں حکم کا درجہ حاصل ہے ۔ پانچ جلدوں پر مشتمل تاریخِ ادبیات ِ عالم ان کا ایک بڑا تنقیدی اور تحقیقی کارنامہ ہے جو ریسرچ اسکالرز کے لئے قطب نما کی حیثیت رکھتا ہے۔وہاب اشرفی کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ادب کی سمت و رفتار پر گہری نظر رکھتے ہوئے ادب کے سنجیدہ قارئین کے لئے کتابیں لکھیں۔کلیم عاجز کی شاعری پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر احسان عالم نے لکھا ہے کہ انہیں یہ امتیاز حاصل رہا ہے کہ مشاعروں میں اپنے مخصوص ترنم ، سوز و گداز،لہجے کی نرمی اور گھلاوٹ کے سبب اپنی ایک علاحدہ شناخت قائم کی ہے اور قاری اور سامع کے ذہن میں ایک خاص تاثر پیدا کیا ہے ۔ یہ بات سچ ہے مگر مجھے یہ کہنا ہے کہ کلیم عاجز کی مقبولیت صرف مشاعروں سے ہی نہیں بلکہ ادب کے سنجیدہ حلقوں میں بھی وہ قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں اور نثر کے میدان میں بھی وہ اپنی ایک الگ پہچان رکھتے ہیں ۔ان کی ایک درجن سے زائدنثری و شعری کتابیں شائع ہوکرقبولیت حاصل کر چکی ہیں ۔پروفیسر منصور عمر کی شاعری کے حوالے سے بھی ایک تفصیلی اور طویل مضمون شامل ہے ،جس میں پروفیسر موصوف کی غزلوں، آزاد غزلوں ، نظموں ، غزل نما، ماہیوں اور کہ مکرنیوں وغیرہ پر اجمالی گفتگو کی گئی ہے ۔اس اعتبار سے دیکھیں تو پروفیسر منصور عمر کی شعری اور تخلیقی کائنات وسیع ہے ، بیک وقت کئی شعری اصناف میں طبع آزمائی کرنے کے سبب اان کا وژن کئی جہتوں میں پھیلا ہوا ہے ۔

عبد المنان طرزی کے تابندہ نقوش کے عنوان سے ایک مضمون ’’ آئینۂ تنقید ‘‘ میں شامل ہے ،جس میں ان کی مضموعی شعرہ خدمات کا جائزہ لیا گیاہے ۔ پروفیسر طرزی درجنوں کتابوں کے مصنف و مؤلف ہیں اس کے علاوہ کئی ساری کتابیں ان کے فن پر بھی مرتب کی جا چکی ہیں جس سے ان کی تنقیدی اور تخلیقی صلاحیتوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ڈاکٹر احسان عالم نے یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ ان کے ذریعہ کہے گئے اشعار کی تعداد پینسٹھ ہزار سے بھی زیادہ ہے۔مصنف کے مطابق پروفیسر طرزی کے ذہن میں اشعار ایک سیل رواں کی طرح صفحۂ قرطاس پر پھیل جاتے ہیں ، فارسی زباان و ادب پر بھی انہیں دسترس حاصل ہے غالباً اسی لئے ڈاکٹر احسان عالم نے انہیں فردوسیٔ ہند سے تعبیر کیا ہے جو میرے نزدیک بہت مناسب اور پروفیسر موصوف کے شایانِ شان ہے ۔اس کتاب میں پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی کے فن کے حوالے سے لکھے گئے اپنے مضمون میں مصنف نے انہیں کثیر الجہت قلم کار سے تعبیر کیا ہے ، وہ بیک وقت شاعر بھی تھے، نقاد بھی تھے، افسانہ نگار بھی تھے ، محقق بھی تھے ۔ان کی تخلیقی اور تنقیدی صلاحیتوں سے ایک زمانہ واقف ہے ۔ ڈاکٹر احسان عالم نے ان کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں ایک قابلِ قدر قلم کار بتایا ہے ۔وہ بچوں کے ادیب کی حیثیت بھی خاصے معروف ہیں ۔اس کے علاوہ آزاد غزل کی ترویج و اشاعت میں بھی ان کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں ۔

جمال اویسی کی نظمیہ شاعری پر بھی ایک مضمون شامل ہے جو ان کی کلیات ِ نظم ’’نقش گریز‘‘ کی روشنی میں لکھا گیاہے۔ ۱۹۸۰ کے بعد تخلیق کاروں کی جو نسل سامنے آئی ہے اس میں جمال اویسی کا نام نمایاں ہے ۔جمال اویسی ۱۹۷۵ سے لکھ رہے ہیں اور ان کی ایک درجن کتابیں منظرِ عام پر آکر ناقدینِ شعرو و ادب سے خراج وصول کر چکی ہیں ۔جمال اویسی ایک عمدہ نثر نگار ہیں اب تک ان کی دو تنقیدی کتابیں بھی شائع ہو چکی ہیں ۔جمال اویسی کی نظموں کا مطالعہ کرتے ہوئے مصنف نے واضح کیا ہے کہ زندگی، وقت،انسان اور خدا جمال اویسی کے بنیادی موضوعات ہیں اور ان موضوعات پر لکھی گئی نظمیں گہرے فکر و شعور کا پتہ دیتی ہیں ۔مجھے خوشی ہے کہ ڈاکٹر احسان عالم نے جمال اویسی کی کئی نظموں کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے ۔کتاب کے آخر میں منصور خوشتر کے ادبی کارناموں کے حوالے سے بھی ایک مضمون شامل کیا گیاہے ۔موجودہ عہد میں منصور خوشتر کا نام ادبی حلقوں میں خاصاجانا پہچاناہے ،زبان و ادب کے تئیں ان کی خدمات کا اعتراف بہت سارے ناقدینِ شعرو ادب نے اچھے لفظوں میں کیا ہے اس کے علاوہ ان کی ادارت میں نکلنے والا سہ ماہی رسالہ دربھنگہ ٹائمز اردو کے سنجیدہ حلقوں میں تیزی سے اپنی شناخت مستحکم کرنے کی دشا میں رواں ہے ۔ منصور خوشتر نے قلیل عرصہ میں دربھنگہ ٹائمز کے کئی خصوصی تاریخی اور یادگار نمبر شائع کئے ہیں جن کی گونج اب تک سنائی دیتی ہے ۔اسی مضمون میں منصور خوشتر اور دربھنگہ ٹائمز کے حوالے سے سنجیدہ ناقدین کی آرا بھی شامل کی گئی ہے جس سے اس کی مقبولیت کا اندازہ ہوتا ہے ۔اﷲ سے دعا ہے کہ وہ اردو کے اس سپاہی کے حوصلے تا دیر مستحکم رکھے ۔

آئینۂ تنقید کے کچھ مضامین پر اس رائے کی روشنی میں ڈاکٹر احسان عالم کی تنقیدی صلاحیتوں کا اعتراف نہ کرنا دراصل ادبی بد دیانتی ہو گی ، مجھے خوشی ہے کہ مصنف نے بڑی دلجمعی اور دلچسپی سے یہ مضامین تحریر کئے ہیں لہٰذا امید کی جا سکتی ہے وہ مستقبل میں بھی اپنی تنقیدی کاوشات کو ادب کے سنجیدہ قارئین کے سامنے پیش کریں گے اور آئینۂ تنقید سے آگے کا سفر طے کریں گے ۔
٭٭٭
 

Ahsan Alam
About the Author: Ahsan Alam Read More Articles by Ahsan Alam: 13 Articles with 10899 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.