اب بارش سے ڈر لگتا ہے، کراچی میں بارش سے پھیلنے والی افراتفری جو کبھی ہڑتال کی کال پر ہوتی تھی

image
 
بارشیں کسے اچھی نہیں لگتیں۔ شہروں کے لیے جہاں یہ تفریح کا موقع ہوتی ہیں تو دیہات کے لیے فائدے لے کر آتی ہیں مگر گذشتہ چند برسوں اور بالخصوص سنہ 2022 میں بارشیں پاکستان کے لیے زحمت ثابت ہوئی ہیں۔
 
بارشوں کے باعث ملک کے ایک بڑے حصے کو سیلابی صورتحال کا سامنا ہے اور تقریباً ایک ہزار سے زیادہ لوگ ہلاک اور سینکڑوں متاثر ہوئے ہیں۔
 
ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بھی تقریباً سنہ 2020 کے مون سون سے لے کر بارش کے دوران زندگی مکمل طور پر تھم ہی جاتی ہے اور اس مرتبہ مون سون کے یکے بعد دیگرے کئی سلسلوں میں بھی یہی ہوا۔
 
بی بی سی کی ہی ایک رپورٹ میں ہم نے بتایا تھا کہ کس طرح ان بارشوں کے باعث جو سڑکیں تباہ ہوئی ہیں وہ شہریوں کی جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ ذہنی کوفت اور مالی نقصان کا بھی سبب بن رہی ہیں۔
 
اسی طرح کراچی کے چند دیگر لوگوں سے بات چیت ہوئی تو ملے جلے خیالات ایسے ہی تھے کہ کراچی میں بارشیں اب کوئی خوشگوار تجربہ نہیں بلکہ گھبراہٹ کا باعث بننے لگی ہیں۔
 
چند ہفتے قبل کی بات ہے جب کراچی میں ایک دوست سے بات ہوئی تو وہ بارش کے باعث ٹریفک میں پھنسی ہوئی تھیں۔
 
اُنھوں نے بتایا کہ وہ دوستوں کے ساتھ ایک جگہ پر چائے پی رہی تھیں کہ بارش شروع ہو گئی اور بارش شروع ہوتے ہی وہ اور دیگر لوگ فوراً اٹھ کر اپنے اپنے گھروں کو بھاگنے لگے کیونکہ اب کراچی میں بارش کا مطلب ہے کہ گھنٹوں کا ٹریفک جام، گاڑیوں کو نقصان، اور گھر پہنچ پانا بھی غیر یقینی۔
 
میں نے اس شہر کو کبھی ایسا نہیں پایا تھا، یا شاید لوگوں کو آخری بار اس طرح گھروں کو بھاگتے میں نے تب دیکھا تھا جب کراچی میں ہڑتال کی کال دی جاتی۔
 
اخبار دی نیوز میں ادارتی صفحات کی ایڈیٹر زیب النسا برکی بھی ایسا ہی سوچتی ہیں۔
 
image
 
بی بی سی سے گفتگو میں اُنھوں نے کہا کہ کراچی میں بارش کے بعد اب جو بے چینی پھیلتی ہے وہ ویسی ہی ہے جب کراچی میں ہڑتال کی کال دی جاتی اور لوگ فوراً یا اپنے گھروں کو بھاگتے یا پھر گاڑیوں میں پیٹرول ڈلوانے کے لیے قطاروں میں لگ جاتے تھے۔
 
ان کا کہنا تھا کہ بارش اب کراچی میں کسی ایسے بن بلائے مہمان کی طرح محسوس ہوتی ہے جس کے لیے آپ کو خود کو ذہنی طور پر تیار کرنا پڑتا ہے اور اس کی خاطر مدارات کرنی پڑتی ہے۔
 
بارش میں دفتر یا گھر جانے کے لیے کون سا راستہ اختیار کیا جائے، ورک فرام ہوم کی صورت میں بجلی کا متبادل انتظام اور خود کو محفوظ رکھنا یہ وہ سب باتیں ہیں جن کا خیال بارش کے بادل دیکھ کر کراچی والوں کو آتا ہے۔
 
مگر اس سب میں ایک اور فکر بھی شامل کر لیں، اور وہ ہے سٹریٹ کرائم۔
 
شہری آصف انصاری نے بارشوں اور سٹریٹ کرائم کی طرف توجہ دلاتے ہوئے بتایا کہ بارشوں سے سڑکیں ٹوٹنے کے بعد ان کے ایک پڑوسی اور ایک رشتے دار خراب سڑک پر لٹ چکے ہیں۔
 
اُنھوں نے بتایا کہ بارشوں کے دوران ہونے والی ٹریفک جام اور بعد میں ٹوٹی ہوئی سڑکوں پر سست رفتار ٹریفک میں ہونے والی جرائم کی وارداتوں کے بعد وہ اب گاڑی میں جاتے ہوئے خوف محسوس کرتے ہیں کہ کہیں کسی جگہ گاڑی سست ہوتے ہی اُن سے لیپ ٹاپ یا موبائل فون چھین نہ لیا جائے۔
 
وہ اب تقریباً 70 برس کے ہو چکے ہیں اور کہتے ہیں کہ بارشوں کے باعث اس شہر میں جو خوف، اذیت اور بربادی اب دیکھنے کو ملتی ہے وہ اُنھوں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔
 
اُن کے گھر میں رواں بارشوں کے بعد 25 دن تک پانی جمع رہا کیونکہ جن نالیوں میں پانی کا نکاس ہونا تھا وہی آگے سے بند تھیں، چنانچہ سیوریج ملا پانی گھر میں کھڑے رہنے سے اُنھیں کوفت اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
 
image
 
کراچی کی ہی شہری ایک سماجی کارکن امِ سلمیٰ ہمدانی سے جب ہم نے بات کی تو اُنھوں نے بتایا کہ بارش کی وجہ سے نہ صرف طویل عرصے تک اُن کے گھر کی ذیلی منزل میں پانی کھڑا رہا بلکہ گھر کے باہر کھڑی ان کی گاڑی کو بھی شدید نقصان پہنچا۔
 
گاڑی کو نقصان اور گھر میں پانی کھڑا ہونا ان کی مشکلات میں سے صرف دو باتیں ہیں۔
 
مزید پریشانی کے بارے میں وہ کہتی ہیں کہ فوراً اپنے بیٹے کو سکول سے بحفاظت گھر پہنچانا اور گھر میں موجود عمر رسیدہ افراد کے لیے انتظامات کرنا بھی اب وہ چیزیں ہیں جو بارش کے باعث ان کے لیے مشکل ہو جاتی ہیں۔
 
وہ کہتی ہیں کہ خاص طور پر وہ لوگ جن کے گھروں میں ایسے افراد موجود ہیں جنھیں ہسپتال یا ڈاکٹر کے پاس جانا ہوتا ہے، بارش کی وجہ سے ان کے لیے بے حد دشواری ہوتی ہے کیونکہ ڈاکٹر کے پاس جانا بھی ضروری ہوتا ہے مگر باہر موجود پانی کی وجہ سے نکلا بھی نہیں جاتا۔
 
اُنھوں نے بتایا کہ حالیہ بارشوں میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ وہ کراچی کی دھوپ کے لیے ترسنے لگی تھیں۔
 
مجھے کراچی سے ہی تعلق رکھنے والے ایک وکیل عظام نقوی نے اپنے دفتر کے باہر کی اور عدالتِ عالیہ سندھ کی ویڈیوز اور تصاویر دکھائیں جن میں صرف پانی ہی پانی نظر آ رہا ہے۔
 
وہ کہتے ہیں کہ بارش ہونے کی صورت میں ٹخنوں سے لے کر گھٹنوں تک پانی کی موجودگی میں دفتر اور عدالت جانا پڑتا ہے۔
 
چنانچہ جن بھی شہریوں سے ہم نے بات کی، ان کا یہی کہنا تھا کہ اگر انفراسٹرکچر اچھا ہو، بجلی کی فراہمی اور پانی کی نکاسی جاری رہے تو ہی بارش کا لطف لیا جا سکتا ہے ورنہ پہلی بوند کے ساتھ ہی اگلی سوچ یہ آتی ہے کہ ’اب کیا ہو گا۔‘
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: