بسم اﷲ الرحمن الرحیم
معاشرتی زندگی میں پیار و محبت اور آپس میں تعلق و علاقہ کے بڑھانے میں
باہمی ہدایا و تحائف اور گفٹ وغیرہ کے تبادلے کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ دوست
احباب، عزیز و اقارب ،رشتہ داروں، محلے داروں اور استاد شاگرد سے خلوص
ومحبت کا اظہار کرنے اورمحبت کو اور زیادہ بڑھانے کے لیے تحفے تحائف اور
ہدایا وغیرہ کا تبادلہ باہمی دلوں کے جوڑنے کا حیرت انگیزجادوئی نسخہ ہے۔
چناں چہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا رشاد ہے :’’ایک دوسرے کو تحفے دیا کرو
(تاکہ) باہمی محبت قائم ہوسکے۔‘‘ (مؤطا امام مالک:1264)
ایک دوسری حدیث میں آتا ہے ،حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ سول اﷲ
صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: ’’آپس میں ایک دوسرے کو ہدیے تحفے دیا
کرو کیوں کہ ہدیے تحفے دلوں سے کینہ نکال دیتاہے۔’’(معجم ابن المقریٔ: 460)
اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ آپس میں ہدیے تحفے دیاکرو، کیوں کہ ہدیہ سینوں
کی کدورت ورنجش کو دُور کرتاہے اور ایک پڑوسن دوسری پڑوسن کے ہدیہ کو حقیر
نہ سمجھے اگرچہ وہ بکری کے کھر ہی (کا ہدیہ) کیوں نہ ہو ۔ (جامع
ترمذی:2130)
چناں چہ حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اگر مجھے بکرے کے ایک پائے کا ہدیہ دیا جائیتو میں
اسے قبول کرلوں گا، اور اگر مجھے دعوت دی جائے تو میں اس پر حاضر ہوں گا۔‘‘
(جامع ترمذی:1338)
حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے
ارشادفرمایا: ’’تحفہ میں تین چیزیں واپس نہ کی جائیں: (۱) تکیہ(۲) خوشبو
(۳) اور دودھ۔‘‘ (جامع ترمذی: 2790)
ہمارے معاشرے میں یہ بیماری عام ہے کہ شادی خوشی وغیرہ کے موقع پر دوسروں
کو بہت سارے تحفے تحائف دیئے جاتے ہیں، پھر اگر معاملات کسی وجہ سے بگڑ
جاتے ہیں تو وہ تحفے تحائف واپس کرنے کا کہا جاتا ہے ، حالاں کہ شریعت کی
رُو سے ایسا کرنا حرام اور ناجائز ہے ۔
چناں چہ حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم
نے ارشاد فرمایا: ’’ہمارے لئے یہ بری مثال نہیں ہونی چاہیے کہ جو کوئی ہدیہ
کرکے اس کو واپس لے وہ اُس کتے کی طرح ہے جو قے کرکے اسے چاٹ لیتاہے۔‘‘
(صحیح البخاری: 2621)
آج دنیا اس قدر بدل چکی ہے کہ لوگ ہدیہ اﷲ کی رضا کے لیے نہیں بلکہ اپنے
مفاد کے لئے دیتے ہیں۔ چناں چہ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اﷲ فرماتے ہیں
کہ ہدیہ تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوا کرتا تھا آج کل تو
یہ رشوت کا روپ دھار چکا ہے۔ (سیرت عمر بن عبد العزیز، ص:212)
اسی طرح ہمارے معاشرے میں یہ بات بھی مشہور ہے کہ کسی کا دیا ہوا تحفہ آگے
کسی اور کو نہیں دے سکتے، حالاں کہ شریعت میں ایسی کوئی ممانعت نہیں ہے۔
چناں چہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو
ایک ’’حلہ‘‘(چادروں کا جوڑا) ہدیے کے طور پر پیش کیاگیا جس کا تانا بانا
ریشم سے بنا ہوا تھا۔حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے وہ ’’حلہ ‘‘میرے پاس
بھیج دیا۔ میں نے حاضر خدمت ہوکر عرض کیا:’’اے اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ
وسلم!‘‘ میں اسے کیا کروں؟ کیا میں اسے پہن سکتاہوں؟تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم
نے فرمایا: ’’نہیں اس سے فاطمہ کو اوڑھنیاں بناکر دیدیجئے!(سنن ابن ماجہ:
3596)
غیر مسلموں کو اُن کے مذہبی تہواروں مثلاً دیوالی یا ہولی یا کرسمس وغیرہ
کے موقع پر جو تحفے یا دعوتیں دی جاتی ہیں ان کی تفصیل کچھ ا،س طرح سے ہے
کہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم اور حضرات سلف صالحین رحمہم اﷲ سے اس سلسلے میں
دو قسم کے رجحانات منقول ہیں۔ مثلاً حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے منقول ہے کہ
کسی غیر مسلم نے ان کی خدمت میں نیروز کا ہدیہ پیش کیا تو آپ نے قبول کر
لیا۔ (الاقتضاء لابن تیمیہ:ص120)
مصنف بن ابی شیبہ میں روایت ہے کہ ایک عورت نے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے
عرض کیا کہ مجوسیوں سے ہمارے تعلقات ہیں اور اس کی وجہ سے وہ اپنے تہوار کے
موقعہ پر ہمیں ہدیہ دیتے ہیں، حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا اس دن جو
ذبیحے ہوتے ہیں ان میں سے اگر گوشت وغیرہ دیں تو نہ کھاؤ! البتہ پھل وغیرہ
کھا سکتی ہو۔ (الاقتضاء لابن تیمیہ:ص120)
حضرت ابو برزہ اسلمی رضی اﷲ عنہسے منقول ہے کہ مجوسیوں سے ان کے بعض روابط
تھے، ان کے پڑوس میں وہ لوگ آباد تھے نیروز اورمہرحان کے موقعہ پر وہ لوگ
تحفے وغیرہ بھیجا کرتے تھے تو وہ اپنے گھر والوں سے فرماتے کہ پھل وغیرہ تو
کھالو اور باقی چیزیں واپس کردو۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اﷲ لکھتے ہیں کہ:’’ان آثار سے ثابت ہوتا ہے کہ ہدایا
اور تحائف کے باب میں تہوار سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اور نہ اس سے غیر
مسلموں کی اعانت لازم آتی ہے، اس لئے غیر حربی کافروں کا ہدیہ قبول کرنا
جائز ہے، خواہ وہ تہوار کے موقعہ پر ہو یا کسی اور موقع پر۔(اقتضاء الصراط
المستقیم لابن تیمیہ: ص120)
ہمارے بزرگوں میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اﷲ کی بھی یہ ہی رائے
ہے۔ چناں چہ وہ تحریر فرماتے ہیں: ’’صرف دو جزو خاص قابل تعرض کے باقی رہ
گئے، ایک یہ کہ ہدیہ دیوالی کا شاید اس تہوار کی تعظیم کے لئے ہو جس کو
فقہاء نے سخت ممنوع لکھا ہے، دوسرا یہ کہ اس میں تصاویر بھی ہوتی ہیں، ان
کان ’’اقتناء واحترام مستلزم للتقوم والشمال‘‘ لازم آتا ہے اور بعض فروع
میں تصاویر کے تقوم کی نفی کی گئی ہے، تو اس میں اس حکم شرعی کا بھی معارضہ
ہے، جواب اول کا یہ ہے کہ یہ عادت سے معلوم ہے کہ اس ہدیہ کا سبب مہدی لہ
کی تعظیم ہے نہ کہ تہوار کی تعظیم، اور جواب ثانی کا یہ ہے کہ مقصود اہداء
میں صورت نہیں بلکہ مادہ ہے، البتہ یہ واجب ہے کہ مہدی لہ فوراً تصاویر کو
توڑ ڈالے۔ (امداد الفتاویٰ:ج 03ص 284)
اس کے بالمقابل حضرت مولانا عبد الحی فرنگی محلی رحمہ اﷲ نے ذخیرۃ الفتاویٰ
کی ایک عبارت نقل کی ہے، جس سے تہوار کے موقع پر غیر مسلموں کے تحائف قبول
کرنے کی ممانعت معلوم ہوتی ہے، چناں چہ ذخیرہ کی عبارت کا ترجمہ یہ ہے :’’
مسلمان کے لئے مناسب نہیں کہ کافر کا ہدیہ تہوار کے موقع پر قبول کرے، اور
اگر قبول کرے تو ان کو ہرگز کوئی تحفہ بدلہ میں نہ دے اور نہ کسی کے ہاتھ
بھیجے۔ (فتاویٰ عبد الحی اردو: ج 01ص304) ’’فی یوم عید‘‘ کا اطلاق مسلم اور
غیر مسلم دونوں کے تہوار پر ہو سکتا ہے۔
تھوڑی گنجائش تو ذخیرہ کی عبارت میں بھی موجود ہے۔ دونوں رجحانات کے درمیان
تطبیق اس طرح دی جاسکتی ہے، کہ مذہبی تہواروں کے موقع پر دو طرح کے تحفے
آتے ہیں، بعض وہ ہوتے ہیں جو بتوں اور دیوتاؤں پر چڑھائے جاتے ہیں، جن کو
برادرانِ وطن ’’پرشاد‘‘ کہتے ہیں، ان کا قبول کرنا جائز نہیں ہونا چاہئے،
اس لئے کہ’’ مااہل بہ لغیراﷲ ‘‘کا اطلاق اس پر بھی ہوتا ہے، اور ذخیرہ کی
عبارت کا محمل غالباً یہ ہی صورت ہے، اور بعض وہ ہوتے ہیں جو اس موقعہ پر
لوگوں میں تقسیم کرنے یا بچوں کے کھانے کے لئے بنائے جاتے ہیں، اس قسم کے
تحفے قبول کرنے کی گنجائش ہے اور امام ابن تیمیہ اور حضرت تھانوی رحمہما اﷲ
کے فتاویٰ کا محمل غالباً یہ ہی شکل ہے۔
اس طرح سابقہ تفصیلات سے حکم شرعی یہ منقح ہو کر سامنے آتا ہے کہ غیر
مسلموں کے غیر مذہبی تحائف قبول کرنا شرح صدر اور حالات کے مطابق جائز ہے،
اور اگر حالات اجازت نہ دیں یا غیر مسلم کی نیت و عمل پر اطمینان نہ ہو تو
قبول کرنا مناسب نہیں، اور مذہبی تحائف اگر بتوں پر چڑھائے ہوئے ہوں تو
قبول کرنا جائز نہیں اور اگر بتوں پر چڑھائے ہوئے نہ ہوں تو قبول کرنا جائز
ہے۔
ذخیرۃ الفتاویٰ کے مذکورہ بالا جزئیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر مسلموں کو ان
کے مذہبی تہواروں کے موقعہ پر ہدیہ دینے کا کوئی جواز نہیں ہے، نہ ہدیہ کے
بدلے میں ہدیہ دینا درست ہے اور نہ اپنی طرف سے اس میں پہل کرنا درست ہے،
چناں چہ امام ابن تیمیہ رحمہ اﷲ نے ’’اقتضاء الصراط المستقیم‘‘ میں جو بحث
کی ہے اس سے بھی یہ ہی ظاہر ہوتا ہے۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اﷲ مزید لکھتے ہیں :’’ابن القاسم نے نصرانی کو اس کے
تہوار کے موقعہ پر ہدیہ بھیجنے کو مکروہ کہا ہے، چاہے بدلہ کے طور پر ہی
ہو، بلا بدلہ دینا تو اور بھی زیادہ مکروہ ہے، اس لئے کہ اس میں ان کے
تہوار کی تعظیم اور مصالح کفر میں ان کی یک گونہ مدد ہے، یہی وجہ ہے کہ
مسلمانوں کے لئے غیر مسلموں کے مذہبی تہواروں کے موقعہ پر ان کے لئے ان کے
تہوار کی مناسبت سے کوئی چیز بنا کر مثلاً گوشت، سالن وغیرہ بیچنا یا اپنی
سواری ان کو بطورِ عاریت دینا وغیرہ جائز نہیں ہے، اس لئے کہ اس میں ان کے
کفر و شرک کی تعظیم اور مصالح کفر کا تعاون ہوتا ہے، مسلم بادشاہوں کو
چاہئے کہ غیر مسلموں کے ساتھ مسلمانوں کی اس قسم کی شرکت پر پابندی لگائیں،
امام مالک اور دیگر علماء کی رائے یہی ہے اور میرے علم میں اس مسئلہ میں
کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ (اقتضاء الصراط المستقیم: ص111)
ایک اور ہمارے معاشرے میں بد ترین رسم یہ چل پڑی ہے کہ شادی بیاہ کے مواقع
پر بظاہر تحفہ کے طور پر سلامی کے نام سے نقد روپیوں کا لفافہ دیاجاتاہے،
حالاں کہ درحقیقت یہ تحفہ، ہدیہ یا تعاون نہیں ہوتا بلکہ اس کو قرض سمجھا
جاتاہے اور قرض بھی سودی یعنی جتنی رقم دی جاتی ہے، دینے والے کے ہاں جب
شادی کی تقریب ہوتی ہے تو اس کی خواہش ہوتی ہے کہ اب لینے والا میری دی
ہوئی رقم مع اضافہ لوٹائے اور رواج بھی یہی ہے کہ واپسی کے وقت اضافہ کرکے
ہی دی جاتی ہے، ایسا کرنا حرام اور ناجائز ہے۔
بسا اوقات تحفہ دینے کے لیے کوئی چیز موجود ہوتی ہے لیکن خیال آتا ہے یہ تو
حقیر چیز ہے، اسے دینے کا کیا فائدہ؟ یہ خیال غلط ہے، اسی طرح جس کے پاس
چھوٹا سا تحفہ بھیجا جائے وہ خوش دلی سے قبول کرے کیونکہ تحائف کے تبادلے
سے خوشگوار ماحول پیدا ہوتاہے۔ ہدیہ دیتے وقت اپنی حیثیت کو سامنے رکھیں
اور یہ نہ سوچیں کہ آپ جس کو ہدیہ دیں قیمتی ہدیہ دیں، جو کہ کچھ بھی میسر
ہودے دیجیے، ہدیہ کے قیمتی ہونے، نہ ہونے کا انحصار آپ کے اخلاص اور جذبات
پر ہے۔ اور یہی خلوص وجذبات دلوں کو جوڑتے ہیں ہدیہ کی قیمت نہیں جوڑتی،
اسی طرح دوست کے ہدیہ کو بھی حقیر نہ سمجھیں، اس کے اخلاص پر نگاہ رکھیے۔
آج کے حالات میں کتاب بھی بہترین تحفہ ہے یا سامنے والے کی ضرورت کو ملحوظ
خاطر رکھتے ہوئے بھی تحفہ کا چناو? کیاجاسکتاہے۔
چناں چہ حاجی امداد اﷲ صاحب مہاجر مکی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ ایک بزرگ اپنے
شیخ کی خدمت میں حاضر ہوئے ، ہدیہ لانے کے لئے پاس کچھ تھا نہیں ، راستہ
میں خشک لکڑیوں کا ایک گٹھہ باندھا اور لاکر بطور ہدیہ پیش کردیا ، ان بزرگ
نے اس کی اتنی قدر کی کہ ان لکڑیوں کو احتیاط کے ساتھ رکھے رکھا اور وصیت
کی کہ میرے مرنے کے بعد غسل کے لئے جو پانی گرم کیا جائے وہ اسی سوختہ سے
کیا جائے ۔ (حضرت تھانوی ؒ کے پسندیدہ واقعات : ص ۱۷۷،۱۷۸)
افسوس کہ اس وقت ہم لوگوں میں باہم مخلصانہ تحفہ تحائف کے لین دین کا رواج
بہت کم ہوگیا ہے۔اور اگر کہیں ہے بھی تو وہ بھی صرف علماء ، مشائخ اور
بزرگانِ دین کی شخصیات تک محدود ہے، عزیزو ا قارب ، اڑوس پڑوسیوں اور
دوستوں وغیرہ کو دینے کارواج تقریباً نہ ہونے کے برابرہے۔
تحفہ ایک ایسا عطیہ ہے جو دوسرے کا دل خوش کرنے اورا س کے ساتھ اپنا تعلق
خاطر ظاہر کرنے کے لئے دیا جاتا ہے، تاکہ اس کے ذریعے رضائے الٰہی کو حاصل
کیا جاسکے۔ یہ عطیہ اگر اپنے کسی چھوٹے کو دیاجائے تواُس کے ساتھ شفقت و
محبت کا اظہار ہے۔اگر کسی بڑے کو دیا جائے تو اُس کے ساتھ عقیدت و احترام
کا اظہار ہے ۔ اگر کسی دوست کو دیاجائے تو اُس کے ساتھ علاقۂ محبت کے وسیع
کرنے کا اظہار ہے۔ اگر کسی ایسے شخص کودیاجائے جس کی حالت کم زُور ہے تو یہ
ا س کی اشک شوئی اور ہم دردی کا اظہار ہے۔
|