مال و اٙعمال کی تجارت اور جنت کی بشارت !!

#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورٙةُالصف ، اٰیت 10 تا 14 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اٙفراد اٙستفادہ کرتے ہیں !!
برائے مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
یٰایھا اٰمنوا
ھل ادلکم علٰی تجارة
تنجیکم من عذاب الیم 10
توؑمنون باللہ و رسولہ و تجاھدون
فی سبیل اللہ باموالکم و انفسکم ذٰلکم
خیر لکم ان کنتم تعلمون 11 یغفرلکم ذنوبکم و
یدخلکم جنٰت تجری من تحتہا الانھٰر و مسٰکن طیبة فی
جنٰت عدن ذٰلک الفوز العظیم 12 و اخرٰی تحبونہا نصر من اللہ
و فتح قریب و بشر الموؑمنین 13 یٰایھا الذین اٰمنوا کونوا انصار اللہ
کما قال عیسٰی ابن مریم للحواریین من انصاری الی اللہ قال الحواریون
نحن انصاراللہ فاٰمنت طائفة من بنی اسرائیل و کفرت طائفة فایدنا الذین
اٰمنوا علٰی عدوھم فاصبحوا ظٰھرین 14
اے ایمان دار لوگو ! کیوں نہ ہم تُم کو تجارت کے اُس راز سے آگاہ کردیں کہ جس راز کے تحت کی گئی تجارت تُم کو غمِ جان و جہان سے نجات دے دے اور وہ راز ایمان بالتوحید و ایمان بالرسالت کے بعد اپنا مال اور اپنی جان راہِ حق میں لگانے کی وہ لگن ہے جس لگن کے بدلے میں تُماری خطا پوشی و خطا بخشی ہو جاتی ہے اور ہماری یہی مہربانی تُم کو اُن آبی و انہاری جنتوں تک لے جاتی ہے جن جنتوں سے تُم کو کوئی بیدخل نہیں کرسکے گا اور تُمہارے لئے ایک مزید خوش خبری یہ ہے کہ تُمہارے بعد تُمہاری جو بھی جماعت اِس راستے پر چلتے ہوئے ہماری اِن جنتوں کی طرف آئے گی وہ جماعت بھی اُن جنتوں کی حق دار ہو جائے گی ، اگر تُم عیسٰی ابنِ مریم اور اُن کی اُمت کے اِس واقعے پر غور کرو گے تو ہماری یہ بات تُم کو زیادہ بہتر طور پر سمجھ آجائے گی کہ ایک بار جب عیسٰی ابنِ مریم نے اپنی اُمت سے سوال کیا کہ تُم میں کون کون ہے جو اللہ کی مخلوق کے لئے مالی و جانی مدد دے کر اپنے لئے اللہ سے مالی و جانی مدد لینا چاہتا ہے جس پر بہت سے اہلِ دل نے اللہ کی مخلوق کے مدد کا اقرار کر لیا جس کے بعد کُچھ لوگ تو زندگی بھر اپنے اِس اقرار پر قائم رہے اور کُچھ لوگ زیادہ دیر تک اپنے اُس اقرار پر قائم نہ رہ سکے اور جو لوگ اپنے اِس اقرار پر قائم رہے اُن کو ہم نے انکار کرنے والوں پر غالب کردیا !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
انسان کا اِس جہان میں مقصدِ حیات ہر گز یہ نہیں ہے کہ وہ خُدائے رحمٰن و رحیم کی ایک خیالی سزا سے خوف زدہ ہو کر اپنی اُس خیالی عبادت میں جُت جائےکہ اُس کے ارد گرد کا کوئی جان دار بُھوک پیاس یا کسی اور جسمانی احساس سے تڑپ تڑپ کر اپنی جان سے گزر جائے لیکن وہ عبادت گزار انسان اپنی عبادت میں مُنہمک رہے بلکہ اِس جہان میں انسان کا مقصدِ حیات یہ ہے کہ انسان اپنی حیات اور جہان کے دیگر اہلِ حیات کی حیات کی اپنی جان کے ذریعے اور اپنے مال کے ذریعے زندگی کی آخری سانس تک حفاظت کرے ، اِس سُورت کے اِس دُوسرے اور آخری مضمون کی پہلی اٰیت میں حرفِ سوال { ھل } کے بعد واحد مُتکلم جو صیغہ { ادلکم } وارد ہوا ہے اُس سے اُس کلام کا وہ مُتکلم مُراد ہوتا ہے جو اپنے علم کی بنا پر بائع اور مُشتری دونوں کی ضروریات سے آگاہ ہوتا ہے اور وہ بائع اور مُشتری دونوں ہی کو اپنی اُسی علمی آگہی کی بنا پر تجارت کے نفعے اور تجارت کے نقصانات سے ایک علمی آگاہی دیتا ہے تاکہ وہ دونوں جو بھی تجارتی لین دین کریں اُس تجارتی لین دین میں دونوں ہی اپنا اپنا جائز نفع حاصل کریں اور دونوں ہی خسارے سے بچ جائیں اور اٰیت ہٰذا میں اِس کلام کا مُتکلم چونکہ خود اللہ تعالٰی ہے اور اللہ تعالٰی نے انسان کو جس منفعت بخش تجارت کا مشورہ دیا ہے اُس