کل بھی بھٹو زندہ تھا آج بھی بھٹو زندہ ہے... بلاول بھٹو یا ذوالفقار علی بھٹو جونير، سیلاب کی تباہ کاری کے بعد عوام کس کے ساتھ؟

image
 
مشرقی معاشروں میں باپ کا وارث بیٹے کو سمجھا جاتا ہے اور باپ کی گدی پر اس کے بیٹے بیٹھتے ہیں۔ مگر پاکستان کے سابق وزيراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا خاندان اس حوالے سے مختلف تاریخ کا حامل ہے۔ وزارت عظمیٰ کی کرسی سے مارشل لا کے ذریعے صرف ان کو ہٹایا ہی نہیں گیا بلکہ قتل کے ایک مقدمے کے بعد ان کو عدالت کے ذریعے پھانسی کی سزا بھی سنا دی گئی-
 
بھٹو کی پھانسی کے وقت ان کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ جن میں سے بے نظیر بھٹو ان کے بہت نزدیک تھیں جب کہ بیٹے مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو تعلیم کے حصول کے لیے ملک سے باہر تھے اس وجہ سے بے نظیر بھٹو کو ہی باپ کی پھانسی کے بعد ماں کے ہمراہ نظر بندی اور قید کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں جس کے کچھ عرصے کے بعد ان کو بھی جلاوطن ہونا پڑا-
 
اس دوران مرتضیٰ بھٹو نے المرتضی نامی ایک گروپ کی بنیاد رکھی جس نے پاکستان کے ایک جہاز کو ہائی جیک کر کے افغانستان اتار لیا جس کے بعد سے ان کا وطن میں داخلہ ممنوع ہو گیا اور ان کو مفرور قرار دے دیا گیا-
 
شاہنواز اور مرتضیٰ کی شادیاں
شاہنواز نے ریحانہ نامی ایک شامی عورت سے شادی کی تھی جس نے ان کو جھگڑے کے بعد زہر دے کر ہلاک کر دیا تھا ان کی اس عورت سے ایک ہی بیٹی تھی جو کہ خبروں سے دور ہے- جب کہ مرتضیٰ بھٹو کی شادی ایک لبنانی دوشیزہ غنویٰ بھٹو کے ساتھ ہوئی تھی اور ان کے دو بچے فاطمہ بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو جونئیر ہیں۔
 
image
 
بھٹو کی گدی بے نظیر نے کیوں سنبھالی؟
ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد مرتضیٰ بھٹو پر پاکستان میں ایسے مقدمات تھے جن کی بنیاد پر ان کا پاکستان آنا ممکن نہ تھا اس وجہ سے عملی سیاست میں بے نظیر بھٹو کو سامنے لانے کا فیصلہ کیا گیا اور وقت کے ساتھ ساتھ بے نظیر سامنے آتی گئیں جب کہ ان کے بھائی پس پشت چلے گئے-
 
بے نظیر کے وزیراعظم بننے کے بعد مرتضیٰ بھٹو واپس پاکستان آگئے اور انہوں نے دوبارہ سے عملی سیاست میں قدم رکھنے کا اعلان کر دیا جس کے بعد ان کو ان کے گھر کے سامنے نامعلوم افراد نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا اور ان کے خاندان کو جان بچانے کے لیے ملک سے باہر جانا پڑا-
 
بھٹو خاندان کا وارث کون؟
بھٹو کی پھانسی کے بعد حالات کے سبب بے نظیر بھٹو کو والد کی گدی سنبھالنی پڑی مگر بے نظير بھٹو کی شہادت کے بعد جب گدی سنبھالنے کی باری آئی تو اس بار بھی قرعہ فال بھٹو کے پوتے کے بجائے ان کے نواسے بلاول بھٹو کے نام نکلا-
 
ذوالفقار علی بھٹو جونیر
ذوالفقار علی بھٹو جو مرتضیٰ بھٹو اور غنویٰ بھٹو کے بیٹے ہیں ان کی پیدائش یکم اگست 1990 میں دمشق میں ہوئی ان کو زلفی بھٹو کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے- پیشے کے اعتبار سے وہ اپنے آپ کو آرٹسٹ کہتے ہیں جو کہ فنون لطیفہ سے گہری دلچسپی رکھتا ہے۔
 
ان کا کہنا ہے کہ ان کے خاندان کے سب اہم لوگ اس سیاست میں تشدد کے سبب مار دیے گئے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے والد کو جب مارا گیا تو ان کی عمر صرف 6 سال تھی۔ وقت اور حالات نے ان کو سیاست سے بہت دور کر دیا ہے ان کے نزدیک مردانگی کسی کو مار دینے یا تشدد کرنے کا نام نہیں ہے-
 
image
 
مگر حالیہ دنوں میں اپنے پھوپھی زاد بھائی اور موجودہ وزیر خارجہ کے مقابلے میں بہت تعریفی نظروں سے دیکھا جا رہا ہے کیوں کہ سیلاب زدگان کی امداد کے لیے جونیر بھٹو بغیر کسی پروٹوکول کے عوام کے درمیان موجود ہیں اور فوٹو سیشن کروائے بغیر عوام کی مدد کر رہے ہیں-
 
بلاول بھٹو زرداری
ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے بلاول 21 ستمبر 1988 کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ یہ دو بہنوں کے اکلوتے بھائی ہیں اور آکسفورڈ کے گریجوئٹ ہیں۔ والدہ کے انتقال کے بعد ان کی گدی پر ان کو بٹھایا گیا اور حالیہ دور میں وزیر خارجہ کی اہم کرسی پر براجمان ہیں اور عملی سیاست میں پیش پیش ہیں۔
 
ان کی سیاسی تربیت ان کے والد آصف علی زرداری کے زير سایہ جاری ہے جو اپنی اس خواہش کا اظہار کر چکے ہیں کہ وہ بلاول کو وزیر اعظم کی کرسی پر بیٹھے دیکھنا چاہتے ہیں-
 
وزیر اعظم کی کرسی کے امیدوار بلاول بھٹو کا حلقہ انتخاب لاڑکانہ اس وقت پانی میں ڈوبا ہوا ہے جہاں کے حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ بلاول اپنے آبائی قصبے کے لیے کچھ کریں مگر عملی طور پر اس وقت وہاں بھٹو جونیر موجود ہیں۔ امید ہے کہ بلاول جلد اپنے لاڑکانہ پر اپنا ووٹ بنک مضبوط کرنے کے لیے کچھ کریں گے ورنہ جونیر بھٹو اس بار ان سے بھٹو کی وراثت چھین بھی سکتا ہے-
YOU MAY ALSO LIKE: