مسلم لیگ ن کی جانب سے کچھ دنوں سے قوم کو یہ باور کرانے
کی کوشش کی جارہی ہے کہ لندن میں رہائش پذیر سابق وزیراعظم نواز شریف ستمبر
میں پاکستان واپس آکر ایکبار پھر مسلم لیگ ن قیادت کرتے ہوئے سیاست میں حصہ
لیں گے جس پر کچھ حلقوں کو اس بات کی حیرت ہے کہ نواز شریف کس طرح پاکستان
کی سیاست میں حصہ لے سکتے ہیں ‘ کیسے مسلم لیگ ن کی قیادت کرسکتے ہیں
اورکیوں کر الیکشن میں حصہ لے سکتے ہیں ؟
کیونکہ ایک جانب تو نوازشریف ضمانت پر رہا ہوکر علاج کیلئے لندن گئے تھے تو
دوسری جانب عدالت انہیں تا حیات نا اہل کرچکی ہے۔
پھر وہ کون سا فارمولہ ہے جس کے تحت نواز شریف وطن واپس آکر جیل کی سلاخوں
کے پیچھے جانے کی بجائے دوبارہ سیاست ‘ قیادت اور حکومت کی اہلیت حاصل کرنے
میں کامیاب ہوجائیں گے ؟
اس حوالے سے اگر میری ناقص رائے لی جائے تو میری نظر میں وہ فارمولہ ہے
دوتہائی اکثریت سے قانون سازی کرتے ہوئے نوازشریف کو واپس سیاست ‘ قیادت
اور حکومت کی اہلیت دلادی جائے مگر مسلم لیگ ن کے پاس دوتہائی اکثریت نہیں
ہے تو پھر وہ کس طرح یہ کام کرپائے گی۔
اس حوالے سے سوچاجائے تو مسلم لیگ ن کے پاس حکومت بھی نہیں تھی مگر اسے
حکومت مل گئی اب جب حکومت مل گئی ہے تو دوتہائی اکثریت بھی مل جائے گی
کیونکہ نوازشریف کی وطن واپسی کی راہیں ہموار کرنے والی قوتوں نے جب مسلم
لیگ ن کو حکومت دلائی ہے تو دو تہائی اکثریت بھی دلائے گی۔
مگر کس طرح دلائے گی ؟
یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ہمیں پاکستان کے سیاسی حالات بڑی آسانی سے دے رہے
ہیں۔
اس کھیل کا آغاز عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد سے ہو ا
عدم اعتماد کے نتیجے میں عمران خان ایوان وزیر اعظم سے تو باہر ہوگئے
مگر عمران خان اور ان کی جماعت ابھی بھی ایوان اقتدار میں موجود ہے
کیونکہ انہیں نوازشریف کی سیاست ‘ قیادت اور حکومت کی اہلیت کیلئے درکار دو
تہائی اکثریت میں حصہ ڈالنا ہے۔
اسی مقصد کیلئے الیکشن کمیشن نے فارن فنڈنگ کیس میں پی ٹی آئی اور عمران
خان کیخلاف فیصلہ دیکر نااہلیت کی تلوار عمران خان کے گلے پرلٹکادی جس کا
ڈھنڈورا مسلم لیگ ن پوری قوت سے پیٹ رہی ہے۔
دوسری جانب عمران خان کے مشیروں اور رفقائ کے ذریعے عمران خان کو ایسے تیز
و تند بیانئے کی ڈگر پر ڈال دیا گیا جس سے عوامی حمایت کا حصول تو ثابت
ہوتا ہو مگر اداروں کیساتھ محاذ آرائی کی کیفیت بھی دکھائی دے۔
پھر شہباز گل کو متنازعہ میڈیا ٹاک کے ذریعے عمران خان کیلئے نشان عبرت
بناکر دکھایا جارہا ہے کہ اس سلوک کی ٹرین کے اگلے ڈبے میں تمہیں بھی سوار
کرایا جاسکتاہے۔
عمران خان کی حالیہ تقاریر میں تبدیل ہوتا ہوا ان کا لب و لہجہ یہ بات ثابت
کررہا ہے کہ وہ حالات و واقعات اور اقدامات کے ذریعے ملنے والے پیغام کو
بخوبی سمجھ رہے ہیں اور قرائن بتارہے ہیں کہ عصر حاضر میں پاکستان کے مقبول
ترین سیاسی قائد عمران خان اس خوف میں مبتلا ہونے لگے ہیں جو نوازشریف کو
دوتہائی اکثریت سے اہل قرار دلانے کیلئے ضروری ہے۔
اگر شہبازگل جیسے ایک دو جھٹکے اور پی ٹی آئی اور عمران خان کو مل گئے تو
ایوان اقتدار سے باہر عوامی سیاست کرنے والی پاکستان تحریک انصاف اور اس کے
قائد عمران خان اپنی بقا کی خاطر واپس اسمبلی میں جانے پر مجبور ہوجائیں گے
اور ایوان میں دوتہائی اکثریت سے نوازشریف کی نااہلی ختم کرانے والی مہم کا
حصہ بن جائیں گے!
بصورت دیگر عمران خان کے وزیراعظم بننے سے بہت پہلے ہی بہت سے نجومی یہ بات
بتاچکے ہیں کہ عمران خان قتل کردیئے جائیںگے مگر کسی نے یہ نہیں بتایا کہ
وہ لیاقت علی خان اور بینظیر بھٹو کی طرح عوام میں مارے جائیں گے یا
ذوالفقار علی بھٹو کی طرح زندان کے پیچھے زندگی گنوائیں گے۔
|