میرے لڑکپن کی انمول یادیں

میری زندگی کا دوسرا دور1964ء میں لاہور کینٹ آنے کے بعد شروع ہوا ۔جب میں نے لاہورشہر میں قدم رکھا تو میری عمر صرف دس سال تھی جبکہ میرے دونوں بڑے بھائیوں( محمد رمضان خان اور محمد اکرم خان) کی عمر یکے بعد دیگرے اٹھارہ اور بارہ سال تھی ،مجھ سے دو چھوٹے بھائی بھی تھے ، بھائی اشرف جنہیں سب "اچھا"کے نام سے پکارتے تھے ،اس کی عمر دو سال تھی جبکہ سب سے چھوٹے بھائی محمدارشد کی عمر چھ آٹھ ماہ ہی ہوگی ۔وہ ابھی میری والدہ کی آغوش میں ہی پرورش پا رہا تھا۔ واں رادھا رام میں قیام کے آخری ایام میں جب ہمارا خاندان بڑے بڑے تالابوں کے کنارے غیر آباد اور جنگل بیابا ن میں موجود ایک کوارٹرمیں قیام پذیر تھااور والد صاحب ٹرانسفر ہوکر لاہورکینٹ پہنچ گئے تھے، انہیں وہاں رہائش کے لیے ابھی کوئی کوارٹر نہیں ملا تھا ،اس لیے مجبورا ہمیں دو تین ہفتوں کے لیے غیر آباد جگہ پر رہنا پڑا۔ہمارے کوارٹر کے ساتھ ایک اور کوارٹر تھا جس میں گینگ مینوں کا سامان اور تارکول کے ڈرم رکھے ہوئے تھے ۔

ایک صبح جب تارکول کے ڈرم کو آگ پر رکھ کر گرم کیا جا رہا تھا تو اوپر سے بند ہونے کی وجہ سے ڈرم میں گیس بھر گئی ۔ سردیوں میں ابھی سورج طلوع ہی ہوا تھا کہ میرا چھوٹا بھائی اشرف تماشا دیکھنے کے لیے ،ساتھ والے کوارٹر میں جا پہنچا ۔ہم ابھی بستروں میں ہی تھے کہ ایک دھماکے کی آواز سنائی دی ،جسے سن کر گھر کے سبھی افراد باہر کی جانب بھاگے ۔یہ دیکھ کر تو ہمارے ہوش اڑ گئے کہ تارکول کا کچھ حصہ میرے بھائی اشرف کے نچلے جسم پر آگرا ہے۔آگ کی جلن نے میرے بھائی کوبے حال کردیا تھا، وہ تکلیف سے تڑپ رہا تھا ۔ والدہ سمیت ہم سب ،اشرف کی حالت دیکھ کر سخت پریشان تھے ،اب کیا کیا جائے کوئی راستہ سجھائی نہیں دے رہا تھا ۔مجھے تو اتنا یاد ہے کہ کسی گینگ مین نے اپنے گھر میں رکھی ہوئی برنال مرحم لاکر بھائی اشرف کے جلے ہوئے حصے پر لگائی ۔جس سے تکلیف میں کچھ کمی واقع ہوئی ۔دو تین دن بعد والد صاحب بھی ہمیں اپنے ساتھ لیجانے کے لیے پہنچ گئے ۔بھائی اشرف کا باقی ماندہ علاج لاہور کینٹ کے کسی نیم حکم ڈاکٹر سے ہوتا رہا ۔ کیونکہ 1964ء میں مین گلبرگ مارکیٹ میں ایک بنگالی ڈاکٹر تھا جو ایم بی بی ایس تھا ،یا صدر بازار میں ایک نلکے والا ڈاکٹر مشہور تھا جس کے کلینک کے باہر کمیٹی کا نلکا لگا ہوا تھا، اس مناسبت سے اس ڈاکٹر کا نام ہی نلکے والا ڈاکٹر مشہور ہو گیا ۔

میرے سب سے چھوٹے بھائی ارشد کو والدہ اپنی آغوش میں اٹھا کر لاہورکینٹ لائی ۔ابھی وہ چند دنوں کا ہی تھا کہ اس پر کسی جادو ٹونہ کردیا ،پرانے زمانے میں بے اولاد عورتیں اپنی گود ہری کرنے کے لیے دوسروں پر جادو ٹونہ کرنے میں بہت شہرت رکھتی تھیں ۔ ارشد کو والدین نے بہت دم درود کرایا لیکن کوئی افاقہ نہ ہوا۔جب لاہور کینٹ شفٹ ہوئے تو ایک اور پریشانی اس وقت آپہنچی جب والدہ نے چارپائی کے بازو پر جھولا نما کپڑا باندھ کر اس میں ارشد کو سونے کے لیے لیٹا دیا اور وہ خود اس کے نیچے زمین پر بیٹھ سلائی مشین پر کپڑے سینے لگیں اور ساتھ ساتھ ایک ہاتھ سے کپڑے کے بنے ہوئے جھولے کو ہلانے لگیں۔ اچانک اس جھولے کی ایک گرہ کھل گئی اور بھائی ارشد نیچے پڑی ہوئی سلائی مشین پرآ گرا اور سلائی مشین کا لیور اس کے سر میں پیوست ہو گیا جس سے خون بہنے لگا ۔والدہ بہت پریشان ہوئیں۔ ایک طرف اشرف آگ سے جھلسنے کی وجہ سے تکلیف میں تھا تو دوسری جانب ارشد بھی زخمی ہوگیا ۔بہت دنوں تک سر میں لگے ہوئے زخم میں حکیم کی دی ہوئی مرحم لگائی جاتی رہی۔تب کہیں جا کر اسے سکون ملا۔

والد صاحب نے ہماری تعلیم کی خاطر لاہور کینٹ میں ٹرانسفر تو کروا لی ۔لیکن لاہور میں کھانے پینے کے اخراجات ان کی تنخواہ میں پورے نہیں ہوپارہے تھے ۔والد صاحب نے سوچا کہ کیوں نہ ہم سب مل کر محنت مزدوری کریں جس سے آمدنی میں کچھ اضافہ ہو جائے ۔لاہور کینٹ میں ایک ٹھیکدار روزی خان رہتا تھا ،اس کے پاس چھانگا مانگا اور چیچہ وطنی کے جنگل سے لکڑیوں سے بھرے ہوئے ریل کے بند ڈبے اور چکڑے آتے تھے ،ان لکڑیوں کو روزی خان بیل گاڑیوں کے ذریعے لاہور کے تمام ہوٹلوں اور فیکٹریوں میں سپلائی کرتا تھا ۔اس وقت لکڑیوں سے بھرا ہوا ایک بند ڈبہ خالی کرنے پر تین روپے مزدوری ملتی تھی اور چکڑے سے لکڑیا ں اتارنے پر اڑھائی روپے ملتے تھے ۔والد صاحب ِصبح ہوتے ہی کوئی نہ کوئی لکڑیوں کا ڈبہ اپنے لیے مخصوص کر لیتے ۔ ابتدا ء میں دونوں بڑے بھائی لکڑیاں اتارنے کا کام شروع کرتے ۔ڈیوٹی ختم ہونے کے بعد والد صاحب بھی ان کاساتھ نبھانے کے لیے پہنچ جاتے ۔سکول سے واپسی پرمیں بھی پہنچ جاتا ۔ اس طرح پورا خاندان مل کر صبح سے شام تک بمشکل لکڑیوں کا ایک ڈبہ ہی خالی کرپاتے۔ تب کہیں جا کر ہمیں تین روپے مزدوری ملتی جو والد صاحب خوشی خوشی گھر لے آتے ۔

میں نے جب بھی اپنی والدہ کو دیکھا کہ پیوند لگے کپڑے ہی وہ زیب تن رکھتیں۔عید تہوار پر اگر کوئی نیا سوٹ بنا لیا جاتا توایک ہی دن پہننے کے بعد اتار کر محفوظ کرلیا جاتا کہ شادی بیاہ میں شرکت کے لیے عارف والا جائیں گے تب وہ نئے کپڑے پہن لیں ۔ہمارا روٹین بھی یہی تھا۔ایک مرتبہ میں عید کی نماز والد صاحب کے ساتھ مسجد میں پڑھنے گیا تو میرا نیا جوتا کسی ظالم نے اٹھا لیا ۔نہ صرف مجھے ننگے پاؤں گھر آنا پڑا بلکہ ننگے پاؤں پھرنا میری مجوری بن گئی ۔یہی وجہ ہے کہ میرے پاؤں عام لوگوں سے زیادہ بڑے ہیں اور مجھے جوتا خریدنے میں سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔

بہرکیف والدہ کی ہمیشہ یہ خواہش ہوتی کہ جو پیسے نئے کپڑے بنانے پر خرچ کیے جائیں، ان پیسوں سے میرے بچوں کے تعلیمی اخراجات پورے ہوسکتے ہیں ۔میرے بچے جب پڑھ لکھ کے بڑے افسر بن جائیں گے تو سارے دلدرختم ہوجائیں گے۔ہر سال جب ہم نئی کلاس میں پہنچتے تو ماں جی سے پیسے لیکرکتابیں اور کاپیاں خریدنے کے لیے لالہ بک ڈپودھرم پورہ لاہورچلے جاتے ۔اس زمانے میں ہم نے اردو بازار کا نام بھی نہیں سنا تھا ،شکل دیکھنا تو دور کی بات ہے ۔آدھے سے زائد لاہور کی تعلیمی ضرورتیں لالہ بک ڈپو ہی پوری کرتا تھا ۔ایک واقعہ کا ذکر یہاں کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ریلوے ٹرین میں بغیر ٹکٹ سفر کرنے والوں کو اکثر پکڑ لیا جاتا ہے اس کام کے لیے ٹرین میں تعینات سفید وردی والے ایس ٹی مامور کیے جاتے ہیں جبکہ ریلوے کی جانب سے ایک بڑا گروپ بھی تشکیل دیا جاتا جس میں سفید وردیوں والوں کے علاوہ پولیس والے بھی شامل ہوتے ۔ جیسے ہی کوئی ٹرین پلیٹ فارم پر رکتی تو گروپ کے تمام اہلکار مسافروں پر ایسے جھپٹ پڑتے جیسے تربوز کھانے والوں پر شہد کی مکھیاں حملہ کرتی ہیں ۔اسی طرح ایک شخص کو پولیس نے پکڑ لیا جو بغیر ٹکٹ ٹرین میں سفر کررہا تھا، اسے حوالات میں بند کردیا اور اس سے پوچھا کہ لاہور میں تمہیں کوئی جاننے والا ہے جو جرمانہ دے کر تمہیں چھڑوا لے ۔ اس نے میرے والد صاحب کا نام لے دیا ۔جب میرے والد صاحب کو اطلاع ملی تو انہوں نے میری والدہ سے کہا ۔واں رادھا رام کے گینگ مینوں کے جمعدار کا بیٹا بغیر ٹکٹ ٹرین میں سفر کرتا ہوا پکڑا گیا ہے اس کو آٹھ روپے جرمانہ ہوا ہے ،اس نے ہمیں پیغام بھجوا ہے کہ وہ جرمانہ ادا کرکے اسے چھڑا لیں گے ۔یہ سن کر والدہ سوچ میں پڑگئی ۔ پتہ نہیں والدہ کو آٹھ روپے جمع کرنے کے لیے کتنے مہینے لگے ہونگے ۔ جمعدار کا بیٹا تو رہاہو گیا لیکن والدہ کو آٹھ روپے جانے کا دکھ بہت عرصہ تک رہا ۔ کبھی کبھی لمبی سانس لے کر کہتیں ۔اس کمبخت کو ہمارا ہی نام یاد تھا ۔

قدرت بڑی بے نیاز ہے جس نے مجھے زندگی کی بیشمار نعمتوں سے نوازا ، گزرے ہوئے کل میں اپنے والدین کا نکما بیٹا تھا اور میری زندگی والدین اور بہن بھائیوں کے مابین ہی گزرتی تھی،وقت گزرتا رہا، حالات تبدیل ہوتے رہے ۔جب میٹرک کا امتحان پاس کرکے ڈھنگ سے کمانے لگا تو میرے لیے بھی رشتے کی تلاش شروع ہوگئی ۔محلے کی ماسیوں اور چچاؤں کے توسط سے کتنے ہی رشتے آئے اورکتنے ہی مستردہوئے ۔کسی کو میں پسند نہیں تھا اور کوئی ہمیں اچھا نہیں لگا لیکن رشتہ دیکھنے اور خود کو دکھانے کا سلسلہ دراز سے دراز ہوتا چلا گیا ۔میں ان دنوں لوکل گورنمنٹ کے ذیلی ادارے" تعلیم بالغاں "کو خیر با د کہہ کر تھوڑی سی زیادہ تنخواہ کے لیے فیملی پلاننگ ایسوسی ایشن میں بطور سٹینو گرافر ملازم ہو گیا جہاں میری تنخواہ 629 روپے پچاس پیسے مقرر ہوئی۔ساری تنخواہ تو میں والدہ کو دے دیتا اوورٹائم کے پیسے میں اپنی جیب میں رکھ لیتاتھا ۔کیونکہ اس وقت میرے پاس ایک پرانی سی سائیکل ہوا کرتی تھی جس پر سوار ہوکر میں ٹمپل روڈ اپنے دفتر پہنچتا اور واپسی بھی اسی پر ہوتی ۔میری والدہ کفایت شعار خاتون تھی ، اس وقت مہنگائی بھی نہ ہونے کے برابر تھی لیکن پیسے بھی بہت کم جیب میں ہوتے۔آٹھ آنے کلو بڑا گوشت مل جاتا تھا لیکن شاید ہی کبھی ایک پاؤ سے زیادہ گوشت ہمارے گھر پکا ہو۔جب کوئی مہمان آ جاتا تو گھرمیں پالی ہوئی مرغیوں اور مرغوں میں سے ایک آدھ قربان ہوجاتا ۔مہمان کے جانے کے بعد روٹین ایک بار پھر پرانی ڈگر پر لوٹ آتی۔اس وقت والد صاحب کی تنخواہ 80 روپے تھی ،کچھ محنت مزودری کرکے پیسے جمع کرلیتے اور گزربسر اچھا ہونے لگا۔سب سے بڑے بھائی محمد رمضان لودھی ریل کار شیڈ میں ملا زم ہوگئے ،جبکہ ان سے چھوٹے بھائی محمد اکرم لودھی یونیورسل آپٹیکل انڈسٹری گلبرگ ٹو میں ملازمت کرنے لگے ۔ان دونوں کی شادیاں میرے ننھیال عارف والا ہوچکی تھیں، اب گھر بسانے کی باری میری تھی ۔والدہ نے میری تنخواہ میں سے کچھ روپوں کی بچت کرکے کمیٹی ڈال لی ۔جس کی کل رقم شاید آٹھ دس ہزارہوگی ۔جب کمیٹی نکلی تو والدین کے دل میں یہ خواہش تلملانے لگی کہ ان کے گھر ایک اور نئی نویلی دولہن آنی چاہیئے ۔کہیں سے اڑتی اڑتی خبر والدین تک پہنچتی تو دونوں ( ماں اور باپ) تیار ہوکر اس گھر میں جا پہنچتے ۔

کسی نے والد صاحب کو بتایا کہ شاہدرہ ریلوے اسٹیشن کے اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹرکی بیٹی جوان ہے اور وہ رشتے کے لیے کسی اچھے اور برسرروزگار لڑکے کی تلاش میں ہیں۔والد صاحب چونکہ بطور کیبن مین ملازم تھے، اس لیے ان کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ اے ایس ایم کی بیٹی کو بہو بنا کر گھر لایا جائے تو اس طرح ہمارا سٹیٹس بھی اونچا ہوجائیگا ۔ چنانچہ دل میں یہ خواہش لیے والدین شاہدرہ جا پہنچے۔ وہاں انہوں نے کیا دیکھا اورکیا باتیں ہوئیں ۔مجھے اس کا علم نہیں تھا، صرف اتنا پتہ چلا کہ لڑکی موٹی ہے اور شکل و صورت بھی واجبی سی ہے اس کے والِد جہیز میں دودھ دینے والی بھینس اوربلیک اینڈ وائٹ ٹی وی بھی دینا چاہتے ہیں ۔کافی دنوں تک ہمارے گھر میں اسی حوالے سے بحث مباحثہ چلتا رہا ،والد صاحب کچھ کچھ رضامند تھے لیکن والدہ کی جانب سے صاف انکار تھا ۔میرے کانوں تک صرف یہ بات پہنچی کہ ماشا اﷲ میرا بیٹا پکی نوکری کرتا ہے، مہینے بعد اسے تنخواہ مل جاتی ہے ،صبح سویرے اچھے کپڑے پہن کر ماشا اﷲ دفتر جاتا ہے اور وہاں کرسی پر بیٹھ کرکام کرتا ہے۔ میں تو اس کے لیے ایسی بیوی لاؤں گی کہ دور دور سے عورتیں دیکھنے کے لیے آئیں گی ۔یہ بھی بتاتا چلوں کہ ہمارے گھر میں میرے ہوش سنبھالنے سے جوانی تک گڑ والی چائے ہی پکا کرتی تھی ۔جس کے ساتھ رات کی باسی روٹی کیک سمجھ کرناشتہ کرلیا کرتے تھے۔ بہت عرصے تک یہی ہمارا روٹین تھا ۔پھل کھانے کا تو تصور بھی نہیں تھا ،کبھی کبھار پسنجر گاڑی پر ایک بابا چھابڑی سر پر اٹھائے کوارٹروں میں آتا اور نیم کے بڑے سے درخت کے نیچے بیٹھ کر تازہ اور میٹھے امرود چار آنے کلو بیچا کرتا تھا ۔کبھی کبھاروالد صاحب کا دل کرتا تو وہ دو آنے کے امرود کٹوا کر اس پر نمک مرچیں ڈال کر کھانے لگتے تو ہمیں بھی امرود چکھنے کا موقع مل جاتا ۔بہرحال ابھی میں بھوری بھینس اور تازہ مکھن کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ والدہ نے یہ کہہ کر بات ختم کردی کہ لڑکی میرے بیٹے کے لیے مناسب نہیں ہے۔

اس کے علاوہ سال میں ایک مرتبہ میرے دادا خیردین خان (جو ملتان میں رہائش پذیر تھے )آموں کا ایک کریٹ اور چند کلو کھجوریں بھجوا دیتے تھے ، جب دادا کا بھیجا ہوا پھل گھر آتا تو ہماری بھی عید ہوجاتی ۔ایک مرتبہ دادا جان نے موٹے موٹے اور میٹھے آموں کا بھرا ہوا ٹوکرا بھجوایا ۔ والدہ نے حصے لگا کر سب کو بانٹ دیئے ۔ ابھی کچھ آم ٹوکرے میں باقی رہ گئے تھے و ہ کسی اور دن کھانے کے لیے محفوظ کر لیے گئے ۔میں نے اپنے حصے کا ملا ہوا جب آم کھایا تو بہت ہی مزا آیا ،میں نے سوچا کہ اس کے بعد ایک سال پھر ہمیں آموں کے لیے انتظار کرنا پڑے گا ۔چنانچہ والدہ کی آنکھ بچا کر میں نے ایک اور آم ٹوکرے سے نکا ل لیا اور گھر والوں سے چھپ کر وہ آم کھالیا ۔حیرت تو اس بات کی ہے کہ شام ہوتے ہی پیٹ میں مرورڑ اٹھنے لگے ۔پہلے تو میں برداشت کرتا رہا لیکن جب بات حد سے بڑھ گئی تو بیت الخلا جانا پڑا۔ مجھے تو خونی پیچش شروع ہو گئے ہیں ۔والدہ کو بتایا تو وہ بھی پریشان ہوگئیں ، انہوں نے میری بیماری کی خبر میرے والد صاحب کو دی تو انہوں نے بھی تشویش کا اظہار ۔ وہ مجھے اپنے ساتھ لے کر ڈاکٹر کی تلاش میں نکلے۔ شیرپاؤ پل کی دوسری جانب گنگا آئس فیکٹری بازار میں ایک ہیومیوپیتھک ڈاکٹر مل گیا والد صاحب نے جب اس ڈاکٹر کو میری بیماری کے بارے میں بتایا تو انہوں نے مجھ سے مخاطب ہوکر پوچھا بیٹا میں دوائی تب دوں گا اگر تم مجھے سچ سچ بتا دو گے کہ تم نے کیا کھایا ہے؟ڈاکٹر اکیلے ہوتے تو میں ان کے کان میں بتا دیتا لیکن والد صاحب کے سامنے بتانے سے ہچکچا رہا تھا ، میری اس حرکت پر والد صاحب کو غصہ آگیا انہوں نے گھورتے ہوئے حکم دیا۔ بتا ؤ تم نے کیا کھایا تھا ، میں اپنی تکلیف بھول گیا اور پریشانی یہ لاحق ہوئی کہ والد صاحب بڑی سخت طبیعت کے مالک ہیں، کہیں وہاں ہی مجھے پھینٹی لگانا شروع نہ کردیں ۔میں کب تک خاموش رہتا، بالاخر مجھے بتانا ہی پڑا کہ میں نے دادا کے بھیجے ہوئے آموں میں سے ایک آم چوری کرکے کھایا تھا ۔میری یہ بات سن کر والد صاحب کو بہت غصہ آیالیکن ڈاکٹر صفدر نے انہیں سمجھایا کہ بچپن میں بچے ایسی حرکتیں کرلیتے ہیں ۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ میں کڑوی دوائی کھانے کو تیار نہ تھا ، بہرکیف انہوں نے مجھے میٹھی دوائی دی جسے میں نے دو تین بار استعمال کیا اور اﷲ نے مجھے شفا دے دی ۔لڑکپن کی یادیں تو بیشمار ہیں ۔اس مضمون کو پہلی قسط کے طور پر پڑھا جاسکتا ہے۔زندگی رہی تو دوسری قسط پھر کسی وقت آسکتی ہے۔

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 781 Articles with 659960 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.