تعلیم تو مل گئی لیکن تربیت کس کی ذمہ داری۔۔۔ آج کے اسکول لوٹ مار میں مصروف کیا پہلے بھی ایسا ہی تھا؟

image
 
شادی کی تقریب میں بیٹھی سب خواتین اپنے بچوں کی تعلیمی قابلیت پر بات کر رہی تھیں ۔اسی گروپ میں بیٹھی ایک بزرگ خاتون اس گفتگو سے محظوظ ہو ر ہی تھیں تھوڑی دیر سننے کے بعد وہ ان خواتین سے ایک سوال کرتی ہیں کہ آپ سب اپنے بچوں کی تعلیمی قابلیت تو بڑھ چڑھ کر بتا رہی ہیں لیکن آپ میں سے کوئی اپنے بچوں کی شخصیت کے بارے میں بات نہیں کر رہا کہ آیا آپ کا بچہ رحمدل ہے، باادب ہے، خوش اخلاق ہے، جانوروں سے محبت کرتا ہے، سخی ہے۔ کیا انسان کی شخصیت میں معاشرتی اقدار سب سے اہم نہیں ہوتیں ؟ وہاں موجود خواتین آنٹی کی بات کو سن کر تھوڑا سوچ میں پڑ گئیں کہ وہ بات تو کسی حد تک ٹھیک کر رہی تھیں ۔
 
تعلیمی ادارہ ایک ایسی جگہ ہوتا ہے جہاں مختلف عمر کے لوگ تعلیم حاصل کرتے ہیں پری اسکول سے لے کر یونیورسٹی تک یہ جگہ سیکھنے کا ماحول فراہم کرتی ہے۔پرانے روایتی تعلیمی اداروں میں بچوں کو تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ ہنر بھی سکھائے جاتے تھے جیسے سلائی کڑھائی ، امور خانہ داری ،بوائے اسکاؤٹ گرلز اسکاؤٹ وغیرہ حتیٰ کہ بچے قرآن پڑھنے جس جگہ جاتے تھے تو وہاں بھی قرآن پڑھانے والے قاری یا قاریہ قرآن کی تفسیر، سنت و احادیث اور اسلامی واقعات کے زریعے کسی نہ کسی پیراہے سے بچوں کو اچھا انسان بننے کی تربیت دے رہے ہوتے ہیں ۔والدین بھی اپنے بچوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دیتے تھے کہ ان کا بچہ معاشرے کا ایک فعال انسان بنے اور اسے سراہا جائے۔
 
نئے اور پرانے تعلیمی نظام میں کیا فرق ہے؟
پرانے تعلیمی نظام میں طلباء کو تعلیم کے ساتھ روایات، رسومات اور مذہب کے بارے میں پڑھایا جاتا تھا ۔ جدید تعلیم میں طلباء کو سائنس، ٹیکنالوجی، زبان کی مہارت اور ریاضی وغیرہ کے بارے میں پڑھایا جاتا ہے۔تعلیم سیکھنے یا علم، ہنر، اقدار، عقائد اور اچھی عادات کو اپنانے کا عمل ہے ۔ آج معاشرے میں رہنے کے لیے ہر ایک کو کم ازکم بنیادی تعلیم حاصل کرنا ضروری ہو گئی ہے ۔ تعلیم ایک ذیلی نظام ہے جو پورے معاشرے کے لیے کچھ افعال انجام دیتا ہے۔ تبدیلیاں ہر نسل میں معمول کی بات ہے۔ اور جب ہم ایک نسل سے اگلی نسل میں منتقل ہوتے ہیں تو ہم تعلیمی نظام میں کچھ تبدیلیوں کا سامنا کر تے ہیں۔ اب آئیے تبدیلیوں کے بارے میں بات کرتے ہیں۔
 
image
 
ماضی کا تعلیمی نظام:
ماضی میں مضامین کی تعلیم کے علاوہ فن اور دستکاری کے کاموں کی تربیت بھی دی جاتی تھی ۔ بر صغیر میں مسلم دور سے پہلے فوجی تربیت ہوتی تھی لیکن مسلم حکومت قائم ہونے کے بعد تعلیمی نظام کے مقاصد یکسر بدل گئے ۔ اس دور میں پیشہ ورانہ تعلیم کا ظہور ہوا اور یہ طلباء کو کچھ ہنر سکھاتی تھی ۔ انگریزوں کے حملے سے تعلیمی میدان میں کچھ فائدے ہوئے کیونکہ یہ دو معاشرتی روایات کا ملاپ تھا ۔ برطانوی تعلیم اسکول جانے کو زیادہ اہمیت دیتی تھی ۔ اس زمانے میں کئی سکول قائم ہوئے اور تعلیمی نظام میں کئی سہولیات فراہم کی گئیں۔
 
موجودہ نظام تعلیم:
موجودہ نظام تعلیم ماضی سے بہت مختلف ہے۔ یہ نوجوانوں کے مستقبل کو سنوارنے میں کوئی خاص کردار ادا نہیں کر رہا۔ جدید نظام تعلیم کا بنیادی مقصد پیسہ کمانا ہے۔ تعلیمی اداروں کے مالکان تعلیم کو اپنی مالی ترقی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس کی اہمیت کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے ۔ یہ تعلیم بغیر کسی علم کے طلباء کو ڈگری اور ڈپلومہ دیتی ہے۔ اس وجہ سے کاروباری ذہن رکھنے والے طلباء مناسب ملازمت کے لیے اہل نہیں ہیں۔
 
تعلیم صرف اچھی ڈگری کے لیے نہیں بلکہ زندگی میں کچھ اخلاقی چیزوں کا مطالعہ کرنا بھی ہے۔ نئی نسل کے طلباء کو ثقافتی اقدار اور معاشرے کی اہمیت کے بارے میں کوئی اندازہ نہیں کیونکہ اس موجودہ تعلیمی نظام میں اساتذہ تربیت پر خاص توجہ نہیں دے رہے۔ آج کا نظام تعلیم طلبہ کو اس بات کی تربیت نہیں دیتا کہ وہ اپنی عملی زندگی میں کیا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ان میں سے اکثر انٹرویو کے عمل کے دوران ہی نااہل ہو جاتے ہیں۔ آج کل تعلیم ٹیکنالوجی کو زیادہ اہمیت دیتی ہے۔ آن لائن تعلیمی نظام کے فوائد اور نقصانات دونوں ہیں۔ آج اسکول بچے کو بھیجا جاتا ہے تو وہ وہاں صرف کتابی تعلیم حاصل کرتا ہے کوئی ہنر اور مہارت حاصل کرنے کے لئے اسے کوئی الگ ادارے میں داخلہ لینا پڑتا ہے ۔ والدین بھی اپنے بچوں کو نامی گرامی پرائیوٹ نجی اسکولوں میں بھیجتے ہیں تا کہ معاشرے میں ان کا اور ان کے بچوں کا سر فخر سے بلند ہو۔ اس کے لئے وہ پیسہ کمانے والی مشین بن جاتے ہیں اور وقت کی کمی کی وجہ سے وہ بچوں کی تربیت پر وہ وقت نہیں دے پاتے جو ان کا حق ہے۔
 
image
 
مستقبل کا تعلیمی نظام:
ان دنوں میں تعلیمی نظام میں تیزی سے تبدیلی رونما ہو رہی ہے ۔ مستقبل کے نظام تعلیم کے لئےتکنیکی اور پیشہ ورانہ تعلیم کو اہمیت دینے کے ساتھ اخلاقی تعلیم کو بھی اہمیت دی جائے، حکومتی حکام بھی اس کے ذمہ دار ہیں اور انھیں چاہیے کہ تعلیمی نظام میں کچھ مفید تبدیلیاں اور مناسب اقدام کریں اور ملک کی ترقی کو زیادہ اہمیت دیں۔
 
ایک کامیاب اور اچھا انسان بننے کے لئے ضروری نہیں لمبی چوڑی ڈگریاں ہوں تعلیم کے ساتھ اسٹریٹ اسمارٹ ہونا بھی ضروری ہے ۔ پہلے زمانے کے تعلیمی ادارے اچھی شخصیت تیار کرتے تھے۔پڑھے لکھے لوگ قوم کا اصل اثاثہ ہوتے ہیں۔ ذاتی اور سماجی زندگی کی ترقی کے لیے تعلیم اور تربیت کا بہت بڑا کردار ہے یہ کل کے لیڈروں کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
YOU MAY ALSO LIKE: