|
|
پاکستان کا ایک تہائی حصہ اس وقت سیلاب کی تباہ کاریوں
کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ مقامی لوگوں کی جاری کردہ دل دہلا دینے والی ویڈیوز
کسی قیامت کا نظارہ پیش کر رہی ہیں۔ پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخواہ کی وادی
منور میں جمعے کے روز آنے والے سیلاب کے نتیجے میں کم از کم 10 پل اور
درجنوں عمارتیں تباہ ہونے کے بعد سیکڑوں افراد دریا کے اس پار پھنسے ہوئے
ہیں۔ ایک گاؤں کے افراد دریا کے دو جانب بٹ گئے ہیں جن میں سے بہت سے افراد
اپنے گھروں تک نہیں جا سکتے۔ ان کے پاس سامان ضرورت، دوائیں، غذا کچھ بھی
تو نہیں ہے۔ وہ ہر آنے والے جرنلسٹ اور امدادی اہلکاروں سے التجائیں کر رہے
ہیں اور حکمرانوں کو خطوط کے زریعے آگاہ کر رہے ہیں۔ حکمران آتے ہیں
تصویریں کھنچواتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ امداد ی کام جاری ہے لیکن پل کی
دوبارہ تعمیر اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے تاکہ ان علاقوں تک رسائی ممکن
بنائی جاسکے یہ پل شہر کے ساتھ اہم رابطہ ہے۔ |
|
وادی منور کاغان کے پہاڑوں میں واقع ہے جو پاکستان کا
ایک مشہور سیاحتی مقام ہے۔ وادی ایک طوفانی سیلاب کی زد میں ہے جس میں
خواتین اور بچوں سمیت کم از کم 15 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ طوفانی سیلاب نے
خوبصورت وادی کو مرکزی شہر سے ملانے والا واحد کنکریٹ پل کو بہا دیا ہے۔ اس
کے بعد سے دریا کے دوسری طرف کے تمام دیہات کا رابطہ منقطع ہو گیا ہے اور
رہائشی مدد کے منتظر ہیں۔ منور میں دو پل مکمل طور پر گر گئے ہیں ابھی لکڑی
کی ایک عارضی کراسنگ بنا دی گئی ہے۔ ایک بوڑھی عورت بی بی سی کو بتاتی ہیں
کہ ان کا گھر اور بچے دریا کے دوسری طرف ہیں اب پل تعمیر ہو تو وہ اپنے گھر
جائیں ۔ ان کے گھر تک پہنچنے کے لئے دس گھنٹوں کا پیدل سفر ہے وہ بوڑھی ہیں
ابھی راستے خراب ہونے کی وجہ سے ہمت نہیں کر سکتیں۔ کتنے ہی لوگوں کو انھوں
نے اپنی آنکھوں کے سامنے ریلے کے ساتھ بہتے ہوئے دیکھا ہے۔ |
|
موبائل نیٹ ورک کا نظام ان سیلابی علاقوں میں مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔
لوگ خطوط لکھ کر پلاسٹک کی بوتلوں میں ڈال کر آگے بہا رہے ہیں تاکہ ان کے
حالات اور اپیل دوسروں تک پہنچے۔ لوگ عجیب کسمپرسی کی حالت میں ہیں۔60 سالہ
عبدالرشید اپنی مشکلات کے بارے میں بتاتے ہیں کہ انھیں سامان کی ضرورت ہے،
سڑک کی ضرورت ہے اور اس سیلاب میں انھوں نے اپنی ویگن کھو دی ہے جو ان کے
خاندان کا پیٹ پالنے کا واحد زریعہ تھی۔ |
|
لوگوں کی کمائی کے زرائع سب بہہ چکے ہیں۔ حکام اور سیاستدان وہاں فوٹو سیشن
اور تفریح کے لیے جاتے ہیں۔ فوٹو کھینچتے ہیں اور چلے جاتے ہیں اس کے بعد
وہ پلٹ کر نہیں پوچھتے۔ بے شک فوج، کچھ فلاحی ادارے اور عام لوگ بہت محنت
کر رہے ہیں اور ان کی محنت نظر بھی آرہی ہے۔ ان ہی لوگوں کی مدد سے بروقت
ریسکیو ہو گیا ورنہ مزید نقصانات ہو سکتے تھے۔ |
|
|
|
اب ان نقصانات کے بارے میں جانچ کی جائے تو الزامات
سراسر حکومت کو جاتے ہیں کہ آخر وہ دریا کے کنارے تعمیر کی اجازت کیوں دیتی
ہے۔ موسمیاتی تبدیلی سے سب واقف ہیں کیوں اس معاملے میں دوراندیشی نہیں
برتی گئی آخر ان نقصانات کا ازالہ کون کرے گا؟ |
|
ان ہوٹلوں اور بازاروں کی تعمیر کی وجہ سے قدرتی آبی
گزرگاہیں بند کر دی گئی تھیں اس وجہ سے اتنے بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے۔
پہلے بھی اس طرح بارشیں ہوتی رہی ہیں اور ہوتی رہیں گی بارش کے برسنے کا ہم
اندازہ کبھی بھی نہیں لگا سکتے تو ظاہر ہے ہم اس کے لئے اپنی طرف سے حفاظتی
اقدامات تو کر سکتے ہیں۔ آخر نیپال ، بنگلہ دیش، فلپائن اور بہت سے تیسری
دنیا کے ممالک بھی تو اس مصیبت کا سامنا کرتے ہیں۔ |
|
اب زرا ملک کے دوسرے صوبوں کی طرف آتے ہیں سندھ اور
بلوچستان سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ پاکستانی فوج سیلاب سے
متاثرہ علاقوں تک پہنچنے میں مدد کر رہی ہے کیونکہ سڑکوں کے رابطے ٹوٹ چکے
ہیں اور زیادہ تر کمیونٹیز تک پہنچنے کا واحد راستہ ہیلی کاپٹر ہے۔ پاکستان
کے جنوبی صوبہ سندھ کے تاریخی قصبے رانی پور کے قریب کسان الطاف حسین کے
چھوٹے سے گاؤں کو مکمل طور پر ڈوبنے میں صرف چار گھنٹے لگے، جہاں پچھلے
ہفتے سیلابی پانی نے درجنوں مکانات، جانور اور فصلیں بہا دیں۔ لوگ بے گھر
ہو گئے ہیں اور عارضی پناہ گاہوں میں منتقل ہو چکے ہیں۔30 گھنٹے لگاتار
ہونے والی بارشوں نے ان لوگوں کا سب کچھ بہا دیا ہے ایک خاندان کے 8 افراد
ریلے میں بہہ گئے۔ |
|
ٹھری میرواہ کینال اور مختلف ندیاں مسلسل بارشوں کی وجہ
سے اپنے بند توڑ کر بپھرے ہوئے انداز میں باہر آگئی ہے جس سے کراچی سے
تقریباً 420 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع پورا رانی پور قصبہ ڈوب گیا ہے جس کی
وجہ سے خوفزدہ رہائشیوں کو تحفظ کے لیے اپنے گھر بار چھوڑنے پڑے۔ ایک
رہائشی حسین کا کہنا ہے کہ جب سیلابی ریلہ آیا تو ہر طرف آہ و بکا تھی۔ رات
کا وقت تھا وہ اپنے گھر والوں کو لے کر چھت پر پہنچے۔ وہ ایک خوفناک منظر
تھا جسے وہ چھت سے ٹارچز اور موبائل فون کی روشنی میں دیکھ رہے تھے کیونکہ
سیلاب ان کے گاؤں کی طرف بڑھ رہا تھا۔ وہ کسی سونامی سے کم نہیں تھا۔ |
|
|
|
پانی گلیوں، کھیتوں اور مکانات کی خطرناک سطح
تک پہنچا ہوا تھا۔ فوجی دستوں کی بروقت کارروائی نے حسین کے خاندان کے 20
افراد سمیت دیہاتیوں کو بچایا۔ گھنٹوں بعد سیلابی پانی تو بہہ گیا لیکن
بدقسمت گاؤں کے تمام 500 مکانات کو بری طرح نقصان پہنچا گیا۔ پورا سندھ اس
وقت سیلابی ریلے کی تباہ کاریوں کی زد میں ہے صرف کراچی کسی حد تک محفوظ ہے۔ |
|
مون سون کی بارشیں طویل عرصے سے پاکستان میں
انسانی ہلاکتوں اور پہلے سے ہی کمزور انفراسٹرکچر کی وجہ سے تباہی مچا رہی
ہیں۔ لیکن حالیہ برسوں میں موسمیاتی تبدیلیوں نے ان کی شدت اور غیر متوقعیت
میں مزید اضافہ کیا ہے۔ وزارت ماحولیات اور موسمیاتی تبدیلی کے مطابق ملک
میں اس مون سون سیزن میں اب تک گزشتہ سال کے مقابلے میں 100 فیصد زیادہ
بارشیں ہوئی ہیں۔ ابتدائی حکومتی اندازوں کے مطابق مون سون کے جاری سلسلے
اور سیلاب نے ملک کی پہلے سے ہی تباہ حال معیشت کو 4 بلین ڈالر سے زیادہ کا
نقصان پہنچایا ہے۔ اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا کہ ان حالات کا
ہمیں پہلے ہی سے اندازہ تھا اگر ہم قبل ازوقت کچھ انتظامات کر لیتے اپنا
انفراسٹرکچر بہتر کر لیتے لوگوں کو پہلے ہی شیلٹر مہیا کر دیتے تو شاید
تھوڑا کم نقصان ہوتا۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ سب پلاننگ کون کرے۔ پلاننگ کرنے
والے تو اپنی کرسیوں کی حفاظت کر رہے ہیں ان کے پاس کہاں وقت ہے کہ عوام کی
طرف توجہ دیں ۔۔۔۔ذرا سوچئے!! |