مشورے کے سمجھنے میں تو انسان غلطی کر سکتا ہے لیکن اُس مشورے کو سمجھنے کے بعد اُس مشورے پر جو انسان عمل کرتا ہے اُس کے اُس عمل کا نتیجہ نفعے کے سوا کُچھ اور ہو ہی نہیں سکتا ، اِس اٰیت میں تجارت کا جو لفظ آیا ہے اُس سے مُراد قدیم اہلِ تجارت کا مالِ تجارت سے حاصل ہونے والا وہ متوقع نفع ہے جو اُن کے تجارتی راس المال کی گردش کے ساتھ گردش کر کے اُن تک پُنہچتا رہتا ہے اور یہ وہی تجارت ہے جس کو جدید بنکاری نظام میں ایک گردش پزیر نفع بخش سرمایہ کاری کے نام سے مُتعارف کرایا گیا ہے لیکن عملی طور پر اِس سرمائے کی اِس گردش میں ہونے والی یہ گردش مالِ تجات لگانے والے کی طرف کبھی نہیں ہوتی بلکہ اِس کی گردش ہمیشہ ہی تجارت کے اُس مالِ تجارت کو گردش د لانے والے کی طرف ہوتی ہے جو مالِ تجارت کا ایک شاطر حصے دار ہوتا ہے لیکن اٰیتِ بالا میں اللہ تعالٰی نے اہلِ ایمان کو جان و مال کی جس منفعت بخش تجارت سے متعارف کرایا ہے اُس تجارت میں نفع لینے والا فریق انسان ہے اور نفع دینے والا فریق خود اللہ تعالٰی ہے جس نے فتحِ مکہ کے بعد اہلِ ایمان کو یقین دلایا ہے کہ فتحِ مکہ سے پہلے مدینے کی اسلامی ریاست میں اُن کو انسانی خیال و خدمت کے جو انسانی ضابطے سکھائے اور سمجھائے گئے تھے فتحِ مکہ کے بعد بھی اُنہوں نے انسانی منفعت کے اُن ہی آفاقی ضابطوں کو ہمیشہ اِس طرح اپنے پیش نظر رکھنا ہے جس طرح وہ اپنے مالِ تجارت میں اپنے نفعے کے تجارتی ضابطوں کو ہمیشہ اپنے پیشِ نظر رکھتے ہیں اور اِن ضابطوں کے نتیجے میں انسان کو جن جٙنات کا مالک بنایا جاتا ہے اُن جٙنات کے ملنے کی جو پہلی ابتدا اسی دُنیا سے ہوتی ہے وہ پہلی ابتدا موت کے بعد ملنے والی حیات کی اُس آخری انتہا تک انسان کے ساتھ جاتی ہے جس آخری انتہا تک انسان جاتا ہے اور اِس دُنیا اور اُس عُقبٰی میں ملنے والے سکونِ جنت و سکونتِ جنت کی یہی وہ حیات ہے جو اٙنصارِ محمد علیہ السلام کو انصارِ مسیح علیہ السلام کے تاریخی کردار کے حوالے سے سمجھائی گئی ہے اور اِس سُورت کے خاتمہِ کلام کی اِن اٰیات میں انسان کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ زمین کا نظام اللہ کے دین کے نام پر قائم ہو یا کسی انسانی آئین کے نام پر قائم ہو ، زمین کا جو نظام مخلوق کی خدمت کے لئے ہوتا ہے اُس نظام کو اِس جانے والی دُنیا سے موت کے بعد آنے والی دُنیا تک دوام ملتا ہے لیکن جو نظام انسان کی شخصی خواہش کے تابع ہوتا ہے وہ نظام جلد ہی زمین سے مٹا دیا جاتا ہے اِس بات سے قطع نظر کہ اُس نظام کی ظاہری صورت ایک مومنانہ نظام کی ہوتی ہے یا ایک کافرانہ نظام کی ہوتی ہے ، زمین پر ایک کافرانہ نظر آنے والا جو نظام مخلوق کی فلاح کا اہتمام کرتا ہے اُس کافرانہ نظام کی کافرانہ حیثیت اُس نظام کے لئے ایک ڈھال ہوتی ہے لیکن ایک مومنانہ نظر آنے والا جو منافقانہ نظام مخلوق کی فلاح کے اہتمام سے تہی ہوتا ہے اُس منافقانہ نظام کی حیثیت اُس منافقانہ نظام کے لِئے وہ نادیدہ وبال ہوتی ہے جو اپنے حاملینِ نظام کے اعمال و افعال کو حرکت و برکت سے اِس طرح محروم کردیتی ہے کہ اُس نظام کے زیرِ انتظام رہنے اور جینے والے انسانوں کی نیت بھی کبھی بھرتی ، بُھوک بھی کبھی نہیں مٹتی اور اُن کی تشنگی بھی کبھی ختم نہیں ہوتی کیونکہ اُس نظام کے ساتھ چلنے والے درحقیقت خُدا کے وہ مجرم ہوتے ہیں جن پر جن کی حرص و ہوس قُدرت کی طرف سے مُسلط کی ہوئی وہ اٙبدی سزا ہوتی ہے جس اٙبدی سزا کو وہ اِس جانے والی حیات میں بھی سہتے ہیں اور اِس کے بعد آنے والی حیات میں بھی سہتے رہتے ہیں !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 557956 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More