آزادی کا امرت مہوتسو،اور ہر گھر ترنگا جیسے عزائم کے
ساتھ اِس سا ل یوم آزادی منانے کا سرکاری حکم نامہ عوام کے ساتھ ہی ہر شعبے
میں موصول ہوا۔ ہم سب اِس سے واقف ہیں کہ کس طرح ہندوستان انگریزوں کے ظلم
و ستم، جابرانہ پالیسیوں اور غلامی کی زنجیروں سے ۱۵؍اگست ۱۹۴۷ کو آزاد ہوا۔
آزادی کے متوالوں نے بلند حوصلوں کے ساتھ کیسی کیسی قربانیاں پیش کیں۔
مجاہدینِ آزادی کی سخت جدوجہد کے بعد ہمیں آزادی جیسی نعمتِ عظمیٰ حاصل
ہوئی لیکن یاد رہے کہ جشن یوم آزادی محض ایک رسم کا نام نہیں ہے بلکہ آزادی
کے بعد سے اب تک ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا، اپنی قومی پیش رفت، ترقی و
بہبود کی رفتار، آزادی کے ممکنہ ثمرات اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور ملک کی
سالمیت کی بقاء کے سلسلے میں اپنی کاوشوں کے محاسبہ کا نام ہے۔اسی آزاد
ہندوستان میں آج عالمی سطح پر ہندوستان کی بنیادی پہچان جس جمہوریت اور
سیکولرازم کی وجہ سے ہے وہ دن بدن کھوکھلی ثابت ہورہی ہے، موجودہ حکومت
اپنے خاص نظریے کے پیش نظر آئے دن جس طرح کے اقدامات اپنارہی ہے اسے دیکھ
کر ہندوستانی مسلمانوں میں اس بات کا خوف یقین میں تبدیل ہونے لگا ہے کہ اب
ہمارا ملک ہندوستان ہندو راشٹر کی راہ پر رواں ہیں۔ آزاد ہند وستان میں
حکومتی طبقہ سے لیکر قومی میڈیا تک کے لوگ نفرت کو ہوا دے رہے ہیں۔یہی وجہ
ہے کہ مودی حکومت کا ہر آنے والا دن مسلمانوں کے لئے ظلم و ستم کا ایک نیا
باب کھول رہا ہے۔موجودہ حکومت دستور و قانون کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف
سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے سب کچھ کر رہی ہے۔حکومت کے خلاف اٹھنے والی
ہر آواز کے خلاف ای ڈی کے ذریعے انتقامی سیاست کا کھیل کھیلنا معمول سا بن
چکا ہے۔ بہر کیف، اس ملک کو ہندو راشٹر بنانے کی کوششیں بھی تیز تر کر دی
گئی ہیں۔اپنے چہرے پہ خوشیوں کا مکھوٹا سجائے جس ملک میں آج جمہوریت کی
دھجیاں اْڑائی جارہی ہیں جہاں من کے مطابق زندگی بسر کرنا دشوار ہوگیا ہے۔
کھانے پینے سے لیکر پہناؤے، بول چال، گھومنا پھرنا،یہاں تک کہ زندہ رہنے سے
لیکر عبادات میں بھی مداخلت کرتے ہوئے بے مطلب کے قوانین عائد کر بندشیں
لگادی گئی ہوں،ایسے ماحول میں یوم آزادی اور جمہوریت کے نام پہ خوشیاں
مناکر خود کو دھوکے کے سوائے کچھ نہیں دیا جاسکتا۔جی ہاں! یہ وہی ہندوستان
ہے جہاں اصل وطن پرستوں کی قربانیوں کو بھلاکر مفاد پرستوں کی قدم بوسی کی
جاتی ہے۔جو ہمارے ملک کیلئے بہت شرمناک بات ہے۔جمہوری شان و شوکت کو بالائے
طاق رکھ کر انسانی رشتوں سے کنارا کش ہو کر، انسانی جذبات سے منہ پھیر کر
مسلمانوں کو حراساں کرنے کی متواتر کوششیں جاری ہیں اور ہم تشدد اور تعصب
کا نشانہ بنتے جا رہے ہیں ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت مخصوص عوام کو ایک
بنا سوچ والی بھیڑ میں بدل دیا گیا ہے۔ اب ایک ایسی بھیڑ ملک کے ہر قصبے،
گاؤں میں تیار گھوم رہی ہے، جو ذرا سی افواہ میں بغیر سوچے سمجھے کسی کو
بھی پیٹ پیٹ کر مار ڈالتی ہے۔شر پسند عناصر کی اس مجرمانہ فعل کی پشت پناہی
حکومت کررہی ہے جو اسوقت خاص قسم کی ذہنیت کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے اور جن
کی گھٹی میں مسلم منافرت کا زہر بہت پہلے سے گھول دیا گیا ہے۔ ان تمام کے
خلاف آواز بلند کرنے والے کی ماب لنچنگ بھی کی جاتی ہے اور بے رحمی سے قتل
بھی کردیا جاتا ہے۔ اس لئے کہ جو سوال اٹھائے،احتجاج کرے اس کو ہی دہشت گرد
ٹھہرا دو۔ آج معمولی سیاسی اور سماجی شعور کا حامل انسان بھی حالات کی اس
سنگینی سے واقف ہے۔ہندوستان میں اقلیتوں کے لئے ہر یوم ، یومِ عذابی بنا
ہوا ہے۔ ایک وقت تھا جب سماج کے کمزور طبقوں کی آواز اٹھانا ملک کے تئیں
فکرمند ہر بیدار شہری کا فرض مانا جاتا تھا۔اور آج سماج کے کمزور طبقوں کے
لئے آواز اٹھانے والے جانے مانے دانشور، ادیب، قلمکار اور سماجی کارکنان کو
دہشت گرد بتاکر ان پر ملک کی امیج دھندلی کرنے کی تہمت لگائی جا رہی
ہے۔تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بے جا گرفتاریاں ہنوز جاری ہے۔کسی بھی مسلمان
کو سر راہ پکڑ کر جئے شری رام کہنے پر مجبو ر کیا جاتا ہے۔مذہب کے نام پر
منافرت، فرقہ وارانہ تشدد، عام ہے۔ اقلیتی طبقے کو ہر لحاظ سے تکلیف
پہنچائی جا رہی ہے۔ مسلمانوں کی حب الوطنی کو مشکوک نگاہوں سے دیکھا جا رہا
ہے۔ خوف و ہراس کے ماحول میں بے قصوروں کی جانوں کا اتلاف ہورہا ہے۔ ان
ساری باتوں کو ذہن میں رکھ کر سوچیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ حالات
کے پیش نظر یہ کہنا غلط نہ ہوگاکہ ہندوستان آج بھی آزادی کا منتظر ہے۔آزادی
میں اتنی قربانیاں دینے کے باوجود آج ہم سے محب وطن کی شہادت مانگی جا رہی
ہے، ہمیں دوسرے درجے کا شہری گردانا جا رہا ہے، اس لئے ہمیں سمجھ میں نہیں
آرہا ہے کہ ہم یوم آزادی کے موقع پرجشن منائیں یا ماتم کریں! |