شب گریزاں ہو گی آخر جلوہ خورشید سے

یوم آزادی
بقلم۔کلثوم رضآ

*شب گریزاں ہو گی آخر جلوہ خورشید سے*

اس ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ ہمارا پیارا وطن اسلامی جمہوریہ پاکستان 14اگست 1947ء بمطابق 27رمضان 1366ہجری کو معرضِ وجود میں آیا ۔
اب کی بار ہم اس کی 75ویں یوم آزادی منا رہے ہیں ۔
اج کا دن ہمارے لیے عید سے کم نہیں ۔کیوں کہ اج کے دن ہم نے پاکستان کے نام سے ایک اسلامی مملکت حاصل کی تھی۔اس آزاد مملکت خدا داد میں سانس لے کر اللہ کا شکر بجا لاتے ہوئے ہمیں خود کو یہ احساس دلانا ہوگا کہ اس ملک کو ہمارے آباؤ اجداد نے بھاری قربانی دے کر حاصل کیا ہے۔ لاشوں کے ڈھیر لگے، ماؤں کے سامنے ان کے بچے بے رحمی سے مارے گئے، بھائیوں کے سامنے بہنوں کی عصمتیں لٹیں، بیویوں کے سامنے شوہروں کو قتل کیا گیا، باپ کے سامنے بیٹے قتل ہوئے۔ یہ آزادی ہمیں مفت میں نہیں ملی۔ ہمارے کئی راہنماؤں کی گردنیں کٹیں، کئی ماؤں ،بہنوں اور بیٹیوں کی عصمتوں کو پامال کیا گیا ،کئی بچے یتیم ہوئےاور کئی سہاگ اجڑ گئے۔ تب جاکر یہ وطن مدینے کے بعد پہلی اسلامی ریاست اسلام کا وطن *لا الہ الااللہ* کا دیس وجود میں آیا۔مگر صد افسوس آج 75سال گزر جانے کے باوجود ہم پاکستانی اس نظریاتی اساس کی حفاظت نہ کر سکے۔ ہمارے آباء نے آزادی کی تحریک اس لیے چلائی تھی کہ انگریزوں اور ہندوؤں سے ہماری تہذیب و ثقافت الگ ،مذہب الگ ہے۔ ہماری ذات اور قبائل میں فرق ہے۔ نظریات کا فرق ہے۔ انھوں نے اپنے جان و مال ،عزت و سلامتی ،مال و اسباب اور جائیدادو وراثت کی قربانی دے کر ہمارے لیے علیحدہ ملک تعمیر کیا مگر ہم ہیں کہ وہی ثقافت، وہی لب و لہجہ ،وہی انداز و الفاظ اور وہی لباس و تقاریب گلے سے لگائے ہوئے ہیں۔ آزاد ملک میں پیدا ہونے کے باوجود ذہنی غلام ہیں بلکہ غلامی کی بد ترین شکل اپنائے ہوئے ہیں۔ کیوں کہ ہمیں غلامی کی زنجیروں سے پیار ہو گیا ہے۔ ہم خود انہیں توڑنا نہیں چاہتے ۔بلکہ ٹوٹی ہوئی زنجیروں کو بھی جوڑ جوڑ کر پہن رکھا ہے۔ جسمانی غلامی سے کہیں درجہ ذیادہ نقصان دہ ذہنی غلامی ہے۔ کیونکہ اگر ذہن، سوچ اور فکر آزاد ہے تو وہ درست سمت میں آزادی کے لیے کوشش کر سکتا ہے۔ جبکہ ذہنی غلامی میں مبتلا شخص کی کوشش بھی ان استعماری طاقتوں اور ان کے ایجنٹوں کے ماتحت ہوتی ہے جنہوں نے اسے غلام بنا رکھا ہے۔

اب بھی یعنی اس وقت رات کے 12بجے *جشن ازادی* کے نام پر ڈھول بجنے کی آوازیں آ رہی ہیں اور پتہ نہیں جائے وقوعہ پر کیا کچھ ہو رہا ہے۔ شاید ان جشن منانے والوں کو خود بھی پتہ نہیں کہ وہ جشن کس لیے منا رہے ہیں؟ وہ کس کے طریقے کو فروغ دے رہے ہیں؟ کیا یوم آزادی منانے کے اس طریقے کو اس طریقے سے کچھ بھی نسبت ہے جو فاتح مکہ پر فتح کی خوشی منانے کا طریقہ تھا؟

کیا قربانیوں کی وہ درد ناک کہانیاں بھی ہمیں یوں جشن منانے سے نہیں روک سکیں جنہیں سننے یا پڑھنے سے جسم پر لرزہ اور دماغ پر سکتہ طاری ہو جاتا ہے؟کیا شہنائیاں بجانے والے اور پٹاخے چھوڑنے والے پاکستانی شہ رگ پر رکھے بھارتی پیر کو محسوس نہیں کرتے؟ کیا ملت کی بیٹی عافیہ صدیقی کی بیہیمانہ قید بھی ان کے اگے کچھ معنی نہیں رکھتی؟ کیا آئے روز مہنگائی کا ڈرامہ رچا کر غریب عوام کو روٹی کے لیے ترسا ترسا کر مجبور کرنا بھی کوئی اہمیت نہیں رکھتا؟ کیا ان کے آباء اپنی قربانیوں اور کوششوں کو بے نتیجہ بلکہ ان قربانیوں سے بے نیاز روبوٹک اولادوں کو دیکھ کر روز حشر ان سے حساب نہ مانگیں گے؟ کیا وہ یہ سوال نہیں اٹھائیں گے کہ "ہم نے اپنا خون، مال، اور وقت کھپا کر اور لٹا کر پاکستان کو آزادی دلائی تھی مگر تم 75سال گزر جانے کے باوجود وہی محکوم کے محکوم ہو؟
اخر ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ *لا الہ الااللہ**کے نام پر بننے والی اس دوسری ریاست مدینہ کو طاؤس و رباب کی نہیں *اسلامی نظام* کی ضرورت ہے۔ ایک جرأت مند ،صالح اور دیندار قیادت کی ضرورت ہے۔ جس کی قیادت میں مسلمانوں کے اس ملک میں اقتدار اعلیٰ کا مالک *اللہ تعالیٰ* ہو۔ حاکمیت اللہ ،رسول اور قران وسنت کی ہو۔
مجھے امید ہے وہ دن دور نہیں کہ جب،

"آسمان ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
پھر دلوں کو یاد آ جائے گا پیغام سجود
پھر جبین خاک حرم سے آشنا ہو جائے گی
شب گریزاں ہو گی آخر جلوہ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمہ توحید سے۔۔

ان شاءالله۔#

 

Kiran Shabir
About the Author: Kiran Shabir Read More Articles by Kiran Shabir: 2 Articles with 956 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.