یہ کیسی قیامت ہے ؟۔۔۔۔۔ تمہارے گناہوں کی سزا ہمیں مل رہی ہے !
(Imran Khan Changezi, Karachi)
صرف فوج ہے جو سیلاب زدگان کی امداد میں اپنا فعال کردار ادا کرتی دکھائی دے رہی ہے اور ثابت کررہی ہے اسے حقیقی معنوں میں اپنے وطن اور اپنے عوام عزیز ہیں اور ہر حالت میں وہ ان کے دفاع وتحفظ کیلئے مصروف عمل رہے گی ۔ ہمیں جہاں اپنی عوام سے محبت و ہمدردی اور اپنی فوج پر فخر و اعتماد ہے وہیں ہمیں اپنے حکمرانوں اور سیاستدانوں کے گھنا¶نے کردار پر شرم بھی ہے کہ وہ ان حالات میں بھی اپنے اپنے اقتدار و اختیار کی جنگ میں مصروف ہیں ! |
|
قیامت کے دن کے حوالے کہا جاتا ہے کہ اس دن ہر شخص کو اپنے اپنے اعمال کے مطابق صلہ ملے گا نیک لوگوں کو جزا اور جنت کا حقدار ٹہرایا جائے گا اور خطاکاروں کو جہنم میں دھکیل کر بد ترین سزا دی جائے گی مگرپاکستان میں آنے والی قیامت صغریٰ تو کچھ اور ہی کہہ رہی ہے اس قیامت نے ثابت کیا ہے کہ حکمرانوں اور سیاستدانوں کے اعمال کی سزا عوام کو بھگتنی پڑتی ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ بدلتے ہوئے موسمی حالات اور محکمہ موسمیات کی اطلاعات و پیشنگوئیوں کے باوجود بارشوں اور سیلاب سے بچا¶ کے حفاظتی اقدامات و انتظامات نہ کرتے ہوئے اپنے اپنے سیاسی مفادات کیلئے ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے ‘ ایک دوسری پر کیچڑ اچھالنے ‘ ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنے اور ایک دوسرے کیخلاف قانونی و عوامی جنگ لڑنے والے حکمران وسیاستدان عوام کو سیلاب کے پانی میں غرق کرنے کے باوجود نہ صرف اپنے اپنے محلات اور ایوانوں میں محفوظ و مسرور ہیں بلک برسات و سیلاب نے انہیں امداد ‘ علاج اور انفرا اسٹرکچر کی بحالی کے نام پر مزید کرپشن کرکے اپنے مال و املاک میں اضافے کا ایک اور نا قابل احتساب موقع فراہم کردیا ہے جبکہ حکمرانوں اور سیاستدانوں کے کالے کارناموں کی سزا عوام کو مل رہی ہے جن کا سب کچھ برسات اور سیلاب میں بہہ گیا ہے ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق قدرت کی مہربانی اور حکمرانوں کی غفلت کے نتیجے میں سیلاب سے 10کروڑ سے زائد لوگ براہ راست متاثر ہوئے ہیں۔ لاکھوں مکانات منہدم ہوچکے ہیں ‘ کئی دیہات صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں ‘ لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوچکی ہیں ‘ ہزاروں مویشی بہہ چکے ہیں اور ان سب سے بڑھ کر ہزاروں کی تعداد میں لوگ مرچکے ہیں ‘ سینکڑوں لاشیں پانی میں تیر رہی ہیں ‘ خشک زمین اور کفن میسر نہ ہونے پر لوگ اپنے مرحومین کو گیلی زمین میں بنا کفن دفنانے پر مجبور ہیں ۔ صرف یہی نہیں بلکہ لاکھوں لوگ امداد اور راشن نہ ہونے کے باعث تیزی سے موت کی جانب بڑھ رہے ہیں اوپر سے مچھروں کی افزائش اور سانپ و بچھو¶ں کی موجودگی نے سیلابی علاقوں میں محصور افراد کی زندگی کیلئے مزید خطرات و خدشات پیدا کردیئے ہیں ۔ ان حالات میں وزیراعظم دو طرفہ تعلقات کیلئے قطر کا دورہ کررہے ہیں ‘ حکمران جماعت اور اتحاد عمران خان کیخلاف پریس کانفرنسوں میں مصروف ہے ‘ انتظامیہ عمران خان کی گرفتاری کاموقع ڈھونڈ رہی ہے ‘ عدلیہ سیاستدانوں کی دائر درخواستوں میں الجھی ہوئی ہے اور عمران خان جلسوں اور ریلیوں کے ذریعے اپنی عوامی حمایت و طاقت دکھانے میں مصروف ہیں ۔ ان حالات میں صرف فوج ہے جو سیلاب زدگان کی امداد میں اپنا فعال کردار ادا کرتی دکھائی دے رہی ہے اور ثابت کررہی ہے اسے حقیقی معنوں میں اپنے وطن اور اپنے عوام عزیز ہیں اور ہر حالت میں وہ ان کے دفاع وتحفظ کیلئے مصروف عمل رہے گی ۔ ہمیں جہاں اپنی عوام سے محبت و ہمدردی اور اپنی فوج پر فخر و اعتماد ہے وہیں ہمیں اپنے حکمرانوں اور سیاستدانوں کے گھنا¶نے کردار پر شرم بھی ہے کہ وہ ان حالات میں بھی اپنے اپنے اقتدار و اختیار کی جنگ میں مصروف ہیں ! کاش ....! کہ ہمارے سیاستدان ‘ حکومتی اتحاد ‘ اپوزیشن جماعتیں اور تحریک انصاف سمیت عمران خان کو وطن عزیز کے حالات اور سیلاب سے متاثرہ عوام کے درد کا ادراک ہوجائے اور وہ باہمی جنگ چھوڑ کر پاکستان اور عوام پاکستان کی خاطر بناءغرض و لالچ فوج جیسے جذبہ و خلوص کیساتھ سیلاب متاثرین کی امداد و بحالی کیلئے مشترکہ جدوجہد کریں تو یقینا ہماری قوم نہ صرف اس قیامت صغریٰ سے باہر نکل سکتی ہے بلکہ عنقریب آنے والی دوسری کئی اور قیامتوں کے تباہ کن اثرات سے بچنے کی پیش بندی بھی کرسکتی ہے کیونکہ سیلاب کی تباہ کاریوں کا سلسلہ صرف یہیں تک ہی محدود نہیں رہے گا بلکہ سیلاب متاثرین کو محفوط مقامات پر پہنچانے ‘ ان کیلئے خوراک وعلاج کا انتظام کرنے کے بعد ان کی آباد کاری ‘ تباہ شدہ علاقوں کی بحالی اور انفرا اسٹرکچر کی بحالی ایک ایسا مشکل مرحلہ ہوگی جسے خوش اسلوبی سے گزرنے کیلئے قوم اور سیاستدانوں کو ایثار و خلوص اور اتحاد و یگانگت کیساتھ دیانت و شرافت کی بھی ضرورت ہوگی ۔ بات یہیں تک نہیں رکے گی بلکہ فصلوں سیلاب سے ہونے والی فصلوں کی تباہی ملک میں غذائی قلت کا باعث بنے گی اور سیلاب سے متاثرہ زمین کو قابل کاشت بنانے میں طویل وقت لگے اس دوران قومی غذائی ضرورت کی تکمیل کیلئے ایسی موثر پالیسی کی بھی ضرورت ہوگی جو نہ صرف ضرورت کے مطابق دنیا بھر سے سستے داموں غذائی اشیاءو اجناس کی درآمد یقینی بنائے بلکہ ذخیرہ اندوزی ‘ گرانی اور ناجائز منافع خوری سے بھی قوم کو نجات دلانے کیساتھ علاج و ادویات کی مناسب نرخوں پر فراہمی کے سسٹم کو بھی درست طریقے سے مانیٹر کرے ۔ ان حالات سیلاب کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہنے والے پاکستانیوں پر یہ لازم و فرض ہے کہ وہ ”ایثار مدینہ “ کی روایت کے امین بنتے ہوئے سیلاب متاثرین کی امداد کیلئے آگے آئیں اور سیلاب متاثرین کی امداد و بحالی کیلئے فعال کرنے اداد کرنے والی JDC جیسی سماجی تنظیموں کے دست وبازو بنیں ۔ مہنگائی نے جس طرح عوام کی کمر توڑی ہے اور انسان کیلئے اپنے گھر کا کچن چلانا مشکل ہوچکا ہے اس کے پیش نظر سیلاب متاثرین کی امداد کے نام پر لوگ پریشان ہیں کہ اپنے بچوں کو کھانا کھلائیں یا سیلاب متاثرین کی مددکریں تو قوم کو پریشان ہونے کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہے قوم کا ہر فرد اپنی اپنی حیثیت کے مطابق اس کار خیر میں اپنا حصہ بٹائے ۔ اللہ نے جنہیں استطاعت دی ہے اوروہ مال سے متاثرین کے کام آئیں اور جن کے پاس استطاعت نہیں ہے وہ اپنے گھر میں موجود اضافی چیزوں سے متاثرین کی امداد میں ہاتھ بٹائیں یعنی پرانے کپڑے ‘ تولئے ‘ بستر ‘ کمبل ‘ تکئے ‘ برتن ‘ جوتے ‘ چپل ‘ کھلونے ‘ پانی کی خالی بوتلیں امدادی کیمپوں پر بچھائیںکیونکہ موجودہ حالات میں ہمارے گھر میں موجود یہ پرانی اور بیکار اشیاءبھی کھلے آسمان تلے پڑے ‘ گرمی و سردی کے اثرات کا شکار اور پینے کے پانی کی بوند بوند کو ترستے سیلاب متاثرین کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ متاثرین کو راشن فراہم کیا جائے گا تو وہ اس راشن سے کھانا کیسے تیار کریں گے اور اگر انہیں تیار کھانا فراہم کیا جائے گا تو وہ اسے محفوظ کس طرح رکھیں گے تو اس کا حل یہ ہے کہ امدادی جماعتیں راشن اور کھانے کی فراہمی کے بجائے بھنے ہوئے ‘ چنے ‘ مرمرے ‘ بسکٹس‘ چپس اور پانی کی بوتلوں کی فراہمی سیلاب متاثرین کو یقینی بنائیں تاکہ ان کے زندہ رہنے کا کچھ تو اسباب ہوسکے جبکہ حکومت کو بھی چاہئے کہ آٹے ‘ چینی ‘ گھی اور چاول پر مشتمل راشن بیگ متاثرین تک پہنچانے کی بجائے دنیا بھر سے بسکٹ ‘ چنے اور خشک خوراک منگاکر سیلاب متاثرین تک پہنچائے جبکہ کوشش کی جائے کہ سیلاب متاثرین کو بڑے شہروں میں لاکر بسانے کی بجائے یا تو خالی پڑی ہوئی سرکاری اراضی پر ان کیلئے کیمپ لگائے جائیں یا پھر برے بڑے سیاستدانوں کی جانب سے قبضہ کی جانے والی زمینوں اور ان کے فارم ہا¶سوں میں ان سیلاب متاثرین کی رہائش کا انتظام کیا جائے کیونکہ بارشوں نے شہروںمیں بھی تباہی مچاکر نظام زندگی کو مفلوج کردیا ہے ان حالات میں سڑکوں کے گرد قائم ہونے والی سیلاب متاثرین کی خیمہ بستیاں شہروں کی تجارتی و صنعتی سرگرمیوں کو متاثر کردے گی جس سے ملک معاشی بدحالی سے دوچار ہوجائے گا جس کے بعد سیلاب متاثرین کی امدا د و بحالی حکومت کیلئے کسی طور ممکن نہیں رہے گی اسلئے ضروری ہے کہ سیلاب متاثرین کو صنعتی و تجارتی شہروں سے دور رکھا جائے ! اور اس زمین پر بسایا جائے جو قومی زمین ہے مگر اس پر قوم کے دشمنوں کا قبضہ ہے ۔
|