دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو٬ پاکستانیوں کو پانی دینے والے پہاڑ سے کچرا صاف کرنا کس کی ذمہ داری؟

image
 
پاکستان میں واقع دنیا کے دوسرے بلند ترین پہاڑ کے ٹو پر جمع ہونے والے کچرے کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ’سنہ 1954 سے لے کر 1994 تک 40 سال میں 100 سے زائد سمٹس ہوئیں جن میں سے صرف 30 فیصد میں مصنوعی آکسیجن کا استعمال ہوا۔۔۔ سال 2022 میں 22 جولائی کو صرف ایک دن میں 141 سمٹس ہوئیں جن میں سے 97 فیصد میں مصنوعی آکسیجن استعمال ہوئی۔ یوں کے ٹو پر ایک دن میں پہلی 100 سمٹس اور پہلے 40 سال سے دُگنا کچرا جمع ہوا ہے۔‘
 
یہ ناران میں کسی پہاڑی کی بات نہیں ہو رہی، بلکہ یہ صورتحال دنیا کے دوسرے بلند ترین پہاڑ کے ٹو کی ہے جو سطح سمندر سے 8611 میٹر کی بلندی پر ہے۔
 
وہی پہاڑ جن سے نکلنے والے گلیشیئر (خاص طور پر پاکستان میں) لاتعداد ندی نالوں، چشموں اور جھرنوں کی صورت میں ہمیں پانی فراہم کرنے کا ذریعہ ہیں۔ مگر جن پہاڑوں پر جانا زندگی کو خطرے میں لانے کے مترادف ہے اگر وہ بھی گندگی کے ڈھیروں میں تبدیل ہو جائیں تو کیا کیا جائے؟
 
اونچے پہاڑوں کی کمرشلائزیشن جو ایورسٹ پر برسوں پہلے ہوئی تھی، اس کے اثرات اب باقی 8000 میٹر سے بلند دیگر چوٹیوں تک پہنچ گئے ہیں۔
 
رواں ہفتے سوشل میڈیا اور کوہ پیمائی سے وابستہ گروپس میں نیپالی کوہ پیما اور ایلیٹ ایکسپیڈیشن کمپنی کے بانی نرمل پرجا فاؤنڈیشن کی شئیر کی کردہ ایک ویڈیو زیرِ بحث رہی ہے جس میں وہ کے ٹو پر جمع کچرے کا پہاڑ دکھاتے ہوئے اس کی صفائی کے لیے عطیات مانگ رہے ہیں۔
 
 
یاد رہے اس قبل مارچ 2021 میں بھی انھوں نے ایسی ہی صفائی مہم اور گو فنڈ می پیج کا اعلان کیا تھا۔
 
مگر اس کچرے کی جانب توجہ دلوانے والے نرمل اکیلے نہیں۔ رواں سیزن میں کے ٹو سر کرنے کے لیے آنے والی امریکی کوہ پیما سارہ سٹریٹن کا کہنا تھا کہ وہ اس سال کے ٹو پر کچرے کے ڈھیر سے حیران رہ گئیں، جہاں ’تقریباً پورے راستے پر‘ ملبے اور کوڑے کے ڈھیر پھیلے ہوئے تھے۔
 
اپنے انسٹاگرام پر سارہ نے لکھا کہ کیمپ ون اور ٹو انتہائی گندے ہیں اور ہر طرف گذشتہ اور حالیہ ایکسپیڈیشن میں آنے والوں کا فضلہ پڑا ہے۔
 
کوہ پیما پرانے سامان، فضلے، خیموں اور استعمال شدہ کھانے کی پیکیجنگ اور ایندھن کے کینوں کے اوپر کیمپ لگا رہے تھے۔
 
وہ بتاتی ہیں کہ ہائیر کیمپ تھری اور فور جو 7162 میٹر اور 7620 میٹر پر واقع ہیں، وہاں صورتحال قدرے بہتر تھی لیکن پہلے جیسی صاف نہیں تھی اور بیس کیمپ سے سمٹ تک پورے کلائمنگ روٹ پر کوڑا ہی کوڑا تھا۔
 
سارہ کو یہ کچرے کے ڈھیر دیکھ کر صرف دکھ ہی نہیں ہوا بلکہ ان کے مطابق یہ چڑھائی میں بھی خطرے کا باعث بنا کیونکہ پرانی اور خراب ٹوٹی ہوئی فکسڈ لائن رسیوں کے ڈھیر میں سے صحیح رسی کا انتخاب ناممکن تھا۔
 
انھوں نے سینٹرل قراقرم نیشنل پارک گلگت بلتستان (سی کے این پی) اہلکاروں کا ذکر کیا تاہم سارہ کے مطابق یہ بیس کیمپ تک محدود تک اور اصل مسئلہ ہائی ایلٹیٹیوٹ یعنی انتہائی بلند کیمپوں سے کچرا نیچے لانا ہے۔
 
image
 
پیرو کی کوہ پیما فلور کوئنکا، جنھوں نے 27 جولائی کو کے ٹو سر کیا نے، پاکستان کے قراقرم سلسلے میں واقع اس پہاڑ کو ’پگسٹی‘ یعنی غلاظت سے بھرپور مقام کہا۔ فلور نے کوہ پیمائی کرنے والی بڑی کمپنیوں کو اس تباہی کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
 
انھوں نے اپنی انسٹا گرام پوسٹ میں لکھا کہ میں نے کمپنیوں کو اپنے کلائنٹس کو آرام پہنچانے کے لیے بہت سامان لاتے دیکھا ہے۔
 
فلور نے انتہائی دکھی دل کے ساتھ سوال کیا کہ ہم کوہ پیما پہاڑوں کے ساتھ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ اور کیا ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ یہ سارا فضلہ جادو سے غائب ہو جائے گا یا پھر کوئی اور آ کر اس کی صفائی کرے گا؟
 
حال ہی میں کے ٹو سر کرنے والی پاکستانی کوہ پیما نائلہ کیانی نے بی بی سی بات کرتے ہوئے بتایا کہ کیمپ ون اور ٹو تو گندے تھے البتہ اس کے اوپر اتنی بری صورتحال نہیں تھی جتنی نرمل پرجا کی ویڈیو میں دکھائی گئی ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ انسانی فضلے کا تو مسئلہ ہے کیونکہ وہاں جگہ نہیں کہ زیادہ دور جائیں مگر زیادہ تر لوگ ماؤنٹین ہارڈ ویئر اور گئیر مثلاً پرانے ٹینٹ اور بیگ وغیرہ چھوڑ جاتے ہیں۔
 
کے ٹو پر جمع ہونے والے کچرے کی صفائی کس کی ذمہ داری ہے، کیا سیزن کے شروع میں صفائی نہیں کی گئی اور ختم ہونے کے بعد کیا یہ کچرا اب تک وہیں موجود ہے اور کیا پاکستان میں اس حوالے سے کوئی قوانین ہیں بھی یا نہیں؟ ان سوالات کے جواب جاننے کے لیے ہم نے کے ٹو سر کرنے والے پاکستانی کوہ پیماؤں، اس شعبے سے وابستہ ماہرین اور متعلقہ انتظامیہ سے بات کی ہے مگر اس سب کی تفصیل میں جانے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ پہاڑوں پر کچرا کتنی قسم کا ہوتا ہے۔
 
image
 
پہاڑوں پر جمع ہونے والے کچرے کی اقسام
عمران حیدر تھہیم کوہ پیمائی کے شوقین اور گذشتہ 11 برس سے کوہ پیمائی کے لیے پاکستان آنے والی مہمات پر تحقیق کرتے آ رہے ہیں۔ ان کے مطابق پہاڑوں پر دو قسم کا کچرا جمع ہوتا ہے۔
 
1) پہلی قسم میں انسانی کھانے اور فضلہ شامل ہے، یہ کچرا اور اس کی صفائی کا انتظام بیس کیمپ پر ہوتا ہے۔
 
انٹرنیشنل سٹینڈرز کے مطابق غیر ملکی سیاح کوشش کرتے ہیں کہ بائیو ڈی گریٹ ایبل سامان لائیں جو کچھ عرصے بعد تحلیل ہو کر ماحول کا حصہ بن جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ کھانے کا سامان وہ پکا ہوا لاتے ہیں اور کچھ وہاں بیس کیمپ میں پکایا جاتا ہے۔
 
2) دوسری قسم ماؤنٹین ہارڈ ویئر ہے۔ جس میں پہاڑ پر چڑھنے والی رسی اور ٹینٹ سے لے کر پروٹون، آئس بارز، آئس کروز اور ٹینٹ کو باندھنے والی رسیاں وغیرہ شامل ہیں۔
 
اوسطاً ہر کوہ پیما ان پہاڑوں پر دورانِ سمٹ 15-25پاؤنڈ تک کچرا پیدا کرتا ہے جس میں لاوارث خیمے، آکسیجن کے ڈبے، خوراک اور پانی کے برتن، بچا ہوا سامان اور انسانی فضلہ شامل ہیں۔
 
پہاڑوں پر جمع ہونے والا کچرا کس کی ذمہ داری ہے؟
 
image
 
عموماً جن ممالک میں 8000 میٹر سے بلند چوٹیاں موجود ہیں وہاں یہ ذمہ داری پرمٹ جاری کرنے والی اتھارٹی کی ہوتی ہے کہ وہ ایکو ٹورازم کے ساتھ ساتھ پہاڑوں کی صفائی کے حوالے سے کوہ پیمائی کے بین الاقوامی معیارات کو برقرار رکھیں۔
 
نیپال میں دنیا کی 14 بلند ترین چوٹیوں میں سے آٹھ موجود ہیں، وہاں ہر سال ہزاروں کوہ پیما ان چوٹیوں کو سر کرنے کے لیے آتے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں سیاح اور ٹریکرز بھی بیس کیمپوں تک پہنچتے ہیں۔ وہاں ان چوٹیوں سے صفائی کا انتظام ڈاٹ (ڈیپارٹمنٹ آف ٹورازم) کے پاس ہے۔
 
پاکستان میں موجود پہاڑوں پر سے کچرا صاف کرنے کی ذمہ داری حکومتی سطح پر محکمہ ٹورازم گلگت بلتستان کی ہے اور کوہ پیمائی کی کسی بھی کمپنی کو پرمٹ جاری کرتے وقت ان سے ایک مقررہ رقم وصول کی جاتی ہے تاکہ بعد میں پہاڑ پر رہنے والا کچرا صاف کیا جا سکے جو ڈائریکٹوریٹ آف سینٹرل قراقرم نیشنل پارک گلگت بلتستان (سی کے این پی) کا کام ہے۔
 
ڈائریکٹر ٹورازم جے پی یاسر حسین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس مرتبہ ریکارڈ تعداد میں کوہ پیما کے ٹو اور دوسرے پہاڑ سر کرنے آئے جن میں سے بہت سے کوہ پیما اور کمپنیاں اپنا کچرا چھوڑ کر چلے گئے۔
 
وہ بتاتے ہیں کہ اس سیزن میں رش بہت تھا اور گلگت بلتستان حکومت نے وفاقی حکومت سے ماؤنٹینرنگ اور ٹریکنگ کی ذمہ داری جون میں لی ہے اسی لیے یہ سب سینٹرل قراقرم نیشنل پارک گلگت بلتستان (سی کے این پی) کے لیے بھی ایک نیا تجربہ تھا۔
 
اس حوالے سے طریقہ کار کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ سی کے این پی ہر غیر ملکی کوہ پیما سے 150 ڈالر فیس لیتا ہے، اور اس سال پاکستانی کوہ پیماؤں اور ٹریکرز سے بھی فیس چارج کی گئی ہے۔
 
انھوں نے بتایا کہ سی کے این پی کی حدود میں داخل ہوتے ان کوہ پیماؤں کے سامان کا وزن کیا جاتا ہے اور واپسی پر دوبارہ وزن کر کے چیک کیا جاتا ہے کہ یہ کتنا وزن واپس لائے۔
 
یاسر حسین کے مطابق یہ ادارہ سال میں دو مرتبہ (سیزن کے شروع اور اختتام پر) ان پہاڑوں کی صفائی کرتا ہے۔
 
image
 
ان کا کہنا تھا کہ اس مرتبہ دو جولائی سے لے کر 18 اگست تک 12 سے 15 افراد کی ایکسپیڈیشن نے کیمپ ون سے فور تک کے ٹو کی صفائی کی اور 16010 کلو گرام کچرا جمع کیا ہے۔
 
انھوں نے اس حوالے سے کے ٹو کے بیس کیمپ پر اکھٹا کیے گئے کچرے کی کچھ تصاویر بھی بی بی سی کے ساتھ شئیر کیں۔
 
یاسر حسین نے کے ٹو پر کچرے کی تصاویر شئیر کرنے اور صفائی کے لیے عطیات جمع کرنے والوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’بہت سے ادارے باہر بیٹھ کر شور مچا رہے ہیں کہ کے ٹو پر کچرا ہے ہمیں فنڈ دیں، انھیں کس نے اجازت دی کہ پرانی تصاویر شئیر کر کے غلط معلومات پھیلا کر دنیا کو گمراہ کر رہے ہیں۔‘
 
ان کا کہنا تھا کہ یہ وہی لوگ ہیں جو خود کچرا چھوڑ کر گئے اور اب شور مچا رہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ وہ ایسے تمام لوگوں کو آفیشل جواب بھیج رہے ہیں کہ نہ یہ ان کا علاقہ ہے اور نہ وہ اجازت لیے بغیر ہمارا نام لے کر فنڈ اکھٹے کر سکتے ہیں۔
 
یاسر حسین نے بتایا کہ 9/11 کے بعد یہاں کلائمبنگ 40 فیصد ڈسکاؤنٹ پر تھی تو ہر بندہ چلا آ رہا تھا مگر اب وہ فیس بڑھا رہے ہیں تاکہ صرف حقیقی کوہ پیما ہی اوپر جا سکیں۔
 
ان کا کہنا تھا کہ زیادہ رش کو دیکھتے ہوئے پالیسی اور ریگولیشن کو تبدیل کیا جا رہا ہے، ٹور آپریٹر اور کوہ پیماؤں کو دی جانے والی بریفنگ اور ڈی بریفنگ کا بھی ازسرِ نو جائزہ لے رہے ہیں، ٹور آپریٹر پر سختی بڑھا رہے ہیں اور ان پر جرمانے بھی لگانے کا سوچ رہے ہیں۔
 
یاسر حسین کا کہنا تھا کہ اس سیزن میں لیزن آفیسر نے تین چار غیر ملکی کمپنیوں کی شکایات کی ہیں جو اپنا سامان واپس نہیں لائے، ہم نے ان کے خلاف ایکشن لیا ہے اور آئندہ انھیں بلیک لسٹ بھی کر سکتے ہیں۔
 
image
 
نائلہ کیانی کے مطابق ضروری نہیں ہر کوہ پیما جان بوجھ کر اپنا سامان چھوڑے مگر کبھی وہ بیمار پڑ جاتے ہیں، موسم کی خرابی یا کوئی دوسری مجبوری بھی آڑے جاتی ہے اور کسی کی موت کے سبب بھی ان کا سامان وہیں رہ جاتا ہے۔ تاہم وہ مانتی ہیں کہ کچھ کوہ پیما جان بوچھ کر بھی ایسا کرتے ہیں اور اتنا سامان لے جاتے ہیں کہ پھر اسے واپس لانا مشکل ہوتا ہے۔
 
وہ کہتی ہیں کہ یہ کوہ پیما اور حکومت دونوں کی ذمہ داری ہے کیونکہ وہ (سی کے این پی) غیر ملکی اور ملکی کوہ پیماؤں سے اسی صفائی کے لیے خاصی فیس لیتا ہے مگر انھوں نے اس فیس کے حساب سے صفائی تو نہیں ہوتے دیکھی۔
 
تاہم ان کا کہنا ہے اس مرتبہ سی کے ایم پی کے اراکین گذشتہ برسوں کی نسبت زیادہ کوشش کرتے نظر آئے۔وہ بتاتی ہیں کہ انھیں اتنا معلوم ہے کہ کوہ پیماؤں کے جانے کے بعد سی کے ایم پی کے اراکین نے کیمپ ون اور ٹو جانا تھا مگر وہاں کتنی صفائی ہوئی اس بارے میں وہ کچھ نہیں کہہ سکتیں۔
 
پاکستان کے سب سے کم عمر کوہ پیما شہروز نے بھی کے ٹو پر ٹینٹس، آکسیجن کے خالی سلنڈر اور اے پی آئی گیس اور پرانی رسیاں دیکھیں۔وہ بتاتے ہیں کہ کچھ نیپالی کمپنیاں اپنے ٹینٹ چھوڑ گئیں تھیں جنھیں شہروز، ساجد سدپارہ اور اپنے شرپا کے ساتھ مل کر اکھاڑ کر نیچے لائے۔
 
شہروز کاشف کا کہنا ہے کسی بھی پہاڑ پر مہم پر جانے کی صورت میں کچرا تو ہوتا ہے مگر وہ کہتے ہیں کہ اگر ہر مہم کا انتظام کرنے والا، ہر کوہ پیما اپنا کچرا خود نیچے لے آئے گا تو فنڈر اکھٹے کر کے صفائی مہمات کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔
 
وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ کوہ پیما ہیں اور کوہ پیمائی کو کمرشلائز کر کے کلائنٹس لا رہے ہیں تو وہ کچرا نیچے لانا آپ کی ذمہ داری ہے۔ شہروز کہتے ہیں آج کل ٹرینڈ چل پڑا ہے اور جسے کوہ پیمائی کی سمجھ بوجھ نہیں وہ بھی کلین اپ آپریشن کرنا چاہتا ہے جبکہ یہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔
 
image
 
عمران حیدر تھہیم کے مطابق کوہ پیماؤں کو ٹینٹوں کے ساتھ لگنے والی رسیاں اس طرح لگانے کی تربیت دی جاتی ہے کہ واپسی پر آخری کوہ پیما انھیں بآسانی اکھاڑ سکے۔
 
اسی طرح سپلیمنٹری آکسیجن کے سلنڈر فراہم کرنے کا ٹھیکہ بھی ایک پاکستانی کمپنی کے پاس ہے جس کی ذمہ داری ہے کہ جتنے سلنڈر فروخت کیے گئے اتنی ہی تعداد میں واپس حاصل کرے۔
 
تاہم عمران حیدر کہتے ہیں کہ وئی چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کے باعث بہت سارے سلنڈر اوپر ہی پڑے رہ گئے اور اکثر اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ اگر کسی کوہ پیما کا سلنڈر ایک جگہ پر خالی ہوا اور اس نے اسے وہیں چھوڑ دیا (کہ واپسی پر اٹھا لوں گا) اور آگے جا کر ایک اور سلنڈر لے لیا، لیکن واپسی کے سفر میں اگر برف باری شروع ہو گئی، طوفان آ گیا تو وہ سلنڈر دب جائے گا اور وہیں پڑا رہ جائے گا۔
 
عمران کا ماننا ہے کہ کوہ پیمائی میں بھی ذاتی اخلاقیات کی بات ہے جیسے زمین پر رہنے کے اصول ہیں ویسے ہی پہاڑوں پر کوہ پیمائی کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں اور فکسڈ رسی تو کمپنی کی ذمہ داری ہے لیکن شرپا ہو یا کوہ پیما انھیں چاہیے اپنے ذاتی استعمال کا سامان واپس لے کر لائیں کیونکہ اگر اوپر جاتے ہوئے (جو کہ مشکل چڑھائی ہوتی ہے) وہ زیادہ وزن اٹھا کر اوپر چڑھ سکتے ہیں تو واپسی کا نیچے اترنے کا سفر تو ویسے بھی آسان ہوتا ہے اور سامان بھی کم رہ جاتا ہے۔
 
’کےٹو کے ہائی ایلٹیٹیوٹ پر صفائی کا تجربہ اور مہارت پاکستانیوں کے پاس نہیں‘
 
image
 
عمران حیدر تھہیم کا ماننا ہے کہ ڈائریکٹوریٹ آف سینٹرل قراقرم نیشنل پارک گلگت بلتستان نے حالیہ صفائی مہم کی جو تصاویر شیئر کی ہیں انھیں دیکھ کر ایک عام انسان تو یہیں سمجھے گا کہ ’زبردست! کیا اچھی صفائی کی ہے‘ لیکن اسے یہ نہیں پتا کہ ہائی ایلٹیٹیوٹ پر کیا صورتحال ہے۔
 
ان کا ماننا ہے کہ کےٹو کے ہائی ایلٹیٹیوٹ پر صفائی کا تجربہ اور مہارت پاکستانیوں کے پاس نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی کوئی کمپنی ایسی نہیں ہے جو کیمپ فور یا ڈیتھ زون میں صفائی یا رسی لگانے کی سہولیات فراہم کرنے کی اہلیت رکھتی ہو اور اصل مہارت کیمپ فور سے سمٹ تک کے علاقے میں ہی چاہیے۔
 
’اگر سمٹ کا ثبوت لایا جا سکتا ہے تو کمپنیوں سے روٹ کی صفائی کے ثبوت بھی مانگیں‘
جہاں تک قوانین کی بات ہے تو اس حوالے سے عمران حیدر تھہیم کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے پاکستان میں اس حوالے سے اب تک کوئی قانون سازی نہیں ہوئی۔
 
عمران کا کہنا ہے کہ اگر کوہ پیما کو پرمٹ دیتے وقت ان سے پیسے لے لیے گئے ہیں تو پھر کچرا اٹھانا سی کے این پی کی ذمہ داری ہے۔ تاہم ان کا ماننا ہے کہ چونکہ پاکستان میں ہمارے پاس تجربے کی کمی ہے لہذا پیسے لینے کے بجائے ایسی قانون سازی ہونی چاہیے کہ کوہ پیما کو پابند کیا جائے کہ ذاتی گئیر وہ خود لائیں اور کمپنیوں کو پابند کیا جائے کہ ماؤنٹین ہارڈ ویئر وہ اتار کر واپس لائیں، کیونکہ ان کمپنیوں کے پاس تجربہ کار شرپا موجود ہیں۔
 
عمران حیدر تھہیم کی رائے میں ان کمپنیوں سے ثبوت مانگنے چاہیں ’اگر سمٹ کا ثبوت لایا جا سکتا ہے تو روٹ کی صفائی (جہاں جہاں ان کے فٹ پرنٹ گئے ہیں) کے ثبوت بھی لا کر دیں کہ جو کچھ لے کر گئے ہیں وہ سب واپس لائے ہیں۔‘
 
’کوہ پیما اپنے کارناموں کا چرچا تو کر لیتے ہیں لیکن جب ماحول کی بات آئے تو اسے نظر انداز کر دیتے ہیں‘
 
image
 
ہم سب نے ایسی کئی تصاویر تو دیکھ رکھی ہیں جن میں سکردو سے بیس کیمپ جانے والوں کے تمام کوہ پیماؤں کے سامان کا وزن کیا جاتا ہے مگر کبھی ایسی کوئی تصویر سامنے نہیں آئی، یا کم از کم میں نے نہیں دیکھی جس میں واپسی کے سفر پر بھی وزن ہوتا دکھائی دے۔
 
اس حوالے سے عمران کا کہنا ہے کہ ایسا میکنزم بھی چاہیے کہ سکردو سے جاتے اور واپسی پر سامان کا وزن کیا جائے کہ جتنا سامان پہاڑ پر گیا تھا اس میں سے کتنا واپس لایا گیا، اس سب کا لاگ موجود ہونا چاہیے تاکہ اگلے سال اس حساب سے پلاننگ کی جائے۔
 
وہ کہتے ہیں کہ ماؤنٹین ہارڈ ویئر کے معاملے میں مثلاً اگر رسی کی بات کی جائے تو سب کو معلوم ہے کہ کس کیمپ سے دوسرے تک کتنی رسی استعمال ہو گی، واپسی پر لئیزن آفیسر کو چیک کرنا چاہیے کہ اتنی رسی واپس آئی یا نہیں۔۔۔ عمران کہتے ہیں کہ ’کوہ پیما اپنے کارناموں کا چرچا تو کر لیتے ہیں لیکن جب ماحول کی بات آئے تو اسے نظر انداز کر دیتے ہیں۔‘
 
نیپال میں ہر کلائمنگ سیزن کے اختتام پر شرپاؤں کا ایکسپیڈیشن صفائی کے لیے پہاڑ پر جاتا ہے
 
image
 
عمران حیدر تھہیم کا ماننا ہے کہ ہماری حکومت کو فیصلہ کرنا پڑے گا اور اس حوالے سے قوانین بنانے اور انھیں نافذ کروانا پڑے گا، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں تو آج تک پتا ہی نہیں چل سکا کہ کوئی قوانین موجود بھی ہیں یا نہیں۔
 
وہ نیپال کی مثال دیتے ہیں جہاں پہاڑوں سے صفائی کا انتظام ڈاٹ (ڈیپارٹمنٹ آف ٹورازم) کے پاس ہے جنھوں نے اس حوالے سے میکنزم بنا رکھا ہے ہر کلائمنگ سیزن ختم ہونے کے بعد جب سب کوہ پیما نیچے آ جاتے ہیں، تب ان کےشرپاؤں کا ایک ایکسپیڈیشن صفائی کی غرض سے اوپر جاتا ہے۔
 
یہ شرپا جتنا کچرا نیچے لاتے ہیں ہر سال اس سب کا لاگ بنایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر اس سال 600 لوگوں نے ایورسٹ پر کوہ پیمائی کی تو ان کے پاس حساب ہوتا ہے کہ کتنا کچرا نیچے آنا چاہیے اور اسی لاگ کی بنیاد پر اگلے سال کی پلاننگ کی جاتی ہے اور اگر اگلے برس 800 کوہ پیما اوپر جا رہے ہیں تو انھیں معلوم ہو گا کہ اس برس کتنا کچرا نیچے آنا چاہیے۔
 
اس ایکسپیڈیشن میں شامل ٹیم پہاڑ سے کچرا نیچے لا کر ڈاٹ کو جمع کرواتے ہیں جس کے بعد یہ محکمہ کلیئرنس دیتا ہے کہ ’اب پہاڑ تیار ہے‘ بالکل ویسے ہی ہی جیسے ہر مہمان کے جانے کے بعد ہوٹل کے کمرے کو اگلے مہمان کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔
 
عمران حیدر کا کہنا ہے پاکستان میں جتنے کوہ پیماؤں اور شرپاؤں نے 8000 میٹر بلند کی چوٹیاں سر کر رکھی ہیں ان کی ایک کمیٹی بننی چاہیے جو اس حوالے سے طریقہ کار وضع کریں کیونکہ کس لیول پر کتنا کچرا ہے، ان کوہ پیماؤں سے بہتر کسی کے پاس معلومات نہیں ہیں۔
 
’اس سال کے ٹو پر ایک دن میں 40 برس سے دُگنا کچرا جمع ہوا‘
 
image
 
جہاں تک نیپال کی بات ہے تو وہ اپنی چوٹیوں کی ہر سیزن کے بعد صفائی کرتے ہیں تو کے ٹو پر اب تک کتنی بار ایسی صفائی مہمات ہوئیں؟
 
اس حوالے سے عمران کہتے ہیں کہ اس سے قبل چونکہ کے ٹو پر اتنے سمٹ نہیں ہوئے تھے لہذا ضرورت محسوس نہیں ہوئی تھی مگر اس برس ایک دن میں جتنے سمٹ ہوئے کہ کچرا بھی اسی حساب سے جمع ہوا۔
 
عمران حیدر تھہیم کہتے ہیں کہ کےٹو پر اس برس جمع ہونے والے کچرے کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ سنہ 1954 سے 1994 تک 40 برس میں جتنے کوہ پیماؤں کا کچرا کے ٹو پر اکھٹا ہوا تھا، اس سے دُگنا کچرا اس مرتبہ ایک دن میں اکھٹا ہوا۔ یاد رہے ان 40 برسوں میں 70 فیصد کوہ پیماؤں نے بغیر آکسیجن کےٹو کو سمٹ کیا، مگر اس مرتبہ صرف تین فیصد نے بغیر آکسیجن کے سمٹ کیا۔
 
کے ٹو پر جمع کچرا ماحول کے ساتھ ساتھ کوہ پیماؤں کے لیے خطرناک
 
image
 
کے ٹو پر جمع ہونے والا کچرا نہ صرف پہاڑ کے ایکو سسٹم بلکہ خود کوہ پیماؤں کے لیے بہت شدید خطرات کا باعث بن سکتا ہے۔
 
مثال کے طور پر اتنا تو ہم سبھی جانتے ہیں کہ اگر پرانی رسیاں کسی روٹ پر لگی رہ جائیں تو اگلے سیزن میں کوہ پیما اس پرانی رسی کا انتخاب کر سکتے ہیں جو شاید اتنی مضبوط نہ رہی ہو اور انھیں سہارا نہ دے سکے۔ امریکی کوہ پیما سارہ سٹریٹن نے بھی اسی خطرے کی نشاندہی کی ہے۔
 
اس کے علاوہ کے ٹو کے کیمپ ون، ٹو اور تھری تک بہت کم جگہ والی سلوپس موجود ہیں، اگر ان سلوپس پر ان کی برداشت سے زیادہ کچرا جمع ہو جائے تو وہ سلائیڈ یا سلپ کرے گا جو غیر قدرتی ہے۔
 
دوسری صورت میں جب ایک سال کوہ پیما اپنا کچرا پہاڑ پر چھوڑ آئیں، اگلے سال اس پر نئی برف پڑے گی اور جب پہاڑ اپنی صفائی کا طرقہ کار اپنائے گا تو برف کی نچلی آئس شیٹ پگھلنے کی صورت میں برف کی تہہ خطرناک ہو جائے گی یعنی آپ کا لایا ہوا کچرا غیر قدرتی تودے لانے یا کسی حادثے کا سبب بن سکتا ہے۔
 
عمران حیدر کی رائے میں بہترین حل یہی ہے کہ حکومت ایک سال کے لیے کسی کو کلائمنگ کی اجازت نہ دے اور اگر نیپالی مدد کرنا چاہتے ہیں تو انھیں ساتھ ملا کر پہاڑ کی صفائی کر لیں اور ہر سال کمرشلائزیشن اور صفائی کے حوالے سے میکنزم بنا لیں اور انھیں نافذ کروائیں تو اسی صورت میں پہاڑ بچ سکتا ہے ورنہ دوسری صورت میں اگر کے ٹو کے ہائی ایلٹیٹیوٹ پر سے کچرا صاف نہ کیا گیا تو یہ یقیناً کسی بڑے حادثے کا باعث بنے گا۔
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: