چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کو عہد حاضر میں عالمی
رابطہ سازی کا ایک کرشمہ قرار دینا ہرگز بے جا نہ ہو گا۔ چین کی جانب سے
2013 میں یہ انیشیٹو پیش کیا گیا تھا جسے مختصراً بی آر آئی بھی کہتے
ہیں۔وسیع تناظر میں اس اقدام کا مقصد مشترکہ ترقی اور خوشحالی کے لیے قدیم
شاہراہ ریشم کے تجارتی راستوں کو ایشیا ، یورپ اور دنیا کے دیگر خطوں کے
ساتھ جوڑنا ہے۔یہی وجہ ہے کہ حالیہ برسوں میں پاکستان سمیت بیلٹ اینڈ روڈ
سے وابستہ دیگر ممالک میں تجارتی اور بنیادی ڈھانچے کے نیٹ ورکس کی تعمیر
کو نمایاں فروغ ملا ہے۔ اس اقدام کے تحت پچھلے نو سالوں میں تجارت اور
سرمایہ کاری میں بھی خاطر خواہ پیش رفت ہوئی ہے۔بی آر آئی تعاون کو مزید
فروغ دینے کی خاطر چین کے تاریخی شہر شی آن میں ابھی حال ہی میں چھٹی سلک
روڈ بین الاقوامی ایکسپو کا انعقاد بھی کیا گیا جس نے غیر ملکی کاروباری
اداروں کو چین کی وسیع مارکیٹ سے استفادہ کرنے کے لیے ایک موقع فراہم کیا
ہے۔بیلٹ اینڈ روڈ قریبی تعاون پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ایکسپو نے 70 سے
زیادہ ممالک اور خطوں کے شرکاء کو اپنی جانب متوجہ کیا جبکہ ازبکستان نے
خصوصی مہمان ملک کے طور پر شرکت کی۔
یہ امر قابل زکر ہے کہ 2013 سے 2021 تک، چین اور بیلٹ اینڈ روڈ ممالک کے
درمیان اشیاء کی تجارت کا کل حجم تقریباً 11 ٹریلین امریکی ڈالر رہا ہے، جب
کہ دو طرفہ سرمایہ کاری 230 بلین ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔ 2021 کے اواخر
تک، چین نے بیلٹ اینڈ روڈ سے وابستہ 24 ممالک میں اقتصادی اور تجارتی تعاون
کے لیے 79 زونز قائم کیے ہیں، 43 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے جس سے03
لاکھ 46 ہزار مقامی روزگار کے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔موجودہ پیش رفت کا جائزہ
لیا جائے تو جولائی 2022 تک، چین 149 ممالک اور 32 بین الاقوامی تنظیموں کے
ساتھ 200 سے زیادہ بی آر آئی تعاون کے معاہدوں پر دستخط کر چکا ہے، جس سے
پتہ چلتا ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ اپنی افادیت کے پیش نظر دنیا کی دلچسپی
اس منصوبے میں مزید بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
اس بات کا زکر بھی لازم ہے کہ چین کی جانب سے وقت کے بدلتے تقاضوں کے عین
مطابق بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو میں لازمی تبدیلیاں متعارف کروائی جا رہی ہیں
تاکہ پائیدار ترقی کا تصور حقیقی معنوں میں ابھر سکے۔اس ضمن میں چین کے
قومی ترقیاتی اور اصلاحاتی کمیشن اور تین متعلقہ محکموں نے مارچ میں ایک
گائیڈ لائن جاری کی جس میں کہا گیا کہ چین بیلٹ اینڈ روڈ کی سبز ترقی کو
فروغ دے گا اور اس سلسلے میں بین الاقوامی تعاون کو مضبوط کرے گا۔اسی تصور
کو شی آن میں منعقدہ مذکورہ ایکسپو میں بھی اجاگر کیا گیا جس میں مختلف
اقسام کی سبز اور ذہین مصنوعات کی نمائش کی گئی، جن میں الیکٹرک گاڑیوں کو
چارج کرنے کی سہولیات سے لے کر گشت کرنے والے روبوٹس تک شامل رہے۔ایک ایسے
وقت میں جب چین سبز ترقی کے لیے اپنی کوششوں میں مزید تیزی لا رہا ہے،
زیادہ سے زیادہ غیر ملکی سرمایہ کار بھی چین کے ماحول دوست اقدامات کو یہاں
اپنے کاروبار کے لیے مواقع کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔نیو انرجی کے حوالے سے
کام کرنے والی بین الاقوامی کمپنیاں روایتی صنعتوں سے وابستہ چینی شراکت
داروں کو صاف توانائی اور کم کاربن حل فراہم کرنے کی خواہاں ہیں۔
اگرچہ ماہرین کے نزدیک عالمی معیشت رواں سال اور اگلے سال بھی غیر یقینی
عوامل اور دباو کے زیر اثر رہے گی ، مگر چین اپنی مضبوط معاشی لچک کے سبب
اب بھی ملٹی نیشنل اور بین الاقوامی کمپنیوں کے لیے ترقی کا ایک بڑا محرک
ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ کمپنیاں مواقع کی تلاش میں بی آر آئی سے
فائدہ اٹھانے کے لیےپر امید ہیں۔بیلٹ اینڈ روڈ تعاون کے واضح اعداد و شمار
اس منصوبے کی اہمیت کو بخوبی اجاگر کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ یہ تعاون محض
لفاظی یا بیانات تک محدود نہیں ہے بلکہ دنیا کے لیے ٹھوس ثمرات کا منہ
بولتا ثبوت ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو نہ صرف چین بلکہ ایسے تمام ترقی پذیر
ممالک کے لیے ایک حقیقی گیم چینجر ہے جو تیز رفتار ترقی کو آگے بڑھانے اور
اپنی صنعت کاری، شہر کاری اور جدت کاری کی مہم کو تیز کرنے کے لیے بے تابی
سے منتظر ہیں۔
|