|
|
پرائیویٹ اسکول انڈسٹری جس تیزی سے بزنس کی راہ پر گامزن
ہے لگتا ہے اسکول چلانا ملک کے سب سے زیادہ منافع بخش کاروباروں میں سے ایک
بن گیا ہے۔ یہ اپنی مرضی کے مالک ہیں انہیں کیسے چلایا جارہا ہے اس کے بارے
میں کوئی جانچ پڑتال نہیں کی جارہی ہے۔ پاکستان کے آئین میں آرٹیکل 25 اے
کے تحت حکومت کے لیے یہ لازمی قرار دیا گیا ہے کہ وہ تمام شہریوں کو مفت
تعلیم فراہم کرے خاص طور پر ان کو جو اسکول جانے کے متحمل نہیں ہیں تاہم،
اس شق کا نفاذ کبھی بھی نافذ نہیں کیا گیا جس کا فائدہ نجی اسکولوں کو ہوا
کیونکہ سرکاری اسکولوں کے معیار سے مطمئن نہ ہونے کی صورت میں مڈل کلاس
والدین اپنے بچوں کو نجی اسکولوں میں پڑھانے پر مجبور ہیں چاہے وہ ان
اسکولوں کی فیسیں ادا کرنے کے متحمل ہوں یا نہ ہوں لیکن وہ کسی نہ کسی طرح
اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے یہ قربانی دیتے ہیں۔ |
|
اب امیر ہو یا غریب، معاشرے کے ہر طبقے کے لوگ اپنے بچوں
کو پرائیویٹ اسکولوں میں بھیج رہے ہیں خواہ ان سکولوں کا تدریسی معیار کچھ
بھی ہو جیسے بہت سے "نجی اسکول" اپارٹمنٹس میں یا لوگوں کے ذاتی گھروں میں
چھوٹی جگہوں پر ہیں اور بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں- اس کے باوجود وہ
ماہانہ 15,000-25,000 روپے وصول کرتے ہیں جبکہ کم سے کم بھی نارمل پرائیوٹ
اسکول کی فیس کا آغاز 5 ہزار سے ہوتا ہے۔ وہ طلباء کو پینے کا پانی تک
فراہم نہیں کرتے ہیں اسکول کی کینٹین میں مہنگے داموں کھانے پینے اور منرل
واٹر تک فروخت ہوتا ہے۔ اسکولوں میں کوئی بڑا کھیلنے کا میدان نہیں ہوتا جو
بچوں کی فزیکل ایکٹیویٹی کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ |
|
جب فیسوں میں اضافے کی بات آتی ہے تو اسکول اس بات کی
وضاحت بھی کرنا ضروری نہیں سمجھتے کہ کیوں فیسیں بڑھائی گئی ہیں۔ بڑی ہمت
کر کے کوئی والدین پوچھ بھی لیں تو ان کو اتنی گری پڑی نظروں سے دیکھا جاتا
ہے کہ وہ افورڈ نہیں کر سکتے تو کیوں اس اسکول میں پڑھا رہے ہیں پھر مجبوراً
ان فیسوں کو قبول کرنا ہی پڑتا ہے۔ والدین کی کہیں کوئی شنوائی نہیں ہے۔ |
|
زیادہ تر والدین فیس میں اضافے کو خاموشی سے قبول کر
لیتے ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں والدین (جن کے بچے پرائیویٹ اسکول میں پڑھتے ہیں)
نے پرائیویٹ اسکول مافیا کے خلاف اسکول کے باہر بیٹھ کر احتجاج کیا اور
سوشل میڈیا پر اپنی شکایات کا اظہار بھی کیا تواسکول نے احتجاج کا جواب اس
طرح دیا کہ جو والدین بڑھی ہوئی فیس برداشت نہیں کرسکتے وہ اگلے سال سے
اپنے بچوں کو کسی دوسرے اسکول میں داخل کرائیں۔ یہ بھی اطلاعات تھیں کہ
احتجاج کرنے والے والدین کے بچوں کو بنیادی سہولیات سے محروم کر کے الگ
کلاس رومز میں بٹھایا گیا۔ احتجاج کا مطلوبہ نتیجہ نہ نکلنے کے بعد والدین
نے عدالتوں میں درخواستیں دائر کیں۔ عدالتوں کے چکر کاٹنے کے باوجود
پرائیویٹ اسکول انڈسٹری کا بال بھی بیکا نہ ہوسکا اور وہ دیدہ دلیری کے
ساتھ اپنے بزنس کو دن دگنی رات چوگنی بڑھاوا دے رہے ہیں۔ مزید برآں ان دنوں
بہت سے اسکولوں میں والدین سے ایک ساتھ دو ماہ کی فیس وصول کی جا رہی ہے۔
یہ تنخواہ دار افراد کے لیے انتہائی مشکل ہے کیونکہ وہ تو ماہانہ تنخواہ
پاتے ہیں وہ اپنی کمائی سے اوپر کا خرچہ کہاں سے پورا کریں ۔ |
|
|
|
اسکولوں سے صرف ایک درخواست ہے کہ وہ والدین کو انسان
سمجھیں اور ان کے ساتھ اے ٹی ایم جیسا سلوک نہ کریں۔ زیادہ تر والدین کی
ایک مقررہ آمدنی ہوتی ہے وہ پہلے سے ہی اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلانے کے
لیے جدوجہد کررہے ہیں اور فیسوں میں بار بار اور ضرورت سے زیادہ اضافے کی
وجہ سے اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے کے ساتھ ساتھ خاندان کا گزارہ کرنا مشکل
ہو جاتا ہے۔ اسکول کا کورس بھی اتنا مہنگا ہوتا ہے ساتھ میں ان اسکولوں نے
اپنی کاپیاں چھاپی ہوئی ہیں بچوں کو اجازت نہیں کہ وہ اسکول کی اپنی کاپیوں
کے علاوہ کوئی کاپی استعمال کریں۔ |
|
پرائیویٹ سکول مالکان بچوں کی فیسوں کی مد میں تو بڑی
رقم وصول کرتے ہیں لیکن ان کی اپنی کنجوسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا
سکتا ہے کہ وہ اپنے مطالبات کے مطابق فیس تو وصول کرلیتے ہیں لیکن جب
اساتذہ کی سالانہ انکریمنٹ کی بات آتی ہے تو وہ رونا روتے ہیں کہ والدین
فیسیں نہیں جمع کرواتے۔ پرائیویٹ اسکول قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی
کررہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ کوئی ان سے سوال نہیں کرے گا اور نہ ہی
انہیں چیلنج کیا جائے گا۔ |
|
بہتر ہوگا کہ اگر سالانہ فیسوں میں اضافے کے لیے 5% کی
حد مقرر کی جائے تو اس سے اسکولوں کے آپریشن کو کسی قسم کا خطرہ نہیں ہوگا
اور یہ والدین کے لیے بھی قابل انتظام ہوگا۔ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد اب
تعلیم صوبائی معاملہ ہے اس لئے صوبائی حکومت کو چاہئے کہ پرائیوٹ اسکولوں
کے لئے کوئی سخت ضوابط بنائیں اور ان کو اس پر عمل کرنے کے لئے سختی سے
پابند کریں۔ اسکولوں کے دورے کئے جائیں تاکہ تعلیم معیاری بنائی جا سکے۔ |
|
اگر حکومت بچوں کو گورنمنٹ اسکولوں کے زریعے اچھی تعلیم
فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے تو پرائیویٹ اسکولوں کے سسٹم کو بہتر بنانا
اور ان پر چیک اور بیلنس رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے ان کے ساتھ مل کر
تعلیمی نظام کو بہتر اور معیاری بنائیں۔ |
|
|
|
والدین اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں میں جانے
کے لیے بڑی رقم ادا کرتے ہیں اس کے بعد بھی یہ ناکافی ہوتا ہے کیونکہ اب
ایک 'ٹیوشن کلچر' ہے جو بچوں کو اسکول کے بعد جوائن کرنے پر مجبور کرتا ہے
جس سے والدین پر اضافی مالی بوجھ پڑتا ہے۔ اکیڈمیز میں بھی وہ ہی اسکول
والے اساتذہ پڑھا رہے ہوتے ہیں کیا ان اساتذہ کی زمہ داری نہیں کہ وہ اسکول
ہی میں بچوں پر محنت کریں تاکہ ان کو ٹیوشن لینے کی ضرورت محسوس نہ ہو۔
اتنی فیسیں وصول کرنے کے بعد بھی وہ طلباء کو کیوں نہیں مکمل تعلیم فراہم
کرتے۔ اس میں والدین کا بھی قصور ہے کہ آخر وہ یہ زیادتیاں کیوں برداشت کر
رہے ہیں۔ آپ کے پاس زیادہ پیسہ ہے تو اسی پیسے سے کسی غریب کے بچے کو پڑھا
دیں لیکن معاشرتی ضوابط کو نہ توڑیں اسکول کو ان کی ذمہ داریاں پوری کرنے
دیں۔ |
|
اس وقت اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکول بھیجنے کا
کوئی متبادل نہیں ہے اس کے لئے والدین کو دن رات محنت کر کے اخراجات پورے
کرنے پڑتے ہیں- |
|
حکومت سے گزارش ہے کہ سرکاری اسکولوں کو بہتر
بنانے کے لیے کام کریں تاکہ والدین کو اپنے بچوں کو معیاری تعلیم فراہم
کرنے کے لیے آپشنز نہ دیکھنے پڑیں اور پرائیویٹ اسکولوں کو وزٹ کر کے دیکھا
جائے کہ آیا وہ اچھےاسکولوں کے معیار پر پورے اترتے بھی ہیں کہ نہیں۔ تعلیم
کا مقصد ایک نوجوان ذہن کو تعلیم دینا اور اسے روشن مستقبل کے لیے تیار
کرنا ہے۔ امید ہے پرائیویٹ اسکول تعلیم کو ایک بزنس کے بجائے والدین کے
ساتھ ایک پارٹنر کے طور پر مل کر بچوں کے شاندار مستقبل کی بنیاد ڈالیں گے
تاکہ ایک مستحکم معاشرہ تشکیل پائے۔ |