اگر چہ بعض بچے رسمی تعلیم کے ابتدائی مدارج میں اپنی
ذہنی کارکردگی کا لوہا منوا لیتے ہیں۔۔تاہم،جہاں تک آئی کیو لیول کی بات ہے
تو اس خام خیالی سے نکل جانے کی ضرورت ہے کہ مروجہ تعلیمی نصاب میں سند
امتیاز پانے والا ہی آئی کیو کے لحاظ سے ممتاز ہے۔ذہانت اور ذہنی کارکردگی
کو مخصوص پیمانے سے جانچنا درست نہیں اور نہ ہی اس کے نتائج کو سند کا درجہ
دینا چاہیئے۔ضروری نہیں کہ ہر بچہ ہر میدان میں اپنا لوہا منوا سکے۔ حافظ
قرآن والدین کا بچہ عموما حفظ کے میدان میں اعلیٰ کارکردگی کا ثبوت دیتا ہے
تو شاعری کے دلدادہ والدین کا بچہ شعروادب اور بیعت بازی کی مقابلوں میں
اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ کچھ بچے فطرتاً آزاد ماحول کے گرویدہ ہوتے ہیں اور
لیڈر بننے کے لئے پیدا ہوتے ہیں، میر کارواں بننے والی مستقبل کے ان افراد
کو جب رسمی تعلیم کےگرداب میں جبری طور پر دھکیلا جاتا ہے تو نتائج عموماً
خوشگواری نہیں ملتے۔
لہٰذا مستقبل کے معماروں پر بے جا تنقید کر کے ان کی پوشیدہ صلاحیتوں کو
زنگ نہ لگائیں ۔ آپ بچے کی دلچسپی کے میدان کا اندازہ نہیں کر پا رہے تو کم
از کم ایک مخصوص اور لا حاصل کی دوڑ میں نمایاں پوزیشن لانے کے لئے ان پر
دباؤ بھی نہ ڈالیں۔نیز دو مختلف دائرہ کار میں ذمہ داری ادا کرنے والوں کو
ایک ہی نسخے پر تیار نہ کریں۔ ورنہ بچوں کو مادی سہولیات تو مل جایا کریں
گی مگر شعور سے بے بہرہ ہی رہیں گے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزاد پیدا کیا ہے۔اس کی آزادی کو سلب کرنے کی کوشش
کی جائے یا طوطے کی طرح پر کاٹ کر محدود دائرے میں آزادی دی جائے، بگاڑ
پیدا ہوتا ہے۔ مروجہ تعلیمی نظام میں اگر بچہ خود کو ڈھال نہیں پا رہا تو
پریشان ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں ، ایسا نہیں کہ آپ کا بچہ نالائق ہے بلکہ
اس کی دلچسپی اور رحجانات کے برعکس تعلیم دی جا رہی ہے ، وہ اپنے آپ کو بند
پنجرے میں محسوس کرتا ہے اور اپنے رحجانات کے میدان میں پرواز کے لئے اس کی
آزاد فطرت اسے مضطرب رکھتی ہے۔ لہٰذا بچوں کو اعتماد دیں ،ان کی حوصلہ شکنی
، دلآزاری سے بچیں۔
آپ سے یہ امر بھی پوشیدہ نہیں رہنا چاہیئے کہ پڑھے لکھے نوجوان بھی شدید
اضطراب اور بے چینی کا شکار ہیں، زندگی کے کئی قیمتی سال رسمی تعلیمی
اداروں میں لگانے والے نوجوان کے تو گویا پربھی کاٹ لیے جاتے ہیں وہ بلند
پرواز کر ہی نہیں سکتا،بزدلی اس کی طبیعت کا خاصہ ہوتی ہے۔ وہ ایک محدود
دائرے میں رہ کر سوچتا ہے اور عموما اس کی سوچ کمانے تک ہی محدود ہوتی ہے۔
باصلاحیت افراد کو تذبذب سے نکالنے کے لئے بارش کا پہلا قطرہ بنیں۔انھیں
اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لئے اور ہنر کو چمکانے اور منوانے کے لئے
مواقع دیں ، سہولت دیں۔ سہولت نہیں دے سکتے تو تنقید سے ان کا رہا سہا
اعتماد مجروح ہونے سے بچائیں۔
سب کو ڈاکثر ،انجینئر،وکیل،جج۔۔۔ ہی نہیں بننا ہوتا۔ ہوں بھی با صلاحیت
افراد کے لئے کمائی اہمیت نہیں رکھتی۔
لہذا بچوں کو ان کی دلچسپی اور رحجان کے مطابق آگے بڑھنے کے مواقع
دیں،دوسرے بچوں سے ان کا موازنہ نہ کریں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ نشان منزل
کی طرف ان کی رہنمائی کر دیں ۔۔۔ منزل کے حصول کی جستجو ان کو کامیاب بنادے
گی۔ ان شاءاللہ
|