پروفیسر بشیر احمد قادری کی نعت گوئی اور مقالہ نگاری

پروفیسر بشیر احمد قادری کی نعت گوئی اور مقالہ نگاری

نعت گوئی

پروفیسر بشیر احمد قادری کی نعت گوئی اور مقالہ نگاری
-----------------------------------
پروفیسر بشیر احمد قادری صاحب داتا نگری لاہور میں ہوتے ہیں۔آپ کا شمار وطن عزیز کے اُن اساتذہ میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنی پوری زندگی علم وادب کے فروغ کے لیے وقف کررکھی ہے۔پنجاب یونی ورسٹی لاہور سے اسلامیات اور اردو میں ایم کرنے کے بعد 1974ء میں آپ نے بطور لیکچرار اردو تدریس کا آغاز کیا۔پنجاب کے مختلف کالجوں میں تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد اکتوبر 2007ء میں بطور ایسوسی ایٹ پروفیسرریٹائر ہوئے اور اب 2008ء سے بطور وزیٹنگ فیکلٹی شعبہ اردو ،جی سی یونی ورسٹی ،لاہور میں تدریس میں مصروفیت کے ساتھ شعبہ فائن آرٹس ،پنجاب یونی ورسٹی لاہور ،میں علوم اسلامیہ کے طلبا کو بھی مستفید کررہے ہیں۔
پروفیسر بشیر احمد قادری صاحب تدریس کے ساتھ ساتھ ممبر پاکستان رائٹر گلڈز،ممبر نظر ثانی کمیٹی اور کریلکولیم کمیٹی پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ لاہور،ممبر اسیسمنٹ سسٹم ،ممبر بورڈ آف سڈیز گورنمنٹ کالج (جی سی یونی ورسٹی)لاہور1999ء-2000ء،صدر ممتحن اور پیپر سیٹر جی سی یونی ورسٹی لاہور،اور صدر ممتحن و پیپر سیٹر بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن لاہور،ممبر اپیل کمیٹی ،لاہور بورڈ،صدر ممتحن تعلیمی بورڈ میر پور آزاد کشمیر اور پنجاب یونی ورسٹی میں ایگزامینز کے طور پر بھی منسلک ہیں۔
جناب پروفیسر بشیراحمد قادری جگر گوشہ محدث اعظم پاکستان (حضرت مولانا سردار احمد قادریؒ) حضرت پیر قاضی محمد فضل رسول حیدر رضوی صاحب سے بیعت ہیں۔آپ ہی کے حکم، معاونت اور سرپرستی میں بشیراحمد قادری صاحب نے اپنا اعلیٰ تعلیمی سفر جاری رکھا اور بی،اے اور ایم ، اےاسلامیات و اردو کی تکمیل کی۔ حضرت پیر قاضی محمد فضل رسول حیدر رضوی سے اپنی محبت اور مرشد کی توجہ خاص و نوازشوں کا تذکرہ کرتے ہوئےایک شعر میں کہتے ہیں ؎
مجھ سے ذرے کو مثال ِ ماہ تاباں کردیا
باکرامت بالیقیں ہیں مرشدی فضل رسول
پروفیسر بشیراحمد قادری صاحب کا مزاج شاعرانہ ہے مگر اُنہوں نے شاعری میں کسی کہنہ مشق استاد سے اصلاح نہیں لی۔اَمر واقعہ یہ ہے کہ جو سچے دل سے حضور اکرم ﷺ کی سنت پر عمل پیرا ہوکر،جبین عجزو نیازآپﷺ کی بارگاہ ِ اقدس میں خم کردیتا ہے اور دل میں عشق مصطفیٰ ﷺ کی شمعیں جلاتا ہے، اِذن نعت سرائی اُسے ہی ودیعت ہوتا ہے۔پروفیسر صاحب اُن خوش نصیبوں میں سے ایک ہیں جنھیں اُن کے مرشد کے فیض ِخاص نے دربار رحمت للعالمین ﷺ میں جبیں فرسائی کی سعادت عطا کرکے کسبِ عجزونیاز سے سرفراز کردیا۔آپ کہتے ہیں کہ ؎
شاعر نہیں ہوں نعت کہے جارہا ہوں میں
دریائے کیفیت میں بہے جارہا ہوں میں
بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں نعت گوئی کی سعادت کے باوجود پروفیسر صاحب اِس بات پر بھی کامل یقین رکھتے ہیں کہ مدحت ِسرکار علیہ السلام کا حق کوئی بشرادا نہیں کر سکتا۔اپنے اِس عقیدے کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں ؎
نعت کا حق ادا نہیں ہوتا
کیونکہ بندہ خدا نہیں ہوتا
آپ اپنا فکروفن پوری احتیاط سے حضور اکرم ﷺ کی ثنا گستری کی نذر کررہے ہیں۔اُن کی نعتیہ شاعری میں،تنگی داماں کا احساس،اُمت مسلمہ کی تنزلی کے اسباب،زیاں و عصیاں کی فروگزاشت،استغاثہ والتجا کی کیفیات اوراللہ اور اُس کے حبیب ﷺ کی رحمت و عنایات کی صفات نمایاں ہے۔ اُردو کے علاوہ عربی اور فارسی پر دسترس حاصل ہونے کی وجہ سے پروفیسر صاحب کے نعتیہ کلام میں عربی و فارسی کی چاسنی بھی محسوس کی جاسکتی ہے۔ قرآن مجید و آحادیث مبارکہ کے حوالوں کا استعمال آپ کے کلام کا نمایاں وصف اورآیات قرآنی کو منظوم کرنا آپ کی قادرالکلامی کی دلیل ہے۔جیسے ؎
