نہیں راز کوئی راز(مجموعہ کلام)۔۔صدیق راز

نہیں راز کوئی راز(مجموعہ کلام)۔۔صدیق راز
٭
مبصر: ڈاکٹر رئیس احمدصمدانی
صدیق راز کراچی کی ادبی محفلوں کی جانی پہچانی شخصیت ہیں۔مجھ سے تعلق کی بنیاد بھی ادبی تقریبات ہیں۔ گزشتہ دنوں حلقہ احباب ِ ذوق گلشن ِ معمار کی ایک ادبی نشست میں صدیق راز صاحب نے اپنا شعری مجموعہ ”نہیں راز کوئی راز“ عنایت فرمایا۔ سرِ ورق دیدہ زیب، سرِ ورق کتاب،قلم،نوٹ بک کی خوش نما تصویروں سے آراستہ۔ پسِ ورق پر صدیق راز صاحب کی دیدہ زیب تصویر، مختصر تعارف اور راز صاحب کا ایک عمدہ شعر۔
نہیں ہے راز کوئی راز دل میں
سبھی کچھ تو بتائے جارہا ہوں
راز صاحب کی شاعری پر کچھ لکھنے سے قبل ا ن کا مختصر تعارف جو پسِ ورق پر بھی ہے۔ راز صاحب کی آبائی نسبت بھارت کا معروف شہر جے پور، راجستھان ہے۔ میری نسبت بھی ہندوستان کی صوبہ راجستھان سے ہے، ان کا شہر جے پور میرے آباؤ اجداد کا مسکن ’بیکانیر‘ تھااس طرح ہم دونوں راجپوت ہوئے۔ انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹر، میں نے بھی جامعہ کراچی سے پہلے سیاسیات میں ماسٹر کیا، بعد میں سوشل سائنسز میں پی ایچ ڈی کی۔راز صاحب ایل ایل ایم کی ڈگری سے آراستہ ہونے کے ناتے اب عملی طور پر قانون کے پیشہ سے وابستہ ہیں۔ ریٹائر منٹ سے قبل وہ ان لینڈ ریوینیوآفیسر انکم ٹیکس تھے۔ ادبی ذوق کے مالک ہیں ’نہیں راز کوئی راز ان کا پہلا مجموعہ کلام ہے اس سے قبل بنیادی انسانی حقوق پر انگزیری میں ایک مقالہ بھی تخلیق کر چکے ہیں۔ پیس نظر مجموعہ کو شائع ہوئے چار سال ہوچکے ہیں، مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ چند ماہ بعد ہی مجموعہ کی اشاعت دوم منظر عام پرآئی جو کتاب کی مقبولیت کی دلیل ہے۔
سرِ آغاز ”قلب غنچے کا، آنکھ شبنم کی“ کے عنوان سے کتاب کے ناشر جناب شبیر احمد انصاری نے تحریر کیا ہے۔ بقول انصاری صاحب ”صدیق راز کی شخصیت اور شاعری بھی سادہ ٹھندے پانی کی طرح سادہ و تسکین آمیز اور فرحت بخش ہے“۔دیباچہ ”ذات/شخصیت ایک کھلی کتاب“ کے عنوان سے مسلم شمیم (ایڈوکیٹ) نے تحریر کیا ہے۔ ان کی رائے ہے کہ ”شاعری کے عمومی تقاضوں کی پاسداری مجموعے کے ہر حصے میں کی گئی ہے۔ صدیق راز کی شخصیت کی عکاسی ان کے خلوص اور دیانت فکر و نظر سے عبارت ہے۔ ان کی شاعری میں سچائی اور سادگی حاوی عنصر کے طور پر نظر آتی ہے مجموعہ مختلف زاویہ ہائے نظر سے قدرو منزلت کا حامل ہے“۔ تقریظ اول پروفیسر فرزانہ خان نے تحریر کی ہے ان کی رائے ہے کہ ”صدیق راز صاحب کا یہ شعری مجموعہ شاعری کے نہ صرف عمومی تقاضوں کو پورا کرتا ہے بلکہ اس میں شاعری کے تمام معیارات کو بھی ملحوظ خاطر رکھا گیاہے“۔ تقریظ دوم معروف قلم کار نجیب عمر کی تحریر ہے۔ انہوں نے شاعری کی اہمیت کے حوالہ سے افسانہ نگار اشفاق احمد کا قول نقل کیا ہے کہ ”بعض اوقات پانچ سو صفحات پر متمل ایک ناول آپ پر وہ تاثر قائم نہیں کرتا جو ایک سچا شعر کر جاتا ہے“۔ اشفاق احمد کی رائے بالکل درست ہے بعض بعض اشعار ایسے بھی ہیں جن کاصرف ا یک مصرع ایسے معنی اور تاثر کے اعتبار سے اتنا معروف اور عام ہوا کہ اس کی جگہ کوئی نہ لے سکا جیسے معروف شاعر داغ دہلوی کے ایک شعر کا مصرع ثانی ”اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ“۔ بعض احباب کی تحقیق یہ ہے کہ اس شعر کا مصرع ثانی غلط مشہور ہوگیا جواصل میں کچھ اس طرح ہے ”اللہ کرے ’حسنِ رقم اور زیادہ“ لیکن عوام و خواص اس شعر کے مصرع ثانی کو’اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ‘ہی پڑھتے اور لکھتے ہیں۔ مکمل شعر دیکھئے۔
خط ان کا بہت خوب، عبارت بہت اچھی
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
نجیب عمر کی رائے میں بات داغ دہلوی کے شعر پر پہنچ گئی۔ نجیب عمر کی رائے میں ”محبت کی تڑپ ان کی غزلوں میں جگہ جگہ پائی جاتی ہے اور وہ اسے مقصد ِ حیات جانتے ہیں ”۔اپنی بات کی سچائی میں یہ اشعار پیش کیے۔
وہ جاچکا ہے پر میرے دل کو یقین ہے
اِک دن پلٹ کے آئے گا پھر جائے گا نہیں
اس کی جدائی سے ہوا بے چین میں ضرور
لیکن سکون وہ بھی کہیں پائے گا نہیں
راز صاحب نے شاعری کی تمام معروف اصناف میں اپنے ذہن و فکر کی جودت دکھائی ہے۔ عمدہ شعر کہے، اچھی غزلیں، منظومات، مناقب، مزاحیہ کلام بھی ان کی بیاض میں شامل ہے۔ حمد ِباری تعالیٰ کے حوالے سے ایک شعر جس میں شاعر موصوف نے اپنے تخلص کے ساتھ راز کا خوبصورت استعمال کیاہے۔
راز کے سب راز رکھنا روز محشر اے خدا!
اپنی بخشش کے لیے کرتا ہوں تجھ سے التجا
عشقِ مصطفی کا اظہار کس خوبصورت انداز سے کیا ہے۔
امام انبیاہے جو، میرا وہ رسول ہے
عشق مصطفی نہ ہوتو زندگی فضول ہے
راز صاحب کی چند مناقب بھی شامل مجموعہ ہیں۔ چاروں خلفائے راشدین حضرت ابو بکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کے شان اقدس میں مناقب، شہداکربلاحضرت امام حسین ؓ کی شان میں منظوم خراج عقیدت۔
پیارے نبیﷺ کی آنکھ کا تارا حسین ؓ ہے
گلزار دین کو جس نے نکھارا حسین ؓ ہے
غزلیات اور منظومات میں جو دلکشی اور حسن ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔چند اشعار
اُن سے ملنے کے لیے خود میں چلاجاؤں گا
میرے دُشمن جو میرے قد کے برابر ہوں گے
وہ تو عادی ہیں ہمیشہ ہی جفا کرتے ہیں
اور ہم ہیں کہ مسلسل ہی وفا کرتے ہیں
ایک خوبصورت شعر۔
ہوتے جہاں میں خون کے رشتے جو معتبر
یوسف کے بھائی کرتے نہیں ان کو در بدر
منظومات بھی مجموعہ کا حصہ ہیں بعض موضوعات اور بعض شخصیات کو اپنی شعری سوچ میں اچھے انداز سے بیان کیا ہے۔ ماہر القادری، اظفر رضوی، ڈاکٹر عافیہ صدیقی،علامہ اقبال،ایک نظم’ماں‘پر بھی ہے، کشمیر، غزہ، آرمی پبلک اسکول پشاور، یوم مئی اور دیگر موضوعات پر عمدہ نظمیں کہیں ہیں۔ شاعر مشرق علامہ اقبال پر ایک قطعہ میں سچ بیان کیا ہے۔
دیا تھا درس تونے ایک ہوں مسلم زمانے میں
مگر ہم کہ لگے ہیں اور بھی مسلک بنانے میں
خودی نہ بیچنے کا جو سبق تونے دیا ہم کو
اسی کو بیچ کر ، ہم ہیں لگے ڈالر کمانے میں
زعفرانی کلام میں ہلکا پھلکا مزاح ہے۔ دیکھئے ایک شعر
راز یہ کھلتا ہے جب سرکاری دفتر میں ہوکام
چائے پینا اور ہے یہ ”چائے پانی“ اور ہے
صدیق رازسیدھے سادھے انسان ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں بھی سادگی ہے، تصنح اور بناوٹ سے پاک ہے۔ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں آسان الفاظ میں کہہ دیتے ہیں۔ شاعری کے جملہ رموز سے آگاہ اور انہیں استعمال کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ ان کی سادگی پر علامہ اقبال کے اس شعر پر اپنی بات ختم کرتا ہوں۔
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
(18اگست 2022ء)



Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1278607 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More