کاش ہمارے حکمرانوں میں بھی” انجلینا جولی “کی روح ہوتی !
(Imran Khan Changezi, Karachi)
عالمی برادری اور عوام سے سیلاب متاثرین کی امداد کی اپیل کرنے والے فوج کی طرح سب سے پہلے اپنی اپنی ایک ایک ماہ کے تنخواہ سیلاب متاثرین کی امداد میں دیتے اور اس کے بعد اندرون و بیرون ملک اپنی جاگیروں ‘ جائیدادوں ‘ اثاثوں اور دولت کو وطن واپس لاکر سیلاب متاثرین کی بحالی اور قومی تعمیرو ترقی کیلئے وقف کرتے تو بہتر ہوتا ! |
|
|
”بارشیں“ اور” سیلاب“ نئی اور انوکھی بات نہیں ہیں ۔ دنیا بھر کے تمام ہی ممالک میں برساتیں ہوتی ہیں اور سیلاب بھی آتے ہیں مگر جن ممالک میں حکومتیں فعال اور حکمران دیانتدار ہوتے ہیں وہاں برساتیں رحمت بن جاتی ہیں اور سیلاب چاہتے ہوئے بھی ناقابل تلافی تباہی مچانے میں ناکام رہتے ہیں مگر جن ممالک میں حکومتیں نااہل ‘ حکمران عیاش و عیار ‘ انتظامیہ چاپلوس اور افسران کرپٹ ہوتے ہیں وہاں” برساتیں“ عذاب بن جاتی ہیں اور” سیلاب“ تباہی کے ایسے انمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں جنہیں صفحہ خاک سے مٹانے میں برسوں لگ جاتے ہیں ۔ پاکستان کا شمار بھی ایسے ہی ممالک میں ہوتا ہے جہاں برساتیں بھی ہوتی ہیں اور سیلاب بھی آتے ہیں جبکہ ان برساتوں سے تباہی بھی ہوتی ہے اور ایسے انسانی المئے بھی جنم لیتے ہیں جن کی کرہ¿ ارض کے کسی اور خطے میں نظیر نہیں ملتی اس کے باوجود بھی آئندہ کیلئے ایسی تباہی و بربادی سے بچنے کیلئے انتظامات و اقدامات کرنا شاید ہماری روایت نہیں ہے اسی لئے برساتوں اور سیلابوں سے تباہی معمول بن گئی ہے اور اس تباہی کو جھیلنا شاید ہماری عادت ہوگئی ہے ۔ لیکن اگرکبھی برساتیں معمول سے زیادہ ہوجائیں اور سیلاب سے ہونے والی تباہی ہماری برداشت کی سرحد کو پار کرجائے تو پھر ہم چیخ پڑتے ہیں ۔ سیلاب متاثرین اپنی بربادی پر خون کے آنسو روتے ہیں ۔ میڈیا ان کی بے بسی اور بے کسی پر واویلا مچاتا ہے ۔ سماجی تنظیمیں ان کی امداد کیلئے مال جمع کرتی نظر آتی ہیں ۔ حکومت بیرونی دنیا کے سامنے بھیک کاکشکول پھیلاتی ہے ۔ اس سارے شور شرابے کے پس منظر میں ہر ایک کا اپنا اپنا مفا د ہوتا ہے ۔ متاثرین کو دکھ ‘ درد ‘ تکلیف سے نجات ‘ دو وقت کی روٹی ‘ علاج ‘ سر چھپانے کا ٹھکانہ اور اپنی تباہی و بربادی پر ہمدردی درکار ہوتی ہے ۔ میڈیا تباہی کے مناظر دکھاکر اور مناظرے کراکر اپنی ٹی آر پی بڑھاتا ہے ! سماجی تنظیموں کیلئے یہ خود کو فعال ثابت کرنے اور لوگوں کی نگاہوں میں لانے کیلئے یہ سنہری موقع ہوتا ہے جس سے وہ بھرپور فائدہ اٹھاکر مستقبل کی منصوبہ بندی کرتی ہیں ۔ حکمران بھی ایسے مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھانے کیلئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں اسی لئے حکومتی سطح پربارشوں اور سیلاب کی تباہی سے بچنے کیلئے پیشگی یا مستقل انتظامات و اقدامات نہیں کئے جاتے کیونکہ عوام کی تباہی و بربادی کے نام پر بیرونی دنیا کے سامنے پھیلائے جانے والے کشکول میں گرنے والے ڈالروں کا حساب لینے والا کوئی نہیں ہوتا ۔ اسلئے حکمران ہمیشہ قدرت کی جانب سے ایسی مہربانیوں کی دعائیں کرتے رہتے ہیں ۔ ان سارے حالات اور معاملات میں فوج ایک ایسا ادارہ ہے جو ان مشکل لمحات میں بڑی خاموشی ‘ جانفشانی ‘ تندہی اور خلوص سے آگے بڑھ کر سیلاب متاثرین کی امدادکا فریضہ حقیقی معنوں میں انجام دیتی ہے اور نہ صرف قیمتی انسانی جانیں بچاتی ہے بلکہ لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کیساتھ ‘ انہیں خوراک و راشن کی فراہمی اور علاج کے ذریعے ان کی صحت وزندگی کے تحفظ کے اقدامات بھی کرتی ہے مگر نہ تو اپنے ان اقدامات و انتظامات کی میڈیا پبلسٹی کرتی ہے ‘ نہ ہی اپنی خدمات و خلوص کا پروپیگنڈا کرتی ہے اور نہ ہی عوام یا بیرونی دنیا سے امداد کی اپیلیں کرتی دکھائی دیتی ہے بلکہ حاصل و موجود وسائل میں اپنے خلوص و جذبوں کے ذریعے وہ کارہائے نمایاں انجام دیتی ہے جس پر قوم ہی اپنی افواج پر فخر نہیں کرتی بلکہ دنیا بھی اس کی قدرکرتی ہے ۔ پاکستان میں سیلاب پہلی بار نہیں آیا ہے بلکہ اس سے پہلے بھی آتا رہا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ سیلاب سے ہونے والی تباہی پہلے کی نسبت بہت زیادہ ہے اوراس سے جنم لینے والا انسانی المیہ بہت سنگین ہے جس سے نمٹنے کیلئے جس گورننس ‘ فعالیت ‘ دیانت‘ خلوص ‘ جذبے اور ایثار کی ضرورت ہے ہمارے حکمران و سیاستدان اس سے محروم نظر آتے ہیں جبکہ محکمے ‘ افسران اور اہلکار حکمرانوں کی پالیسی لائن کے محتاج ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ سیلاب سے ہونے والی بدترین تباہی اور سنگین انسانی المیہ جنم لینے کے بعد حکومت ابھی تک صرف زبانی وبیانی جمع خرچ کرتی اور امداد کی بھیک مانگنے کے سوا کچھ اور کرتی دکھائی نہیں دے رہی ہے ! یوں لگتا ہے کہ ہم ماضی سے کچھ سیکھنا ہی نہیں چاہتے اور ماضی کی تباہیوں کو مستقبل میں مزید جمع و ضرب کیساتھ وقوع پذیر ہونے کی خواہش رکھتے ہیں ۔ کیونکہ آج سے بارہ سال قبل 2010ءمیں بھی پاکستان میں ایسا ہی سیلاب آیا تو اور اُس سیلاب نے بھی بدترین تباہی پھیلائی تھی اس وقت بھی فوج نے سیلاب متاثرین کو بچانے اور ان کی زندگیوں کو محفوظ بنانے کا فریضہ انجام دیا تھا جبکہ حکمرانوں نے عادتاً و ضرورتاً بیرونی دنیا کے سامنے امداد کے نام پر بھیک کا کشکول پھیلایا تھا ۔ اس وقت اقوام متحدہ نے معروف ہالی وڈ اداکارہ اور اپنی اعزازی سفیر انجلینا جولی کو سیلابی تباہی کا جائزہ لیکر امداد کا تعین کرنے کیلئے پاکستان بھیجا تھا ۔ انجلینا جولی نے دورہ پاکستان سے واپسی پر جو رپورٹ اقوام متحدہ میں پیش کی وہ کچھ یوں تھی ۔ ” مجھے یہ دیکھ کر شدید دکھ ہو اکہ حکومتی اراکین ‘ سرکاری اہلکار اور با اثر افراد سیلاب متاثرین کو دھکے مار مار کر مجھ سے ملنے سے روک رہے تھے۔ مجھے اس وقت بھی تکلیف ہوئی جب وزیراعظم نے سیلاب متاثرین سے ملنے کی بجائے مجھ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی اور کہا کہ میری فیملی کے لوگ آپ سے ملنا چاہتے ہیں ۔ مجھے اس وقت اور مزید تکلیف پہنچی جب وزیراعظم کے اہلخانہ ایک خصوصی طیارے کے ذریعے مجھ سے ملنے ملتان سے اسلام آباد آئے اور میرے لئے قیمتی تحائف لائے ۔ وزیراعظم کے اہلخانہ نے میرے لئے طعام کا اہتمام کیا اور اس میں ایسے انواع و اقسام کے کھانے رکھے جنہیں دیکھ کر مجھے شدید رنج و قلق ہوا کہ اس ملک میں سیلاب متاثرین بھوک سے مررہے ہیں ۔ آٹے کے ایک تھیلے اور پانی کی ایک بوتل کے حصول کیلئے ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں جبکہ حکمران میری مہمان نوازی میں اتنا کھانا بنوا رہے ہیں جتنا کئی سو سیلاب متاثرین کے امداد کے کام آسکتا ہے ۔ مجھے حیرت ہوئی کہ ایک طرف بھوک ، غربت اور بد حالی تھی اور دوسری جانب وزیراعظم ہاو¿س اور کئی سرکاری عمارتوں کی شان و شوکت ، ٹھاٹھ باٹھ ، حکمرانوں کی عیاشیاں تھیں ، یورپ والوں کو حیران کرنے کیلئے کافی تھا۔ انجلینا جولی نے اپنی اس رپورٹ میں اقوام متحدہ کو مشورہ دیا کہ پاکستان کو مجبور کیا جائے کہ امداد مانگنے سے پہلے شاہی پروٹوکول ، عیاشیاں اور فضول اخراجات ختم کریں“۔۔۔ لیکن شاید ایسا ممکن نہیں جب قدرت کی صدا اور ندا ہمارے ملک سے کرپشن ‘ کمیشن ‘ پروٹوکول ‘ عیاشی ‘ فضول خرچی اور اقربا پروری کو ختم نہیں کرسکی تو بے چاری انجلینا جولی یا اقوام متحدہ کیا کرسکتے تھے ۔ نتیجہ آج پھر ہمارے سامنے ہے بارہ برس گزرنے کے باوجود آج تک سیلاب سے بچا¶ کے موثر اقدامات نہیں کئے گئے ۔قوم آج پھر سیلابی تباہی سے دوچار ہے ۔ متاثرین آج بھی کھلے آسمان تلے موسم کے سختی سے لڑتے ہوئے روٹی اور پینے کے پانی کیلئے ترس رہے ہیں جبکہ حکمران و سیاستدان اپنے اپنے محلوں میں بیٹھے اسی طرح قدرت کی نعمتوںسے لطف اندوز ہوتے ہوئے‘ متاثرین کی حالت زار پر مگر مچھ کے آنسو بہانے کیساتھ عالمی برادری کے سامنے امداد کے نام پر بھیک کا کشکول پھیلاکر اپنے مستقبل کو مزید تابناک بنانے کے خواہشمند ہیں ۔ کیونکہ اگر ایسا نہیں ہوتا تو عالمی برادری اور عوام سے سیلاب متاثرین کی امداد کی اپیل کرنے والے فوج کی طرح سب سے پہلے اپنی اپنی ایک ایک ماہ کے تنخواہ سیلاب متاثرین کی امداد میں دیتے اور اس کے بعد اندرون و بیرون ملک اپنی جاگیروں ‘ جائیدادوں ‘ اثاثوں اور دولت کو وطن واپس لاکر سیلاب متاثرین کی بحالی اور قومی تعمیرو ترقی کیلئے وقف کرتے مگر نہ تو حکومت میں شامل پی ڈی ایم اتحاد کے اراکین اسمبلی وسینیٹ ‘ نہ ہی سیاسی جماعتوں کے عہدیداران ‘ نہ ہی سرکاری افسران اور نہ ہی عمران خان اور ان کے چاہنے اور ماننے والوں کی جانب سے سیلاب متاثرین کے تحفظ و امداد کے حوالے زبانی جمع خرچ کے علاوہ کوئی عملی کوشش و کاوش یا مخلصانہ اقدامات دکھائی دے رہے ہیں ۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے ارباب اقتدار و اختیار ‘ رہنماوںاور رہبروں کو اس صفت سے نوازے جو اس ملک و قوم کے تحفظ و ترقی کیلئے ضروری اور سیلاب متاثرین کی فوری ضرورت ہے ........................آمین |