معصوم فلسطینیوں پر اچانک اسرائیلی ظلم و بربریت اور پھر جنگ بندی

غاصب اسرائیلی کسی نہ کسی بہانے معصوم اور بے قصور نہتے فلسطینیوں کو نشانہ بناکر 1967سے جانی اور مالی نقصان پہنچاتے رہے ہیں۔ یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے ۰۰۰ واضح رہے کہ اسرائیل نے ہفتہ 6؍ اگست کی صبح غزہ پر فضائی حملے کیے ہیں جس کے جواب میں ایک فلسطینی عسکریت پسندتنظیم اسلامک جہاد نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے اسرائیل پر راکٹ داغے ۔فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اسرائیل نے کہا ہے کہ اس نے ممکنہ خطرے کے پیش نظر اسلامی جہاد کے خلاف آپریشن کیا جو اسرائیل پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔تین روزہ جنگ کے بعد مصر کی جانب سے ثالثی کے تحت غزہ میں جاری اسرائیل اور اسلامی جہاد کے عسکریت پسندوں کے درمیان جنگ بندی ہوئی ہے ۔ دونوں فریقوں نے جنگ بندی پر اتفاق تو کر لیا ہے لیکن ساتھ ہی ایک دوسرے کو خبردار بھی کیا ہے کہ کسی بھی تشدد کا جواب طاقت سے دیا جائے گا۔امریکی صدر جو بائیڈن نے جنگ بندی کا خیرمقدم کرتے ہوئے مصری صدر عبدالفتاح السیسی کا شکریہ ادا کیا کہ اس ثالثی میں ان کے ملک نے کردار ادا کیا ہے۔جو بائیڈن نے شہریوں کی ہلاکتوں کی تحقیقات کا بھی مطالبہ کیا، جسے انہوں نے ’المیہ‘ قرار دیا۔انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ پچھلے 72 گھنٹوں کے دوران امریکہ نے اسرائیل، فلسطینی اتھارٹی، مصر، قطر، اردن، اور دیگر کے ساتھ پورے خطے میں تنازعات کے فوری حل کی حوصلہ افزائی کے لیے کام کیا ہے۔فلسطینی وزارت صحت کے مطابق غزہ میں تین دنوں سے جاری لڑائی کے دوران کم از کم 46 فلسطینی شہید ہوئے، جن میں 16 بچے اور چار خواتین شامل ہیں اس کے علاوہ 311 زخمی ہوئے ہیں۔شہید ہونے والوں میں سے بارہ عسکریت پسند تھے، ایک کا تعلق چھوٹے مسلح گروپ سے تھا اور دو حماس سے وابستہ پولیس اہلکار تھے جو مسلح دھڑوں کے مطابق لڑائی میں حصہ نہیں لے رہے تھے۔اسرائیل کے اندازے کے مطابق کل 47 فلسطینی مارے گئے جن میں سے 14 راکٹوں سے مارے گئے۔ اسرائیلی فضائی حملوں میں 20 عسکریت پسند اور سات شہری مارے گئے ہیں۔غاصب اسرائیلی فلسطینی علاقوں اپنی ملکیت سمجھتے ہیں اور مظلوم فلسطینی اپنی املاک کے حصول کیلئے صیہونی طاقتوں سے نبردآزما ہیں۔ اسرائیل کی ظلم و بربریت کے خلاف عالمی طاقتیں خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں کیونکہ دشمنانِ اسلام مسلمانوں کا قتل عام ہی تو چاہتے ہیں۰۰۰ اسلامی ممالک بھی ان عالمی طاقتوں اور اسرائیل کے سامنے بے بس ، مجبور و لاچار دکھائی دیتے ہیں۰۰۰ کیونکہ انکے ہتھیار جو انہو ں کروڑوں ڈالرز کے عوض دشمنانِاسلام سے خرید رکھے ہیں۰۰۰خیر اسرائیل پھر کسی بہانے کے ذریعہ فلسطینیوں پر حملہ کرسکتاہے اور اس سلسلہ میں اقوام متحدہ کے مشرق وسطیٰ کے امن مندوب ٹور وینس لینڈ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’صورتحال اب بھی بہت نازک ہے، اور میں تمام فریقین سے جنگ بندی کی پابندی کرنے کی اپیل کرتا ہوں۔‘اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے حالیہ تنازع پر پیر کو ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے۔ چین جس کے پاس اس ماہ کونسل کی صدارت ہے، نے متحدہ عرب امارات کی درخواست کے جواب میں سیشن طے کیا ہے۔اسرائیلی وزیراعظم یائر لاپڈ کے دفتر نے اتوار کی رات دیر گئے جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کرتے ہوئے ’مصر کی کوششوں‘ کا شکریہ ادا کیا لیکن یہ کہا کہ ’اگر جنگ بندی کی خلاف ورزی کی جاتی ہے تو اسرائیل سخت جواب دینے کا حق برقرار رکھتا ہے۔‘اسلامی جہاد کے رکن محمد الہندی نے پہلے ہی اس بات کی تصدیق کی تھی کہ عسکریت پسندوں نے جنگ بندی قبول کر لی ہے، لیکن گروپ نے ایک بیان میں مزید کہا کہ وہ بھی کسی بھی جارحیت کا ’جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔‘اسرائیلی طیاروں نے جمعہ5؍ اگست سے غزہ میں اہداف کو نشانہ بنانا شروع کیا تھا، جبکہ ایران کے حمایت یافتہ فلسطینی جہادی گروپ نے جواب میں اسرائیل پر سینکڑوں راکٹ فائر کیے۔سرحد پر ہونے والی لڑائی کے مکمل جنگ میں تبدیل ہونے کا خطرہ اس وقت تک موجود رہا جب تک جنگ بندی نہ ہوئی۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں سے کچھ غلط فائر کیے گئے راکٹوں سے مارے گئے۔

ایران اور امریکہ کے درمیان نیا معاہدہ ۰۰ فیصلہ کن موڑ پر
ایران اور امریکہ کے درمیان مستقبل قریب میں کس قسم کی پالیسی اختیار کی جاتی ہے اسکا فیصلہ عنقریب ہونے والا ہے۔ بتایا جاتا ہیکہ ایران کے ساتھ مجوزہ نئے جوہری معاہدے کا حتمی متن واشنگٹن اور تہران کو بھیج دیا گیا ہے جس کے بعد معاہدہ بحال ہونے کی امید پیدا ہو گئی ہے۔عرب نیوز کے مطابق یورپی یونین نے منگل کو کہا ہے کہ اسے دونوں دارالحکومتوں سے فوری جواب کی توقع ہے۔یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے ترجمان پیٹر سٹانو کا کہنا ہیکہ ’مزید مذاکرات کی گنجائش نہیں ہے۔ ہمارے پاس حتمی متن موجود ہے۔ یہ فیصلہ کرنے کا لمحہ ہے، ہاں یا نہیں میں۰۰۰ یورپی یونین نے اس امید کا اظہار کیا کہ تمام شرکاء فیصلہ جلد کرینگے۔واضح رہے کہ پیر8؍ اگست کو ویانا میں مذاکرات کا اختتام ہوا جن کا مقصد سنہ 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنا ہے۔ یہ معاہدہ عالمی طاقتوں نے ایران کو جوہری پروگرام سے روکنے کیلئے کیا تھا جس کے بدلے اس پر عائد اقتصادی پابندیوں میں نرمی کرنا تھا۔ لیکن یہ معاہدہ سنہ 2018 میں اس وقت ختم ہو گیا تھا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس سے دستبرداری کا اعلان کرتے ہوئے ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کر دی گئیں تھیں۔برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی، ایران اور روس کے ساتھ ساتھ امریکہ نے بالواسطہ طور پر کئی مہینوں کے طویل وقفے کے بعد گزشتہ ہفتے اس معاملے پر دوبارہ بات چیت کا آغاز کیا ہے۔رواں برس مارچ میں جوہری مذاکرات میں تعطل آنے سے قبل یورپی یونین کے مربوط مذاکرات اپریل 2021 میں شروع ہوئے تھے۔یورپی یونین کی خارجہ اور سکیورٹی پالیسی کے اعلیٰ عہدیدار جوزف بوریل نے کہا ہے کہ ’جس پر بات چیت ہو سکتی ہے اس پر بات ہو چکی ہے، اور اب یہ حتمی متن میں موجود ہے۔‘انہوں نے کہا کہ ’ہر ٹکنیکی مسئلے اور ہر پیراگراف کے پیچھے ایک سیاسی فیصلہ چھپا ہوا ہے جسے دارالحکومتوں (واشنگٹن اور تہران) میں لینے کی ضرورت ہے۔‘تاہم بتایا جاتا ہے کہ بحال ہونے والے معاہدے کیلئے اہم چیلنجز باقی ہیں۔یورپی حکام نے ایران پر زور دیا کہ وہ اپنے ’غیر حقیقت پسندانہ مطالبات‘ جو اصل معاہدے کے دائرہ کار میں نہیں آتے انہیں ترک کر دے، بالخصوص جو بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کی ایران میں پائے جانے والے غیر اعلانیہ جوہری مواد کی تحقیقات سے متعلق ہیں۔ایران کے چیف مذاکرات کار علی بغیری کانی سیاسی مشاورت کیلئے واپس تہران پہنچ گئے ہیں تاہم حتمی فیصلہ سپریم لیڈر آیت اﷲ علی خامنہ ای کریں گے۔دوسری جانب امریکہ نے کہا کہ نیا مسودہ ہی واحد اور بہترین ذریعہ ہے جس کی بنیاد پر معاہدہ ہو سکتا ہے۔امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ ’ہمارا موقف واضح ہے۔ ہم یورپی یونین کی تجاویز کی بنیاد پر فوری طور پر معاہدہ کرنے کیلئے تیار ہیں۔‘اب دیکھنا ہے کہ ایران کے روحانی پیشوا و سپریم لیڈر آیت اﷲ علی خامنہ ای کیا فیصلہ کرتے ہیں اگر انکی جانب سے پس و پیش کیا جاتا ہے تو حالات کشیدہ ہوسکتے ہیں ۰۰۰

اماراتی شہری کا حیران کن اقدام لگژری کار دوسرے ہی دن جلادی
جب انسان کو اپنی دولت کا احساس نہیں رہتا اور وہ اپنی بے پناہ دولت کے سامنے ہر چیز کو حقیر سمجھنے لگتا ہے تو اس کی عقلِ سلیم بھی سلب کرلی جاتی ہے اور وہ ایسے ایسے کام انجام دینے لگتا ہے جسے سن کر دوسرے لوگ اسکا مذاق اڑاتے ہیں یا اسے دیوانہ یا پاگل قرار دیتے ہیں۔ایسا ہی ایک واقعہ 7؍ اگسٹ اتوار کو امارات کے صحرائی علاقے میں پیش آیا۔ بتایا جاتا ہیکہ ایک اماراتی شہری نے اپنی نئی لگژری کار میں آگ لگادی۔اور اسکے بعد اس شخص نے ویڈیو شیئر کی ہے جس میں اس نے آگ لگانے کی وجہ یہ بتائی ہے کہ ’’کل ایک شخص سے میری ملاقات ہوئی، اس نے میری گاڑی دیکھ کر کہا :اتنی مہینگی کار پر ابوظہبی کیسے جارہے ہیں‘‘ ۔ اماراتی شہری کا خیال ہے کہ مذکورہ شخص کا یہ کہنا دراصل حسد کی وجہ سے ہے ، اس کی نظر لگ گئی ہے، شہری کا خیال ہیکہ اب یہ گاڑی چلانے کے قابل نہیں رہی کیونکہ نظر بد کا شکار ہوگئی ہے۔ اس واقعہ نے لوگوں کو حیران کردیا اور اس پر ٹوئٹ کرتے ہوئے کسی نے لکھا کہ ’’اماراتی شہری کو نعمت کی قدر نہیں اور ان کا یہ عمل حماقت پر مبنی ہے‘۔ ایک شخص نے لکھا کہ ’’کسی کا خیال ہے کہ محض اس لئے گاڑی میں آگ لگادینا کہ کسی نے اس پر تبصرہ کیا ہے ناقابلِ فہم وجہ ہے‘۔ جبکہ بعض لوگوں اماراتی شہری کو حق بجانب قرار دیتے ہوئے کہاکہ آگ لگانے کے بجائے فروخت کردینا زیادہ مناسب تھا۔اب دیکھنا ہیکہ عرب امارات کی عدلیہ اس شہری کے خلاف کیا کارروائی کرتی ہے کیونکہ اتنی مہنگی گاڑی کو خریدنے کے دوسرے ہی دن آگ لگاکر اسے تباہ کردینا اپنا ہی نقصان نہیں بلکہ ملک کی معیشت کو نقصان پہنچانا ہے اوراسلام بھی ایسی اجازت نہیں دیتا۰۰۰

اماراتی شہری کا عمانی پہاڑ پر حیران کن یا پا گل پن مظاہرہ
انسان میں جب کسی کام کے کرنے کا جوش و جذبہ انتہاء کو پہنچ جاتا ہے تو یہ جنونی کیفیت اختیار کرلیتیہے اور اس وقت اسکے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ماند پڑجاتی ہے ،وہ ایسا کام کرگزرتا ہے جس سے اسکی جان بھی چلی جاسکتی ہے ۔ ایسا ہی ایک واقعہ 8؍ اگست ، پیر کو متحدہ عرب امارات کے شہری بوذیاب نے سلطنت عمان کے سمحان پہاڑ کی چوٹی پر دل دہلادینے والی حرکت کرکے لوگوں کے ہوش اڑادیئے۔ ذرائع ابلاع کے مطابق بتایا جاتا ہیکہ بوذیاب نے عمانی پہاڑ کی چوٹی پر جو کچھ کیا اس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کی، جس میں یہ شخص چوٹی کے کنارے گاڑی پر کھڑا ہو گیا ہے۔ ایک شخص بوذیاب کی اس حرکت کی منظرکشی کر رہا ہے اور ساتھ میں وہ اسے خبردار بھی کر رہا ہے کہ ہم لوگ پھنس گئے ہیں یہ نہ بھولو کہ یہ پہاڑ کئی کلومیٹر اونچا ہے۔ایک اور ویڈیو میں اماراتی یو ٹیوبر اپنی گاڑی کو ریورس کر رہا ہے جبکہ اس کا دوست اسے سمجھا رہا ہے کہ بس کرو گاڑی چوٹی کے کنارے پہنچ چکی ہے۔یہ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد سلطنت عمان کی پولیس اسے گرفتار کرلیا اور پولیس نے ٹوئٹر کے اپنے اکاؤنٹ پر اس کی اطلاع دیتے ہوئے کہا کہ ظفار پولیس نے ایک سیاح کو گرفتار کیا ہے جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی تھی۔ اس نے پہاڑ کی چوٹی پر گاڑی چڑھا کر انتہائی خطرناک حرکت کی تھی جس سے اس کی جان کو خطرہ لاحق تھا۔ پولیس اس حوالے سے قانونی کارروائی کررہی ہے۔

سعودی عرب کا یوکرینی پناہ گزینوں کیلئے مستحسن اقدام