شاہد ہے اِس پر حضرت عباس کی حدیث
تھا مہد میں بھی چاند کھلونا حضورﷺکا
معطی خدا کی ذات ہے قاسم میرے حضور
ملتا ہے کل جہان کو صدقہ حضورﷺکا
یہ صوفیانہ ماحول میں پرورش اور فیضان مرشد کا ہی اثر ہے جس نے پروفیسر بشیراحمد قادری کو صوفیانہ رنگ میں ایسا رنگ دیا کہ وہ ایک مست صوفی کی طرح ہمہ وقت نعت گوئی میں مستغرق دکھائی دیتے ہیں۔آپ کہتے ہیں ؎
ہونٹ میرے وقف ہوں نعت ِ محمد کے لیے
عمر بھر صلِّ علیٰ،صلِّ علیٰ کرتا رہوں
یا پھر ؎
میری سوچیں مرے افکار سبھی تیرے لیے
میرے لفظوں کے ہیں شہکار سبھی تیرے لیے
آپ کی نعت کے کچھ خوبصورت اشعار درج ذیل ہیں۔
آغوش میں لے لیتا ہے اِک نور کا ہالہ
جب لکھنے لگوں مدحتِ سرکار مدینہ
دنیا میں کسی اور پہ کیوں ناز کروں میں
کافی ہے مجھے نسبت ِ سرکار مدینہ
پروفیسر بشیراحمد قادری صاحب کو محدث بریلوی مولانا احمد رضا خان سے بھی خصوصی عقیدت ہے۔جس کا اظہار ان کےدرج ذیل شعر میں نمایاں ہے ؎
ملا ہے جو امام احمد رضا کو
وہ رنگ آشنائی چاہتا ہوں
پروفیسر بشیراحمد قادری صاحب نے مولانا احمد رضا خان بریلوی کی اُردو نعت گوئی پر ایم اے مقالہ لکھا۔اِس کے علاوہ کشف المحجوب کے اُردو تراجم مقالہ،افسانوی ادب (بی اے) مرتبہ ڈاکٹر سہیل احمد خاں میں بطور معاون کار رہے۔آپ کی شاعری اور تنقیدی و تحقیقی مضامین ملک کے مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔
"صحیفہ عقیدت"
آپ کی حمدونعت و منقبت پر مبنی شاعری کا پہلاخوبصورت مجموعہ کلام ہے جو 2018ء میں"الحقائق پبلی کیشنز"لاہور سے شائع ہوا۔118 صفحات پر محیط یہ نعتیہ مجموعہ کلام محبت و عشق رسول ﷺ کی سرشاری کے ساتھ وجدان و خود آگہی جذب و جنون، شوق و آرزو مندی، درد و سوز اور جستجو و مستی کی کیفیت سے مزین ہے۔
"اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان بریلوی کی نعت گوئی"
حال ہی میں آپ کا 498 صفحات کو محیط ایم ،اے کامقالہ بعنوان"اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان بریلوی کی نعت گوئی"بھی "الحقائق پبلی کیشنز"لاہور ہی سے شائع ہوا ہے۔اِس مقالے پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے مولانا ریحان رضا رحمانی لکھتے ہیں:"نعت گوئی میں اعلیٰ حضرت کا وہ مقام ہے جس تک بہت کم لوگوں کی رسائی ہو سکی۔آج اعلیٰ حضرت کا کلام نہ صرف ہندوپاک میں بلکہ یورپ و امریکہ۔ماریشس و افریقہ اورعرب ممالک میں نہایت ذوق وشوق سے پڑھا جاتا ہے یہ ہمہ گیر مقبولیت جو دلیل ہے کہ آپ کے کلام کو دربار مصطفیٰ ﷺسے سند قبولیت حاصل ہوچکی ہے۔ "ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی کہتے ہیں کہ :"اگرچہ یہ مقالہ ایم،اے کے لیے لکھا گیا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر پی ،ایچ ،ڈی کے لیے پیش کیا جاتا تو بھی اسے ڈگری ایوارڈ ہوجاتی۔
پروفیسر بشیراحمد قادری وجہ تصنیف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مولانا احمد رضا خان بریلوی کی"شخصیت کے ساتھ بے اعتنائی اس مقالے کا محرک بنی۔"آپ لکھتے ہیں کہ"جب میں نے ایم اے اردو میں داخلہ لیا اور اردو ادب کا مطالعہ کیا تو یہ دیکھ کر دلی افسوس ہوا کہ اس حقیقت پسندانہ دور میں بھی ،جبکہ بے تعصبی اور وسیع النظری کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے ،مولانا احمد رضا خان بریلوی جیسی عظیم دینی،علمی اور ادبی شخصیت کو تعصب اور تنگ نظری کے سیاہ دھندلکوں میں چھپانے کی کوشش کی گئی ہے۔اُن لوگوں نے بھی جنھوں نے نعتیہ ادب پر خامہ فرسائی کی ہے جناب احمد رضا بریلوی سے بے اعتنائی برتی۔
مثلاً رئیس احمد جعفری نے "اقبال اور عشق رسول"میں جو نعت گوئی کا خاکہ پیش کیا اُس میں رضا بریلوی کا نام تک لکھنے کی تکلیف گوارا نہیں کی۔اسی طرح محترمہ عاتکہ نے "اردو شاعری میں نعت گوئی"پرمقالہ لکھا تو بجائے اس کہ جناب رضا بریلوی کے نعتیہ دیوان کا خود مطالعہ کرتیں افتخار اعظمی کے الفاظ کو جوں کا توں درج کردیا ہے جو اختلاف مسلک کی وجہ سے آپ کو ہمیشہ تنگ نظری کی عینک لگاکر دیکھتے رہے ۔"
یہی وہ اصل عوامل تھے جس کے سبب پروفیسر بشیراحمد قادری صاحب نے 1972ء- 1973ء میں اُس وقت جبکہ مولانا احمد رضا خان بریلوی کا نام کالج اور یونی ورسٹی سطح پرلینا تو دور کی بات اُن کی ذات پر مقالہ تحریر کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔
پروفیسر بشیراحمد قادری صاحب کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ نے اُس مشکل دور میں مولانا احمد رضا خان بریلوی کی نعت گوئی پر یہ تحقیقی مقالہ تحریر کیا۔ پروفیسر صاحب اس حوالے سے یقیناً قابل ستائش اور مبارکباد کے مستحق ہیں۔
"اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان بریلوی کی نعت گوئی"پانچ ابواب"سوانح و شخصیت "،"فن نعت گوئی"،"تاریخ نعت گوئی"،"مولانا احمد رضا بریلوی کے دیوان اور دیگر کلام کا مجموعی جائزہ" اور "مولانا احمد رضا بریلوی کی نعت گوئی کے ادبی محاسن"پر مشتمل لائق مطالعہ اور خاصہ کی چیز ہے۔ 1972ء-1973ء میں اِس تحقیق کے دوران دو سو سے زائد کتب ورسائل کو بطور حوالہ استعمال کرنا پروفیسر بشیراحمد قادری صاحب کی وسعت نظری اور وسیع المطالعہ ہونے کی دلیل ہے۔
حرف آخر میں آپ اس اَمر پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ گو کہ مولانا احمد رضا خان بریلوی کے کلام کا ایک ایک شعر اِس بات کا متقاضی تھا کہ اُس کی خوبیوں کو اجاگر کیا جاتا اور تلمیحات کے حسن کا جائزہ لیا جاتا۔ علاوہ ازیں مولانا کے فن کی گہرائی،اُن کے افکار خیالات کی قوت و تاثیر،طرز ادا کی جدت و ندرت، اُن کے نظریہ حیات کی وسعت اور مولانا کےانداز سخن گوئی کی انفرادیت پر بھی کچھ لکھا جاتا،مگر خوف طوالت دامن گیر رہا۔یہی وجہ ہے کہ پروفیسر بشیراحمد قادری مولانا احمد رضا خان بریلوی کے کلام پر مزید کام کرنے کے خواہشمند ہیں۔اور عصر حاضر کے محقیقین،اہل ذوق اور نقادوں سے ملتمس ہیں کہ وہ آپ کے کلام کی طرف متوجہ ہوں اور نظریاتی اختلافات کے محدود دائرے سے نکل کراورتعصب و تنگ نظری سے بالاتر ہوکر ہر اُس تخلیق کا جائزہ لیں جس میں قوم و ملت کا فائدہ نظر آئے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ تخلیق و تنقید اور تحقیق و تفتیش کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔اور کوئی بھی کوشش حرف آخر نہیں ہوتی۔ یہ محقیقین کی صلاحیتوں پر منحصر ہے کہ وہ دریائے تحقیق میں کتنی گہرائی تک غوطہ زن ہوتے ہیں اور خیال و فکر کے کیا کیا موتی پروتے ہیں۔
پروفیسر بشیراحمد قادری صاحب کا ایم اے کایہ تحقیقی مقالہ "اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان بریلوی کی نعت گوئی" اور نعتیہ مجموعہ کلام "صحیفہ عقیدت" آج ہمیں جناب کی جانب کی سے تحفتاً موصول ہوا۔جس پر ہم پروفیسر بشیراحمد قادری صاحب کے بے انتہا شکرگزار اور دعا گو ہیں کہ رب کریم آپ کو دین و دنیا کی آسانی و فروانی عطا فرمائے ۔آمین بحرمۃ سیدالمرسلیٰن ﷺ
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 319 Articles with 358231 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More