ملکی تاریخ کا بدترین سیلاب اور حکومتی اہلکاروں کے پرتعیش دورے٬ عوام کی داد رسی کون کرے گا؟

image
 
یہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے آپ کسی بات کو دبا یا چھپا نہیں سکتے۔ہم ہر روز سوشل میڈیا کے زریعے سیلاب زدگان کی دل دہلا دینے والی ویڈیوز اور تصویریں دیکھ رہے ہیں۔ ہم گھر میں بیٹھے محفوظ لوگ ان آفت زدگان کی تکلیف کا اندازہ لگا ہی نہیں سکتے۔ ایک انتہائی تکلیف دہ اور دردناک منظر نظروں سے گزرا کہ پانچ بھائی مسلسل چار گھنٹے اپنی موت کو سامنے دیکھتے ہوئے مدد کے منتظر رہے اور بالآخر مدد نہ پہنچنے کی صورت میں وہ زندگی کی جنگ ہار گئے۔
 
دوسری جانب ہمارے وزراء سرکاری غیر ملکی دورے پر اپنے خاندان اور ساتھیوں کے ساتھ ایک پرتعیش کھانے کی میز پر پرسکون انداز میں زندگی کے مزے لوٹتے ہوئے نظر آئے۔ یہ غیر ملکی دورے حکومتی خرچے پر ہی ہوتے ہیں کیا یہ پیسہ عوام پر خرچ نہیں ہونا چاہئے ؟کیا ان خرچوں پر کوئی ہیلی کوپٹر یا جہاز ان مصیبت میں پھنسے لوگوں کی مدد کے لئے نہیں پہنچنا چاہیے؟ ہزاروں سوالات ہیں جن کے کوئی جواب نہیں۔ سوشل میڈیا تو شروع ہی سے سیلاب زدگان کی کوریج کے لئے فعال ہے۔ ہمارے ٹی وی پر آخر حکومت اور اپوزیشن کی کھینچا تانی کو اتنی اہمیت کیوں دی جا رہی ہے۔ یہ وقت ہے کہ سب ایک ہو کر اس ڈوبتی ہوئی کشتی کو بچائیں ۔ کچھ سیاسی جماعتیں کوشاں نظر آرہی ہیں لیکن ہماری بڑی سیاسی جماعتیں تو شاید ان حالات سے بالکل بے خبر ہیں انھیں جھنجھوڑنے کی ضرورت ہے۔
 
عوام، جرنلسٹ کمیونٹی اور سوشل ورک تنظیموں سے جو ہو سکتا ہے کر رہے ہیں دکھ اس بات کا ہے کہ جن لوگوں کو ہم نے ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے لئے حکومت دی ہے ان میں سے کوئی سیاستدان کبھی کسی ریلیف ایکٹیویٹی میں نظر نہیں آتے۔ بس کرسی کی ایک جنگ ہے جو جاری و ساری ہے۔ ابھی ملک جس دور سے گزر رہا ہے اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ غیر ملکی دوروں کو روک کر ملک پر توجہ دی جائے سوچنے کی بات ہے ملک دیوالیہ ہے اور عوام پر مہنگائی کا بوجھ ڈالا ہوا ہے مڈل کلاس کو غربت کی لائن کے قریب دھکیلا جا رہا ہے لیکن ان غیر ملکی دوروں کے لئے حکومت کے خزانے میں پیسے آ جاتے ہیں ایسا کونسا جادو کا چراغ ہے جو ان دوروں کے لئے خزانے میں دولت بھر دیتا ہے۔
 
image
 
اور دوروں پر کوئی ایک دو افراد نہیں بڑی بڑی ٹیمیں جاتی ہیں۔ یہ باتیں ہیں تو کڑوی لیکن سچ ہیں یہ وہ کڑوا گھونٹ ہے جو عوام برسوں سے پیتے آرہے ہیں اور اب یہ پانی سر سے گزر چکا ہے۔ ایک پاکستانی ہونے کے ناطے ہمارا فرض ہے کہ ہم جس طرح بھی ہو سکے اس مصیبت کے وقت میں ان زلزلہ زدگان کا ساتھ دیں کچھ نہیں کر سکتے تو ان کی آواز ہی بن جائیں کیونکہ روز آخر ہم سب اس ظلم کے لئے کٹہرے میں کھڑے کئے جائیں گے۔
 
مون سون کی شدید بارشوں اور سیلاب نے پاکستان میں جون کے وسط سے تقریباً 2.3 ملین افراد کو متاثر کیا ہے، جس سے کم از کم 95,350 مکانات تباہ ہوچکے ہیں اور تقریباً 224,100 کو نقصان پہنچا ہے۔ انسانی اور بنیادی ڈھانچے کے خصارے کے لحاظ سے سندھ اور بلوچستان دو سب سے زیادہ متاثرہ صوبے ہیں۔ 504,000 سے زیادہ مویشی ہلاک ہوچکے ہیں، جن میں سے تقریباً سبھی صوبہ بلوچستان میں ہیں، جب کہ تقریباً 3000 کلومیٹر سڑکوں اور 129 پلوں کو نقصان پہنچنے سے سیلاب سے متاثرہ علاقوں تک رسائی تک نہیں ہے۔ یہ بھی سب اندازہ ہے اصل نقصان کا تو کوئی تخمینہ نہیں لگا سکتا۔
 
image
 
بے شک یہ ایک قدرتی آفت ہے جس کے سامنے بڑے سے بڑے ترقی یافتہ ممالک بھی کچھ نہیں کر پاتے لیکن بات صرف یہ ہے کہ آپ اقدامات تو کرتے نظر آئیں۔ پاکستانی عوام ہر مصیبت کے وقت اپنے لوگوں کو سپورٹ کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں یہ اس قوم کا خاصہ ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان علاقوں تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں سلامت ہے اور غذا اور دوسری ضرورت کی اشیاء جہازوں کے زریعے ہی پہنچائی جا سکتی ہے۔ پاک فوج ان حالات کو سنبھالنے کے لئے ہمیشہ فعال رہتی ہے لیکن اس مصیبت کے وقت ہم سیاستدانوں کی عیاشی کے کسی طرح بھی متحمل نہیں ہو سکتے۔ پاکستان بیمار ہے اس کو مسیحا اور دوا کی ضرورت ہے۔ اب یہ وڈیرہ کلچر کو خداحافظ کرنا ناگزیر ہو گیا ہے۔
YOU MAY ALSO LIKE: