کانگریس کے رہنما ادھیر رنجن چودھری اپنے تنازعات کے لیے
مشہور ہیں ۔ صدر مملکت کو دھرم پتنی کہنے کے بعد یوم عاشورہ کے دن انہوں نے
نئے سال کی مبارکباد پیش کردی ۔ ادھیر رنجن نے سوچا ہوگا چونکہ چھٹی ہے اس
لیے یہ سال کا پہلادن ہوگا ۔ انہیں یہ معلوم ہی نہیں کہ محرم کی دسویں
تاریخ یعنی یومِ عاشورہ امامِ حسین ؓ کی شہادت سے منسوب ہے اس لیے اس موقع
پر مبارکباد نہیں دی جاتی۔ ہندوستان میں رہنے والی غیر مسلمین کی کثیر
تعداد مسلمانوں کے مختلف تہواروں سے متعلق معلومات سے نابلد ہے۔ انہیں اس
کا علم ہی نہیں ہے کہ عیدالفطر کیوں منائی جاتی ہے؟ اور عیدلاضحیٰ کی
تاریخی تناظر کیا ہے ؟ اس لیے ایک کو میٹھی یعنی شیرخورمہ کی عید اور دوسری
کو بکری عید (یعنی بکرے کی قربانی والی عید) کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ یہ
لاعلمی یکطرفہ نہیں ہے۔ مسلمان بھی ہندووں کے تہوار سے متعلق بہت کم جانتے
ہیں۔ یہاں ایک مشکل یہ بھی ہے ان کے بے شمار تہوارہیں۔ ان میں سے بیشتر
علاقائی سطح پر منائے جاتے ہیں اور شاید ہی کوئی ایسا تہوار ہو جو سارے ملک
میں یکساں طور پر منایا جاتا ہو۔ اس کے باوجود اپنے علاقہ میں منائے جانے
والے دیگر مذاہب کے تہواروں کا اگر علم ہو تو ادھیر رنجن جیسی خواری سے بچا
جاسکتا ہے۔
یہ حسن اتفاق ہے کہ ہندو سماج بھی قمری مہینوں کی بنیاد پر اپنے تہواروں کا
تعین کرتاہے لیکن مشرکین مکہ کی مانند تین سال میں ایک مہینہ بڑھا کر وہ
اپنے آپ کو شمسی سال کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے
کہ ان کے تہوار آگے پیچھے تو ہوتے ہیں مگر موسم نہیں بدلتا۔ رکشا بندھن کا
تہوار ساون(شراون) مہینے کی پورنیما یعنی پورے چاند کے بعد والے دن ہوتاہے۔
اس دن شمالی اور مغربی ہندوستان میں عام طور پر بہنیں اپنے بھائی کے ہاتھ
میں راکھی باندھتی ہیں اور انہیں طویل عمر کے ساتھ خوشحال زندگی کی دعا
دیتی ہیں ۔ اس کے جواب میں بھائی ساری زندگی ان کے تحفظ کا عہد کرتے ہیں۔
اس کے ساتھ تحفہ تحائف ،کھانا پینا اور ملنا جلنا تو ہر تہوار کے موقع پر
ہوجاتا ہے۔ مذہبی اعتبار سے یہ مشہور ہے کہ ایک مرتبہ سدرشن چکر سے کرشن کی
انگلی کٹ گئی تو دروپدی نے ایک کپڑے سے پٹی ّ باندھ دی ۔اس رحمدلی سے متاثر
ہوکرکرشن سارے مصائب سے دروپدی کےتحفظ کا عہدکردیا ۔ کورووں نے دربار میں
جب دروپدی کو بے لباس کرنے کا ارداہ کیا تو کرشن نے اپنا وعدہ نبھایا
اورعزت و ناموس کی حفاظت کی۔
ہندوستان کی غیر مصدقہ تاریخ میں اس حوالے ایک اور واقعہ بہت مشہور ہے۔
مغلوں اور راجپوتوں کی دشمنی کون نہیں جانتا ۔ پدماوت نامی فلم کے بعد وہ
زبان زدِ عام ہوگئی ہے۔ رانا سانگا سے بابر کی جنگ اور اکبر کے ساتھ رانا
پرتاپ کی لڑائی سے سبھی واقف ہیں لیکن تاریخ میں یہ بھی درج ہے کہ بابر کے
بیٹے اور اکبر کے والد ہمایوں کو رانا سانگا کی زوجہ کرناوتی نے راکھی بھیج
کر مدد طلب کی تھی ۔ یہ اس وقت کی بات ہے چتوڑ پر گجرات کے سلطان بہاد شاہ
نے حملہ کردیا تھا۔ ہمایوں اس وقت بنگال کے محاذ پر تھا لیکن کرناوتی کی
مدد کے لیے وہ اپنی مہم کو معطل کرکے چتوڑ کی جانب چل پڑا۔ویسے ہمایوں کی
آمد سے قبل راجپوت جنگ ہار چکے تھے اور رانی کرنا وتی رسم جوہر میں خود کو
ہلاک کرچکی تھیں۔ فی زمانہ بھی اسی نہج پر یہ تہوار سگے بھائی بہنوں تک
محدود نہیں ہے۔ ملی جلی بستیوں میں بلا تفریق مذہب و ملت ہندو خواتین دیگر
اقرباء،احباب اور ہمسایوں کو بھی راکھی باندھتی ہیں۔ اب تو بھائیوں کو بھی
بہنوں نے راکھی باندھنا شروع کردیا ہے یعنی بلا تفریقِ جنس جو لوگ ایک
دوسرے کاخیال رکھتے ہیں وہ آپس میں راکھی باندھنے لگے ہیں ۔
یہ معاملہ چونکہ چاند پر منحصر ہے اس لیے دن کے تعین میں اختلاف ہونا ایک
فطری امر ہے ۔ یہی وجہ ہے اس سال رکشا بندھن کا تہوار ایک دن کے بجائے 11
اور 12؍اگست کو منایا گیا ۔ عیدالفطر کا چاند اگر ملک کے مختلف حصوں میں
الگ الگ دن ہوجائے تو ملت کے اندر ایک خلفشار کی سی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے
بلکہ عالمی سطح پر ایک ہی دن تہوار منانے پر اصرار کرنے والے کچھ لوگ لمبی
چوڑی بحثیں کرتے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی دلیل یہ ہوتی ہے کہ ایک ملک یا پوری
دنیا میں الگ الگ دن تہوار کے منائے جانے سے جگ ہنسائی ہوتی ہے حالانکہ
ہندووں کو اس کا خیال تک نہیں آتا ۔ ان کے یہاں تو دن کے علاوہ مہورت کا
وقت بھی مختلف ہوتا ہے اور یہ فطری ہے۔ اتر پردیش کی مثال لیں جہاں یوگی
بابا کی سرکار ہے اور 12؍اگست کو رکشا بندھن کی چھٹی ہے لیکن اتراکھنڈ میں
جو چند سالوں تک اترپردیش کا حصہ تھا 11؍ اگست کو یہ تہوار منایا گیا ۔ اس
کا مطلب ہے یوگی جی اگراپنے گاوں میں راکھی بندھوائیں تو پہلے دن اور مٹھ
یا دفتر میں دوسرے دن یہ رسم ادا کریں گے ۔ اس فطری فرق سے انہیں کوئی
ندامت نہیں ہوتی تو ہمیں کیوں ؟
اتر پردیش سے ملحق راجستھان اور مدھیہ پردیش میں بھی رکشا بندھن ایک دن قبل
منایا گیانیز ان ریاستوں سے سٹے ہوئے گجرات اور ہماچل پردیش میں بھی یہ
تہوار11 ؍اگست کو منایا گیا ۔ سچ تو یہ ہے یوپی کے ساتھ صرف بہار میں اس
باررکشا بندھن کا تہوار 12؍ کومنایا گیا جبکہ اس سے آگے بنگال اور آسام
میں یہ تہوار ایک دن پہلے ہوا لیکن اس سے کسی کو کوئی مسئلہ نہیں ہوااور
کسی نے اس کا مذاق نہیں بنایا۔ چند سال قبل دسہرہ پر اسی طرح کا اختلاف
سامنے آیا تھا ۔ وزیر اعظم مودی نے پہلے دن دہلی کے رام لیلا میدان میں
راون کا پتلا پھونکا اور اگلے دن ممبئی میں آکریہ عمل دوہرایا ۔ دونوں دن
یہ سب دھوم دھام سے ٹیلی ویژن پر دکھایا گیا اور کسی نے اس پر حیرت کا
اظہار نہیں کیا۔ مسیحی اپنا سب سے اہم تہوار کرسمس بھی مختلف تاریخوں میں
مناتے ہیں۔ مغربی ممالک اور مشرق کے کچھ چرچ 25جنوری کو یہ تہوار مناتے ہیں
لیکن آرمینہ کے چرچ 6 جنوری کو کرسمس کا اہتمام کرتے ہیں۔ اورینٹل
آرتھوڈوکس چرچ کے پیروکار 7؍ جنوری کو یہ تہوار مناتے ہیں جبکہ یروشلم کا
آرمینائی پیٹری چاٹ ٹرسٹ 19؍ جنوری کو کرسمس مناتا ہے۔ اس اختلاف پرنہ
کوئی اعتراض کرتا ہے اور وہ کسی قسم کا جواز پیش کرنا بھی ضروری نہیں
سمجھتےہیں ۔
رکشا بندھن کا یہ تہوارتو ملک کے کئی علاقوں میں سرے سے منایا ہی نہیں جاتا
اور کچھ ریاستوں کے اندر اس کا اہتما م بہت ہی مختلف انداز میں ہوتا ہے۔
مسلمانوں کی طرح ان میں یکسانیت اور یگانگت نہیں پائی جاتی کہ ساری دنیا کے
اہل ایمان عید کے دن دوگانہ نمازِ اداکرتے ہیں پھر خطبۂ عید ملاحظہ کرنے
کے بعد میل ملاقات وغیرہ وغیرہ ۔ یہاں تو اس قدر اختلافات ہیں کہ جس کا
تصور محال ہے۔ راکھی پورنیما کو جنوب کے کچھ علاقوں میں آونی اویٹم کے نام
سے یاد کیا جاتا ہے۔ وہاں ساون کے مہینے کی اس تاریخ کو نہ خواتین کی شراکت
داری ہوتی ہے اور نہ راکھی باندھنے کی رسم ادا کی جاتی ہے۔ اس تہوار میں پر
پورے چاند کی رات میں مرد حضرات اپنے ماضی گناہوں سے چھٹکارہ پانے کے لیے
پانی میں مقدس ڈبکی لگا تے ہیں ۔ اس موقع پر پرانے زنار ّ کو نئے دھاگے
بدلا جاتا ہے اور ایسا کرتے وقت آئندہ سال کے دوران اچھے کاموں کو کرنے کا
عہد کیا جاتا ہے۔ ہندوعلماء اس دن یجور ویدا پڑھنا شروع کرکے اسے اگلے ۶ ؍
تک جاری رکھتے ہیں۔
تمل ناڈو میں یہ موقع پونگل کے چوتھے دن آتا ہے۔ وہ لو گ اسے کنمّ یا کنو
پونگل کہتے ہیں۔ اس دن خواتین راکھی تو نہیں باندھتیں مگر اپنے بھائی کے
نام سے کنو پڈی نام کی رسم ادا کرتی ہیں۔ جنوب کی ہی ریاست کرناٹک میں ناگ
پنچمی کے موقع پر راکھی باندھی جاتی ہے ۔ تلنگانہ میں رکشا بندھن کو راکھی
پورنیما کہتے ہیں۔ اس موقع پر بھائی کے بجائے والد کے ہاتھوں پر بیٹیاں
راکھی باندھتی ہیں۔ مہاراشٹر کے ساحلی علاقوں میں رکشا بندھن کو
نارلی(ناریل) پورنیما کہا جاتا ہے۔ اس دن ساحل پر رہنے والے ماہی گیر ناریل
بہا کر سمندر کی پوجا کرتے ہیں۔ مدھیہ پردیش اور بہار کے کچھ علاقوں میں
اسے کجری پورنیما کا نام دے زراعت کے موسم کی شروعات سمجھا جاتا ہے۔ مغربی
بنگال میں یہ موقع جھولن پورنیما کہلاتا ہے اور اسے رادھا و کرشن کی پوجا
پاٹ کے لیے وقف کردیا جاتا ہے۔ اتراکھنڈ میں اس جھنڈیم پورنیما کہتے ہیں ۔
اڑیسہ میں اس دن گائے بھینسوں کی پوجا کی جاتی اور گمہا پورنیما کے نام سے
یاد کیا جاتا ہے۔ گجرات کے کچھ حصوں میں اس دن شیوا کی پوجا کی جاتی ہے اور
وہ لوگ اسے پوترپانا کہتے ہیں ۔
اتر پردیش کے اندر اس تہوار کے ذریعہ اپنی مقبولیت بڑھانے کے لیے یوگی جی
نے بلڈوزر والی راکھی بازار میں پھیلا دی ہے۔ اس طرح تہوار کا سیاسی فائدہ
اٹھانے کی کوشش کی گئی لیکن نتیش کمار نے اس سال سرکار گراکر رکشا بندھن کا
مزہ کرکرا کردیا ۔بہار کے صدمہ سے متاثر وزیر داخلہ کورونا پوزیٹیو ہوکر
میدانتا اسپتال میں داخل ہوگئے۔ وزیر اعظم سمیت دونوں نے رکشا بندھن کا
نہایت مختصر پیغام دیا جبکہ صدر مملکت محترمہ دروپدی مرمو نے اپنے تفصیلی
پیغام میں کہا کہ :’’ میں اپنے تمام ہم وطنوں کو رکشا بندھن کی مبارکباد
دیتی ہوں۔یہ بہنوں کی اپنے بھائیوں کے لیے محبت اور پیار کا اظہار ہے، اور
ان کے درمیان اٹوٹ بندھن کو دوہرانے و مضبوط کرنے کا موقع بھی ہے۔ رکشا
بندھن بے ساختہ محبت اور باہمی تعاون کی علامت ہے اور لوگوں کو قریب لاتا
ہے۔میری خواہش ہے کہ بھائیوں اور بہنوں کے درمیان باہمی اعتماد کا یہ تہوار
ہمارے معاشرے میں ہم آہنگی اور خواتین کے احترام کی حوصلہ افزائی کرے‘‘۔
معاشرے کے اندر ہم آہنگی اور خواتین کے احترام میں دن بہ دن کمی واقع
ہورہی ہے ۔صدر مملکت کا اس پر زور دینا بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ اس مقصد کے
حصول کی خاطر مرچی بابا جیسے سادھو سنتوں کو کڑی سے کڑی سزا دی جانی چاہیے
جو مذہبی لبادہ اوڑھ کر خواتین کی عصمت تار تار کرتے ہیں ورنہ خواتین کے
تحفظ کا خواب محض راکھی باندھنے سے شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا۔
|