سید علی گیلانی کی پہلی برسی اور پاکستان انتظامیہ کا '' یو ٹرن''
(Athar Masud Wani, Rawalpindi)
مقبوضہ کشمیر میں ہندوستان سے آزادی کی مزاحمتی تحریک کے مقبول عام رہنما سید علی شاہ گیلانی یکم ستمبر 2021کو طویل علالت کے بعد وفات پاگئے۔ہندوستانی انتظامیہ نے فورسز کے ذریعے مرحوم رہنما کے گھر داخل ہو کر زبردستی ان کی میت کو ساتھ لے گئے اور خود ہی ان کی تدفین کر دی۔ اس دوران ہندوستانی فورسز نے مرحوم رہنما کے اہل خانہ کو تشدد کونشانہ بنایا اور کمرے کا دروازہ توڑ کر ان کے جسد خاکی کو اپنے قبضے میں لیا۔ '' دی وائر'' کو ان کے اہل خانہ نے بتایا کہ ہندوستانی فورسز میت کو سٹریچر پر لیجانے کے بجائے فرش پہ گھسیٹ کر لے گئے۔مقبوضہ جموں و کشمیر کے سنیئر حریت رہنما سید علی شاہ گیلانی کی آج، یکم ستمبر کو پہلی برسی منائی جار ہی ہے۔ حریت کانفرنس نے اس موقع پر ان کی رہائش گاہ واقع حیدر پورہ سرینگر کی طرف عوامی مارچ کی اپیل کی ہے اور آزاد کشمیر حکومت نے ان کی برسی کے موقع کو سرکاری طور پر منانے کا اعلان کرتے ہوئے کشمیر ہائوس اسلام آباد میں ایک سیمیناراور آزاد کشمیر کے سکولوں اور کالجز میں تقریری مقابلوں کا اعلان کیا ہے۔
سید علی شاہ گیلانی مقبوضہ کشمیر میں 1988میں ہندوستان کے خلاف مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے مطالبے کے ساتھ جاری مزاحمتی تحریک کے سیاسی رہنما تھے اور وہ پاکستان کے ساتھ والہانہ عقیدت رکھتے تھے۔ ان کا یہ نعرہ کہ '' ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے'' مقبوضہ کشمیر میں بے حد مقبول رہا۔سید علی شاہ گیلانی مقبوضہ کشمیر کے عوام میں سے سے زیادہ مقبول رہنما رہے۔ چند سال قبل سید علی شاہ گیلانی کی قیادت میں '' سہ رکنی قیادت'' سامنے آئی جس میں میر واعظ عمر فاروق اور محمد یاسین ملک شامل تھے۔سید شبیر احمد شاہ نے بھی گیلانی صاحب کی قیادت میں قائم اس نئے اتحاد کی حمایت اور شمولیت اختیار کی تھی۔سید علی شاہ گیلانی اپنی وفات سے مہینوں قبل سے شدید علیل رہے اور انہوں نے اسی دوران حریت کانفرنس کی نااتفاقی کی وجہ سے حریت کانفرنس چھوڑنے کا اعلان بھی کیا تھا۔
ہندوستانی حکومت نے ایک طے شدہ منصوبے کے تحت 2017 میں حریت کانفرنس کے رہنمائوں کے خلاف اپنے تحقیقاتی ادارے'' این ئی اے'' کے ذریعے مالیاتی امور سے متعلق الزامات میں کاروائی کا ایک نیا سلسلہ شروع کر دیا۔5اگست2019 کو ہندوستانی کی '' بی جے پی '' حکومت نے اپنی پارلیمنٹ کے تمام ضوابط کو پس پشت ڈالتے ہوئے یکطرفہ طورپر آئینی ترامیم کرتے ہوئے مقبوضہ جموں وکشمیر کی ریاستی حیثیت کو ختم کرتے ہوئے ہندوستان میں مدغم کرنے کا اعلان کیا۔ہندوستانی حکومت کو اپنے اس اقدام کے لئے مقبوضہ جموں وکشمیر کے تمام آزادی پسند رہنمائوں کے ساتھ ساتھ تمام ہندوستان نواز رہنمائوں کو بھی طویل قید میں رکھنا پڑا اور دو لاکھ سے زائد تعداد میں مزید فورسز کو مقبوضہ کشمیر میں متعین کر نا پڑا۔ مقبوضہ کشمیر میں ہندوستانی فوج کے آپریشن مسلسل جاری ہیں، سیاسی رہنمائوں، کارکنوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے اور تمام مقبوضہ کشمیر کو ریاستی جبر کی ایک مستقل صورتحال کی بھینٹ چڑہایا ہوا ہے۔
ہندوستانی حکومت نے ظلم اور جبر کی انتہا سے حریت کانفرنس کو عملا غیر موثر کر دیا ہے۔پاکستان انتظامیہ کی طرف سے کشمیریوں کی مزاحمتی تحریک سے عملا لاتعلقی اور مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈالتے ہوئے کمزور ترین پوزیشن اختیار کرنے سے مقبوضہ جموں وکشمیر میں ہندوستان کو اپنی جارحانہ کاروائیوں میں بڑی مدد ملی ہے اور اب ہندوستان بغیر کسی مزاحمت کے کشمیریوں کی تحریک آزادی ہی نہیں بلکہ کشمیریوں کو سیاسی طور بھی اقلیت میں تبدیل کرنے کے اقدامات پر عمل پیرا ہے۔ظالم و جابر ہندوستان کے سامنے کشمیریوں کو تنہا چھوڑنے کی پاکستان کی حکمت عملی نے کشمیریوں کی پہلے سے کمزور پوزیشن کو کمزور تر کر دیا ہے۔پاکستان انتظامیہ نے بالخصوص گزشتہ چند سال سے پاکستان میں سیاسی انتشار کے اقدامات کرائے، اس سے پاکستان سیاسی ہی نہیں بلکہ معاشی طور بھی کمزور ترین پوزیشن سے دوچار ہو گیا ہے۔ اس صورتحال میں اب کوئی بھی یہ توقع نہیں رکھتا کہ پاکستان انتظامیہ کشمیر کے مسئلے پہ زمینی اور سفارتی سطح پہ کوئی متحرک کردار اپنا سکتی ہے۔یوں یکم ستمبر معروف آزادی پسند رہنما سید علی شاہ گیلانی کی تو پہلی برسی ہے لیکن یہ پاکستان انتظامیہ کی کشمیریوں اور مسئلہ کشمیر سے لاتعلقی کی پالیسی کی پہلی برسی نہیں ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان انتظامیہ کا کشمیریوں اور خود پاکستان کے وسیع ترمفادات کے برعکس کردار اتنا کھل کر سامنے آتا جا رہا ہے کہ اب عریاں ہونے کا لفظ بھی ناکافی معلوم ہوتا ہے۔ |