ایک آدمی اپنے پیر صاحب سے ملاقات کے لیے دور دراز کا سفر
کرتا ہے راستے میں اس کا گزر ایک جنگل سے ہوتا ہے۔ جنگل بہت گنجان اور
جنگلی جانوروں سے بھرا ہوا تھا۔ وہ خوف دور کرنے کیلئے پیر صاحب کی بتائی
ہوئی آیت کی تلاوت کرتا جاتا ہے ۔اور جنگل میں سے گزرتا جاتا ہے ۔
وہ دیکھتا ہے کہ جانور اس راہگیر کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے جسے وہ قرآنی
آیت کا اثر سمجھتا ہے اور بے خوف و خطر چلتا جاتا ہے۔ آخر کا ر وہ پیر صاحب
کے پاس پہنچ جاتا ہے اور ان کی خوب خدمت کرتا ہے اور جنگل سے توڑے ہوئے
تازہ پھل بھی ان کی خدمت میں پیش کرتا ہے ۔
ایک دن وہ مرید واپسی کا قصد کرتا ہے اور اپنے پیر صاحب سے اجازت طلب کرتا
ہے۔ تو پیر صاحب اسے اس کی ایک خواہش پوچھتے ہیں جو اسی وقت پوری ہو سکتی
ہے ۔
وہ بندہ اپنے پیر صاحب سے جانوروں کی زبان سمجھنے کی بات کرتا ہے کہ میں جب
جنگل میں سے گزر رہا تھا تو جانور آپس میں مکالمات کررہے تھے میں وہ مکالمے
سمجھنا چاہتا ہوں ۔ پیر صاحب اسے سمجھاتے ہیں کہ رہنے دو ‘ اس کی جگہ کوئی
اور خواہش کرلو لیکن وہ اپنے تجسّس کی وجہ سے نہیں مانتا اور پیر صاحب کو
اپنی بات منوا لیتا ہے ۔
اب مرید صاحب واپسی پر جنگل میں داخل ہوتے ہیں تو حیران ہوجاتے ہیں کہ سارے
جانور مختلف باتیں کررہے ہیں چڑیاں ‘ کوّے ‘ طوطے اور مینا وغیرہ سب کے سب
ایک دوسرے سے مشورے کررہے ہیں ۔ طوطا اپنی مینا سے کہہ رہا تھا کہ اس دفعہ
جنگل میں خوب بارشیں برسی ہیں جسکی وجہ سے درختوں میں خوب پھل لگے ہیں ۔
لیکن تو ضرورت کے مطابق توڑا کر جو بچ جائیگا کسی اور جاندار کے کام آئے گا
۔ تو وہ کہتی ہے۔ ٹھیک ہے جانو! میں آئیندہ اس بات کا خیال رکھوں گی۔ جس پر
اسے اپنی بیوی یاد آجاتی ہے جس نے کبھی جھوٹ میں بھی اس کی ہاں میں ہاں
نہیں ملائی۔
تھوڑا آگے جاتا ہے تو دیکھتا ہے کہ ایک شیر سویا ہوا ہے اور اس کے ارد گرد
اس کے بچے پھر رہے ہیں ۔ ان کی ماں آواز دیتی ہے کہ زیادہ دور نہ جانا ۔ تو
ان میں سے ایک بچہ بولا کہ میں جنگل کے راجہ کا بیٹا ہوں اور سارا جنگل
میرے باپ کے خوف سے تھر تھر کانپتا ہے ۔ اس پرشیرنی بولی! بیٹا بات تو
تمہاری ٹھیک ہے لیکن جنگل میں صرف تم ہی اپنے باپ کی کمزوری ہو۔ پرسوں
تمہاری خاطر اتنا بڑا شکار تمھارے باپ نے مارا اور کھا لگڑ بھگڑ گئے تھے ۔
ایک بچہ بولا کیا وہ ہمارے باپ سے طاقتور ہیں؟ نہیں وہ سازشی ٹولا ہے اور
ہمیشہ کے اٹھائی گیرے ہیں اور ان کے اتحادی زیادہ ہیں۔ بچہ بولا ماں کیا
اتحادیوں پر قانون لاگو نہیں ہوتا ۔بیٹا قانون تو سب کے لیے برابر ہے مگر
کچھ جانوروں کا اتحاد صرف قانون سے استثنیٰ حاصل کرنے کے لیے ہوتا ہے ۔
مسافر سوچ رہا تھا کہ مسائل تو ہمارے والے ہی ہیں ۔ تو پھر یہاں کمزور
جانور کیسے زندہ رہتے ہیں ؟
وہ آدمی تھوڑا آگے جاتا ہے تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک ہاتھی اپنے ساتھیوں کے
محو ِگفتگو ہے ۔ اس کے کولہے پر کسی کمپنی کی مہر لگی ہوئی تھی ۔ اور وہ
اپنے ساتھیوں کو سمجھا رہاتھا کہ جنگل میں رہنے کا اصول یہ ہے کہ اپنے دشمن
کی خوراک کی دوسری طرف بیٹھو۔ کیونکہ جنگلی جانور بھوکا خطرناک ہوتا ہے جب
اسے خوراک پہلے کھانے کو مل گئی تو وہ واپس چلا جائے گا۔ ان میں سے ایک
ہاتھی بولا تم تو انسانوں کے ساتھ رہ کر آئے ہو وہ کیسے ہیں ؟
وہ بولاانسان کا پیٹ جتنا بھرتا جائے گا اتنا ہی وہ خطرناک ہوتا جائیگا ۔
اپنے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی۔
اب اس بندے نے کانوں میں انگلیاں دیں اور جلدی جلدی جنگل عبور کرنے لگا۔
بابا گِل
|