ایک طرف عالمی طاقتیں اپنے کمزور ممالک کو نشانے بناتے ہوئے انکی جان ومال کو شدید نقصان پہنچا کرانہیں تباہ و برباد کردیتے ہیں تو دوسری جانب ان تباہ حال مظلوموں کی دادرسی کیلئے معاشی اعتبار سے مستحکم ممالک کھڑے ہوتے ہیں۔ گذشتہ تقریباً چھ ماہ سے روس یوکرین پر خطرناک فضائی اور زمینی حملے کرکے شدید جانی و مالی نقصان پہنچا رہا ہے ۔ یوکرین بھی اپنے بچاؤ کیلئے اقدامات کررہا ہے اور اسے یورپین ممالک خصوصاً امریکہ کا تعاون حاصل ہے جس کی وجہ سے روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ طویل ہوتی جارہی ہے ۔روس یوکرین کے کئی شہروں پر حملے کرکے انکی اہم تنصیبات کونشانہ بناچکا ہے اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے ۔یوکرین اور عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق روس کو بھی اس جنگ میں کافی جانی ومالی نقصان پہنچ رہا ہے۔ لاکھوں یوکرینی شہری نقل مکان کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں اور پڑوسی و دیگر ممالک کا رخ کرکے پناہ حاصل کررہے ہیں۔ ان پناہ گزینوں کی امداد کا بہت بڑا مسئلہ ہوتا ہے کیونکہ جس ملک میں پناہ لی گئی ہے وہاں کی معیشت بھی مضبوط و مستحکم ہونا ضروری ہے، ورنہ اقوام متحدہ اور دیگر ممالک کی جانب سے انہیں مدد کرنا ضروری ہے۔ اسی کے تحت سعودی شاہی حکومت کی جانب سے ان لاکھوں پناہ گزینوں کیلئے امدادی کام کا آغاز ہوچکا ہے ۔یوکرین کے پناہ گزینوں کیلئے شاہ سلمان مرکز برائے امداد و انسانی خدمات کے نگرانِ اعلی ڈاکٹرعبداﷲ الربیعہ نے کہا ہے کہ سعودی عرب یوکرین سے پولینڈ سمیت پڑوسی ممالک میں پناہ لینے والوں کی مدد کررہا ہے۔ واضح رہے کہ سعودی عرب دنیا کے مختلف علاقوں میں پناہ گزینوں اور قدرتی آفات نیز خانہ جنگی جیسے مسائل سے دوچار افراد کا ساتھ دینے اور ان کے مسائل کا بوجھ کم کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ یوکرین کے پناہ گزینوں کی مدد اسی پالیسی کا حصہ ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ڈاکٹر الربیعہ نے منگل کو پولینڈ میں سعودی سفارتخانے میں منعقدہ پریس کانفرنس میں کہا کہ شاہ سلمان مرکز برائے امداد و انسانی خدمات نے عالمی ادارہ صحت اور پناہ گزینوں کے امور سے متعلق اقوام متحدہ کی ہائی کمشنری کے توسط سے یوکرین کے پناہ گزینوں کیلئے 10 ملین ڈالر کی امداد دی ہے۔ 10 لاکھ سے زیادہ پناہ گزینوں کے مسائل حل کرنے کا پروگرام ہے۔ الربیعہ نے کہا کہ سعودی عرب دنیا میں ہر جگہ ضرورت مندوں اور پناہ گزینوں کی انسانی بنیادوں پر مدد کے حوالے سے پرعزم ہے۔ڈاکٹر الربیعہ نے بتایا کہ سعودی عرب شاہ سلمان مرکز برائے امداد کے سائبان تلے 2000 سے زیادہ امدادی منصوبے 85 ممالک میں نافذ کرچکا ہے۔بتایا جاتا ہے کہ سعودی عرب فوڈ سیکیورٹی، صحت، تعلیم، پانی اور ماحولیاتی صحت جیسے شعبوں میں مدد کررہا ہے۔اس طرح سعودی عرب کی خدمات عالمی سطح پر جاری ہے۔
*******
 

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 358 Articles with 255707 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.