جھوٹ ،سیلاب زدگان اور ہماری بے حسی


اخبار کہندا اے ، ملک ، اچھا اخبار کہندا اے تے ٹھیک ہوسی ، یہ جملہ پی ٹی وی پشاورہندکو کے ایک مشہور ڈرامے "دیکھ دا جاندارے " کا ہوا کرتا تھا جو کم و بیش تین دہائی قبل بہت زیادہ مشہور تھا اور یہ واحد ہندکو ڈرامہ تھا جو نہ صرف ہندکو زبان سمجھنے اور بولنے والوں میں مقبول تھا بلکہ اسے اردو اور پشتو زبان بولنے والے بھی بہت زیادہ سراہا کرتے تھے.اللہ مغفرت کرے ہمارے دوست اداکار صلاح الدین جو واقعی بڑے فنکار ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین انسان بھی تھے اس ڈرامے کے کچھ خاکوں میں مرکزی کردار ادا کرتے تھے ، ان میںایک خاکے میں بات ہوتی کہ " اخبار کہندا اے ، ملک ، تو اس کے جواب میں صلاح الدین جواب دیتے کہ اخبار کہندا اے تے ٹھیک ہی ہوسی..

اتنی لمبی تمہید تین دہائیاں قبل اخبارات کے حوالے سے عام لوگوں کے تاثر کے بارے میں بتانا تھا کہ اخبار ات کے حوالے سے یہ بات عام تھی کہ جو بات اخبار میں آئی ہے وہ ٹھیک ہوگی پھر وقت بدل گیا اور الیکٹرانک میڈیا کا دور آیا ، خبر میں خبریت تو نہیں رہی البتہ ڈرامہ نگاری آگئی اور جس کی جتنی آواز اچھی ہوئی ، اتنی اچھی اداکاری کی ، جتنا اچھا سکرپٹ لکھا بس وہی پیکج ٹی وی پر چل گیا ، بھلے سے کسی ڈانس مقابلے پر بنایا گیا ہو لیکن ایشوز پر بات کرنے کی ہمت اور سچ دکھانے کی ہمت الیکٹرانک میڈیامیں بھی نہیں رہی.عوام خوار ہوتے رہے اور حکمران عیاشیاں کرتے رہے. اور پھر الیکٹرانک میڈیا کی جگہ سوشل میڈیا نے لے لی.اس میڈیم کے آغاز میں یہ کہا گیا تھا کہ یہ متبادل ہے اور بالکل یہ متبادل ہے لیکن اس جھوٹ کا جو ہم الیکٹرانک میڈیا پر نہیں بول سکتے اب سوشل میڈیا پر مختلف سیاسی پارٹیوں کے لوگ آسانی سے بول دیتے ہیں. وہ گند جسے عام الیکٹرانک میڈیا پر کوئی دیکھ بھی نہیں سکتا، وہی اس میڈیم کے ذریعے آسانی سے کہیں پر بھی دیکھ سکتا ہے . اس لئے اب یہ تاثر بھی آہستہ آہستہ پیدا ہورہا ہے کہ جو کچھ سوشل میڈیا پر چل رہا ہے جن میں بیشتر مختلف سیاسی پارٹیوں کا ہی گند ہے وہ سارا جھوٹ پر مبنی ہے.

عام عوام اور سیاسی پارٹیوں سے وابستہ لوگ الیکٹرانک میڈیا سے یہ گلہ کرتے نظر آتے تھے کہ وہ عوام کے حقیقی مسائل پر بات نہیں کرتے ، لیکن اب تو سوشل میڈیا ان کے پاس ہے ، سوئچ بھی انہی کے پاس ہے کیا وہ سچ بتا رہے ہیں کیا وہ اس ملک کے عوام کے حقیقی مسائل کو سامنے لا رہے ہیں ، کیا عوام اور کیا سیاسی پارٹیاں اور کیا صحافی ان چیزوں کی نشاندہی کررہے ہیں جو اس معاشرے میں کینسر کی طرح پھیل رہی ہیں. جھوٹ کی بہتات نے سچ کو دھندلا کردیا ہے ، ایک دور میں اخبارات میں سب سے زیادہ چھاپنے کا ریکارڈ ہوتا ، کس اخبار میں سب سے زیادہ اشتہار آیا ، کس کی سرکولیشن زیادہ ہے اسی بنیاد پر کام ملتا اور ریٹس لگتے پھر الیکٹرانک میڈیا میں ریٹنگ کا چکر آیا ، ریٹنگ کیلئے مخصوص میٹر کراچی ، لاہور اور فیصل آباد میں لگائے گئے ، اور اسی بنیاد پر ریٹنگ ہوتی رہی جبکہ اب سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ کا چکر چل رہا ہے ، جو زیادہ ٹرینڈ کو فالو کررہا ہے اس کو فائدہ زیادہ مل رہا ہے ، کیا صحافی اور کیا صحافتی ادارے ، انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ وہ کتنا جھوٹ پھیلا رہے ہیں اور اس مہم کا حصہ بن رہے ہیں .

کیا یہ سچ نہیں کہ پورا ملک بشمول بلوچستان ، سندھ ، پنجاب ، خیبر پختونخواہ اور گلگت بلتستان سمیت بیشتر علاقے بارش کے سبب آنیوالے سیلاب سے متاثرہ ہیں ، لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں جن کی دیکھ بھال ریاست کی ذمہ داری ہے ، ہزاروں مال مویشیوں سمیت گھر املاک سب کچھ برباد ہو چکا ہے لیکن یہ سچ کسی کو نظر نہیں آرہا نہ ہی کسی صحافی کو ، نہ ہی کسی سیاسی پارٹی کی سوائے چند ایک نیم مذہبی نیم سیاسی پارٹی کے ، ہر کوئی اپنی ڈفلی بجا رہا ہے ، لوگ مررہے ہیں ، لیکن سیلاب میں مرنے والوں کی لاشیں کسی کو نظر نہیں آرہی ، الیکٹرانک میڈیا سے لیکر اخبارات اور اب سوشل میڈیا پر یہ سچ کسی کو نظر نہیںآرہا. ہاں نظر آرہا ہے تو ..
اسلام آباد میں بیٹھے سیاسی پارٹیوں کو اپنی کرسیاں نظر آرہی ہیں انہیں سیلاب میں مرنے والوں کا کوئی غم نہیں ، انہیں آئی ایم ایف کی جانب سے دی جانیوالی ہدایات کا کوئی غم نہیں ، انہیں بے بس عوام پر ٹیکسوں کی بھر مار نظر نہیں آرہی ، ان سیاسی پارٹیوں اور ان کے مداری لیڈروں کو نظر آتا ہے تو صرف اور صرف اس وقت اسٹبلشمنٹ ، نیوٹرل، مخصوص پارٹی اور ان کے مداری لیڈر ، مداری اس لئے کہ جس طرح کسی میلے میں مداری ڈفلی بجا کر اپنا دکان سجانے کی کوشش کرتا ہے بس یہی صورتحال پاکستان کی ہے اس میلے میں ہرسیاسی پارٹی کا مداری اپنی ڈفلی بجا کر اپنی دکانداری چمکا رہا ہے انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ پورا پاکستان ڈوب رہا ہے. انہیں غم ہے کہ ان کی دکانداری چلتی رہے.اور انہیں وزارتیں ملتی رہے ، کیا پرانے ڈرامے باز اور کیا نیا ، سارے اس کھیل میں یکساں طور پر شریک ہیں.

سوائے ایک نیم مذہبی نیم سیاسی پارٹی کے کسی کو سیلاب زدگان کی پروا ہی نہیں ، کچھ عرصہ قبل انہوں نے بھی بڑی تندہی سے کام کیا تھا کچھ عرصہ قبل سیلاب کی صورتحال پر شہر شہر میں عام لوگوں نے بھی دل کھول کر سیلاب متاثرین کی دامے درمے سخنے مدد کی تھی ، کوئی راشن لیکر آرہا تھا تو کوئی سامان ، کوئی گھر کے استعمال کی اشیاء ، جنہیں بعد میں یہ تنظیمیں سیلاب سے متاثرہ لوگوں میں تقسیم کرتی تھی .مساجد میں باقاعدہ دعائیں مانگی جاتی تھیں کہ اللہ تعالی ہمارے حال پر رحم فرمائے . جبکہ اب تو مذہبی پارٹی ایک لحاظ سے کام کررہی ہیں لیکن عوام بھی سوئی ہوئی ہیں ، مساجد میں پیش امام بھی خوابیدہ ہیں ، کہیں پر سیلاب متاثرین کیلئے دعائیہ کلمات تک نہیں نکلتے ، نہ ہی کوئی یہ تلقین کرتا نظر آتا ہے کہ اپنے بس کے مطابق سیلاب زدگان کی مدد کی جائے.کیا ہم بے حس ہو چکے ہیں یا پھر ہمارے دلوں پر اللہ تعالی نے پردہ ڈال دیا ہے.. استغفر اللہ

ہماری مسلمانی صرف کلمہ ، نماز ، روزہ اور زکواہ سمیت حج ، رکھنے تک ہی رہ گئی ہیں ، کیا بحیثیت قوم کی ہم پر کوئی ذمہ داری نہیں ، کیا بحیثیت انسان ہم پر دوسرے انسان کی مدد لازم نہیں اور کیا بحیثیت مسلمان ہماری یہ ذمہ داری نہیں کہ سیلاب سے متاثر ہ عوام کیلئے پہلے دعا کریں کہ اللہ تعالی ان سمیت ہم سب پر رحم کرے ، پھر ان کیلئے اپنے بس کے مطابق آواز اٹھائیں .خواہ وہ کسی بھی فورم پر ہوں ، اخبارات پر ، الیکٹرانک میڈیا پر یا سوشل میڈیا پر .تاکہ کم از کم سیلاب سے متاثرہ ان بے چاروں کیلئے کچھ تو ہم کرسکیں..
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 422538 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More