شاہ عالم مارکیٹ کی موجودہ سڑک کے اختتام پر رنگ محل کا
علاقہ ہے۔شاہ عالمی کی سڑک کے اختتام پر ایک چھوٹی سی تین کونی گراؤنڈ ہوتی
تھی جو اب مکمل طور پر چھوٹے چھوٹے بہت سے دکانداروں کے قبضے میں ہے۔اس تین
کونی گراؤنڈ اور اس کے دائیں طرف سنہری مسجد تک باؤلی کا باغ تھاجس کے ایک
طرف کشمیری بازار اور دوسری طرف کسیرا بازار ہے۔ بہت بچپن میں ، میں ان
گراؤنڈوں میں کھیلا ہوں مگر اب تو ان کے آثار بھی مٹنے لگے ہیں۔ قبضہ مافیا
نے لاہور کے فطری حسن کو جس طرح تباہ کیا ہے یہ جگہ اس کی روشن مثال ہے۔
شاہ عالمی کی اس سڑک کے اختتام پر موجود اس ٹی کو رنگ محل کا چوک کہتے
ہیں۔اس چوک سے اگر آپ دائیں مڑیں تو کشمیری بازار شروع ہو جاتا ہے۔ یہ
بازار کبھی لاہور کا سب سے بڑا تجارتی مرکز تھا جس کی ابتدا تقریباً چار سو
سال پہلے مغلوں کے عہد میں ہوئی تھی۔کپڑا، جیولری، جوتیاں سمیت ہر چیز حتیٰ
کہ کتابوں اور سٹیشنری کی بڑی دکانیں بھی اسی بازار میں تھیں۔ انارکلی کی
چھاؤنی سے پہلے یہی لاہوریوں کا انارکلی بازار بھی تھا۔ اردو بازار جو کبھی
موہن لال روڈ ہوتا تھا ،وہاں چند چھوٹی دکانیں بہت بعد میں وجود میں آئیں
اور یہاں گلاب سنگھ نے اپنا پرنٹنگ پریس بھی بنا جو آج پرنٹنگ پریس آف
پاکستان کی ملکیت ہے ۔ پیسہ ا خبار اور چند دوسرے پرنٹنگ کے ادارے بھی یہاں
بعد میں بنے لیکن پریس اور پبلشنگ کا بڑا کاروبار پاکستان بننے کے بعد بھی
کشمیری بازار ہی میں ہوتا تھا۔
اسی سڑک کے اختتام پررنگ محل چوک سے بائیں طرف راستہ موتی بازار اور پانی
والا تالاب کی طرف جاتا ہے۔ موتی بازار کو موتی بازار کیوں کہتے ہیں،اس
بارے بہت سی روایات ہیں۔ یہاں پاکستان کی سب سے بڑی ہول سیل جوتا مارکیٹ
ہے۔ بنے ہوئے جوتے اور جوتوں میں استعمال ہونے والا تمام مٹیریل یہاں ہول
سیل میں دستیاب ہے ۔ کبھی اس بازار میں بہت سے موچی بیٹھتے تھے، اس حوالے
سے یہ موچی بازار کہلاتا تھا مگر وہاں کے مکینوں کو شاید موچی کا لفظ پسند
نہیں تھا انہوں نے بدل کر اسے موتی بازار بنا دیا۔ قریب ہی شاہی قلعہ ہے جس
کی موتی مسجد پاکستان کی خوبصورت تاریخی مسجد ہے۔ ہر دور میں جب مرد حضرات
نماز کے لئے بادشاہی مسجد کا رخ کرتے تو بیگمات اسی بازار سے گزر کر قلعہ
کی موتی مسجد میں نماز پڑھنے جاتی تھیں یہ بازار ان کی گزر گاہ تھا۔ موتی
مسجد کی گزرگاہ کا حوالہ دے کر اسے موتی بازار قرار دے دیا گیا ہے۔موتی
بازار سے پہلے کونے میں پاکستان کی سب سے بڑی چوڑی مارکیٹ ہے۔ رنگ برنگی ہر
سائز کی چوڑیاں یہاں دستیاب ہیں۔ اس کونے کے بائیں طرف ایک چھوٹی سی گلی
میں کپڑے پر کڑھائی اور سلمیٰ ستارے کا ہوتا ہے۔اسی بائیں جانب ذرہ آگے
پانی والا تالاب ہے۔یہ اصل میں کوئی کھلا تالاب نہیں بلکہ بند بلڈنگ ہے جس
کے اندر لاہور کو پانی فراہم کرنے کے لئے سٹیل کا ایک بہت بڑا ٹینک ہے جس
میں اندرون لاہور کی آبادی کے لئے دس ہزار گیلن پانی محفوظ کیا جاتا ہے۔اس
ٹینک کا افتتاح 1883 میں پنجاب میں اس وقت کے لیفٹیننٹ گورنر سر چارلس
ایچیسن نے کیا اور یہ آج تک اندرون لاہور کے مکینوں کو پینے کا صاف پانی
فراہم کر رہا ہے۔
شا عالمی سے آتے رنگ محل چوک میں آپ دائیں یا بائیں مڑنے کی بجائے آپ سیدھے
چلتے جائیں تو آپ سامنے ایک گلی میں داخل ہوتے ہیں۔ یہ حویلی کابلی مل
ہے۔چونکہ میرا تعلق اسی جگہ سے ہے اس لئے کئی دوست پوچھتے ہیں کہ کابلی مل
کون تھا۔ کابلی مل 1762 سے 1765 تک تقریباً ڈھائی یاتین سال پنجاب کا گورنر
تھا۔یہ انتہائی ابتری کا دور تھا۔پنجاب میں جب سکھوں کا زور بڑھ رہا تھا تو
اس وقت احمد شاہ ابدالی نے پنجاب پر پے در پے حملے کئے۔لیکن اس کا انداز
عقاب کی طرح کا تھا۔ وہ جھپٹتا، مخالفوں کو شکست دیتا اور واپس چلا جاتا۔
وہ 1764 میں جب لاہور پر حملہ آور ہوا تو اس کی آمد کی خبر پا کر سکھ فرار
ہو گئے۔ واپسی پر ستلج کے پار سکھوں سے ایک لڑائی ہوئی جس میں پچیس ہزار
سکھ مارے گئے۔لودھیانہ کے قریب جنگ میں بھی بہت سے سکھ مارے گئے اور سکھ اس
مقام کو گھلو گھاڑہ کہتے ہیں یعنی قتل عام کی جگہ۔کابلی مل ایک ہندو تھا،
کابل کا رہائشی تھا اور احمد شاہ ابدالی کا ایک باعتماد آدمی تھا۔ وہ اس کے
لشکر کے ساتھ ہی آیا تھا۔اس ابتری کے دور میں احمد شاہ نے اسے لاہور کا
گورنر نامزد کر دیا اور خو د سکھوں سے لڑتا لڑتا قندھار کو روانہ ہو
گیا۔احمد شاہ کی واپسی کی خبر پا کر سکھ ایک دفعہ پھر واپس آ گئے اور انہوں
نے گوجر سنگھ، لہنا سنگھ اور سوبھا سنگھ کی قیادت میں لاہور پر حملہ کر
دیا۔ پہلے وہ مضافات میں لوٹ مار کرتے رہے پھر شہر کا رخ کیا۔کابلی مل نے
بڑی دلیری اور حوصلے کے ساتھ کئی ماہ تک ان کا مقابلہ کیا۔اس نے سوائے دو
دروازوں کے شہر کے تمام راستے بند کر دئے اور تمام راستوں پر پہرا بٹھا
دیا۔جب اس کی اپنی حالت ابتر ہونے لگی تو اس نے شہر میں خود ہی لوٹ مار
شروع کر دی ۔ ساری صرافوں اور ساہوکاروں سے سب کچھ چھین لیا۔ مگر صورت حال
میں کوئی بہتری نہ آئی۔نا امید ہو کر اس نے جو سمیٹا جا سکتا تھا سمیٹا اور
لاہور سے فرار ہو گیا۔
کابلی مل کے جانے کے بعد سکھ شہر میں داخل ہوئے اور خوب لوٹ مار کرنے کے
بعد لاہور کو تین حصوں میں بانٹ لیا۔ ان تین لوگوں نے 1764 سے 1794 تک
تقریباً تیس سال حکومت کی۔لہنا سنگھ جس کا تعلق مجیٹھیہ مثل سے تھا، قلعے
اور اندرون شہر کا حکمران تھا۔کہنیا مثل کاسوبھا سنگھ لاہور کے جنوب کا
حکمران بنا اس نے اپنا چھوٹا سا قلعہ نوا کوٹ کے علاقے میں زبیدہ بیگم کے
باغ میں بنا کر وہیں اپنی رہائش رکھی۔بھنگی مثل کا گوجر سنگھ شہر کے شمالی
علاقے شالیمار سے اندروں شہر تک کا حکمران قرار پایا۔موجودہ قلعہ گوجر سنگھ
کبھی اسی کی رہائش گاہ تھا ۔
رنگ محل کے اس محلے میں کابلی مل کی حویلی کے فقط کچھ نشان باقی ہیں جو ا س
لوٹ مار کے دور میں کچھ دن کے مہمان ہیں۔ حکومت ثقافتی ورثے کی حفاظت کے
نام پر کروڑوں خرچ کر رہی ہے۔ مگر یہ تمام سرمایہ شاہی حمام، سورن سنگھ کی
گلی یا قلعے کی حفاظت اور ان کی نمائش پر خرچ ہو رہا ہے۔ باقی پورے شہر میں
موجود بہت سی نایاب عمارتیں قبضہ گروپوں اور مارکیٹوں کی زد میں ہیں جو
اپنی ضرورت کے مطابق ان عمارتوں کا نشان تک مٹانے سے دریغ نہیں کرتے۔ حکومت
کو اندرون شہر میں موجود ثقافتی ورثے کی حفاظت کے لئے قبضہ گروپوں کے خلاف
سخت اقدامات اور مارکیٹوں کوشہر سے باہر منتقل کرنے کے انتظامات کرنے ہوں
گے۔ ان اقدامات کے بغیر باقی سب کچھ دکھاوے کے سوا کچھ نہیں۔
|