قاٸد کا پاکستان۔ ایک خوابٍ لاحاصل

” جی میرے کچے مکان میں دو کمرے تھے ۔۔۔صحن کے کونے میں ایک ٹین کی چھت ڈالی تھی، جانوروں کے لیے ۔۔۔ تین چارپاٸیاں اور دو بستر۔۔۔ایک ٹرنک جس کا کنڈا ٹوٹا ہوا تھا۔۔۔ تھوڑے سے کپڑے۔۔۔دو دیگچیاں۔۔۔ ایک بڑی اور دوسری قدرے چھوٹی۔۔۔ سات پلیٹیں اور چار گلاس ۔۔۔ پانچ بکریاں اور چھ مرغیاں“
”بابا جی اتنا کچھ تھا آپ کے پاس یا ویسے لکھوانے بیٹھ گیے“

حکومت نے سیلاب زدگان کے نقصان کی فہرست جمع کرنے کو کیمپ قاٸم کیا تھا ۔ جہاں اہلکار بیٹھے لوگوں سے ان کے گھر اور سامان کے کواٸف درج کر رہے تھے ۔ پورا دن لاٸن میں لگنے کے بعد میر اَلَّہ یار کی باری آٸی تھی ۔ اس کی عمر 63 برس تھی مگر دیکھنے میں 80 برس معلوم ہوتی تھی ۔میر الَّہ یار بلوچستان کے ایک گاٶں کوہلو سے سبی میں قاٸم اس کمپ میں آیا تھا۔۔۔ وہ وہاں کے پرٸمری سکول میں استاد ہوا کرتا تھا۔۔۔ تین سال پہلے ریٹاٸر ہو گیا تھا۔۔۔ اس نے بہت سوچ سوچ کر یہ کواٸف بتاٸے تھے ۔ سرکاری اہلکار کی بات سن کر کچھ دیر کے لیے تو سکتہ میں آگیا اور پھر گہری سوچ والی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔

کپکپاتے ہونٹوں سے لرزاں آواز کے ساتھ بولا:
”جناب آپ میرے اس نقصان کا مداوا رہنے دیں۔۔۔ بس میری مکمل التجا سن لیجٸے ۔۔۔ میرا دو کمروں کا کچا مکان تھا مگر اس کی چھت۔۔۔ بچا لیتی تھی ہمیں سردی، گرمی اور بارش سے۔۔۔ اور اسی کچے مکان کے کچے صحن میں کھیلتے تھے بچے ۔۔۔ پھر اسی آنگن ہم سب مل کر کھاتے تھے روٹی۔۔۔ آخری روٹی کے برابر ٹکرے کر کے بانٹ لیتے تھے ہم سب ۔۔۔ چند پھٹے پرانے ہی سہی پر تن تو ڈھانپتے تھے وہ کپڑے۔۔۔ چارپاٸیوں اور بستروں پر مل جل کر چین کی نیند سو لیتے تھے ۔۔۔ برتن کم تھے اسلٸے میری بہو بار بار دھو لیتی تھی ۔۔۔ کبھی گھر لیں پیسے نہ ہوتے دال سبزی پکانے کو ۔۔۔ تو بکری کے دودھ کے ساتھ انڈا ہی کھا لیتے تھے۔“

”جی حضور بس ۔۔۔ بس بہت سادا تھی زندگی۔۔۔ پر ۔۔۔پر ۔۔۔ پر زندگی تو تھی۔۔۔ اب تو بہا لے گیا سب کچھ یہ سرکش پانی ۔۔۔ غم اس کا کروں کہ کچی چھت نہ رہی۔۔۔ نہ کچا صحن۔۔۔ نہ بستر ۔۔۔ نہ چارپاٸی۔۔۔ نہ برتن۔۔۔ یا ماتم اس پر کروں کر کچے صحن میں کھیلتے بچے نہ رہے ۔۔۔ جی۔۔۔ بہا لے گیا سب کچھ یہ بے لگام زورآور پانی۔۔۔ میرے چاند سے دو پوتے ۔۔۔۔ ایک شہزادی سی پوتی۔۔۔ میرا شیر جوان بیٹا ۔۔۔ جو اس بڑھاپے کی عمر میں۔۔۔ ایک مضبوط درخت کے مضبوط تنے کی طرح۔۔۔ میرا سہارا تھا ۔۔۔ میری گھر والی۔۔۔ جو 45 سالوں سے میرے دکھ سکھ کی ساتھی تھی۔۔۔ باقی رہ گٸ ہم ۔۔۔ اس سنگدل اور ستمگر دنیا کے رحم و کرم پر ۔۔۔“

یہ کہہ کر اس نے اپنی بہو کے گود میں بیٹھی چھوٹی سی پری ناز کے سر پر ہاتھ رکھ دیا۔۔۔ جو ایک سوکھی روٹی کے ٹکرے کو۔۔۔ اپنے چھوٹے چھوٹے لاغر ہاتھوں سے پکڑ کر کھانے کی کوشش میں لگی ۔۔۔پری ناز اپنوں کے بچھڑنے کے غم سے غیر آشنا تھی۔۔۔ اس کو صرف بھوک لگی تھی ۔۔۔

اَلَّہ یار اپنی چھڑی۔۔۔ جو ایک درخت کی ٹہنی تھی۔۔۔ کے سہارے سے لڑکھڑاتا ہوا اٹھا اور اپنی بہو اور پوتی کو ساتھ لیے چل پڑا۔۔۔۔دو قدم چل کر رکا اور پیچھے مڑ کے دیکھا ۔۔۔ بولا

”حضور آپ چاہ کر بھی میرے گھاٹے کی تلافی نہیں کر سکتے۔۔۔ بس میری یہ التجا ہے ۔۔۔ کچھ ایسا کرو ۔۔۔ کہ اس سرزمین کے لوگوں کو ۔۔۔ آٸندہ میری اور ان سب مصیبت زدہ لوگوں کی طرح ۔۔۔۔ جو آج یہاں موجود ہیں۔۔۔ ان لمبی اور بے فیض قطاروں میں لگ کر بےبسی کا تماشا نہ بننا پڑے ۔۔۔جناب ان بارشوں۔۔۔ ان رب کی رحمتوں کو ۔۔۔ زحمت نہ بننے دیں۔۔ ان کو قدرتی آفات کا نام دے کر لاکھوں لوگوں کو بےگھر اور بے یارومددگار نہ ہونے دیں ۔۔۔ قومی وصاٸل کو صحیح جگہ استعمال کر کہ ان خودساختہ مصاٸب اور مشکلات کا تدارک کریں۔۔۔خدا کے وسطے۔۔۔ میرے قاٸد کے خوبوں کو۔۔۔ جو آج بھی ہماری آنکھوں میں بسے ہیں ۔۔۔ لاحاصل نہ بننے دیں“
پھر اس نے اپنے کانپتے ہوۓ ہاتھ آسمان کی طرف بلند کیے اور
”اے میرے پروردیگار رحم کرنا میرے ہم وطنوں پر۔۔۔اے میرے پروردیگار رحم کرنا میرے ہم وطنوں پر۔۔۔اے میرے پروردیگار رحم کرنا میرے ہم وطنوں پر۔۔۔“
کہتے کہتے سب کی آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔۔۔
 

Saima Qureshi
About the Author: Saima Qureshi Read More Articles by Saima Qureshi: 17 Articles with 15479 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.