|
|
جب لوگ 1912 میں ٹائٹینک اور اس کے ڈرامائی طور پر ڈوبنے
کے بارے میں سوچتے ہیں تو وہ لامحالہ ان بدقسمت مسافروں کا تصور کرتے ہیں
جو جہاز کے ساتھ ڈوب گئے تھے۔2،240 مسافروں اور عملے پر مشتمل جہاز جن میں
سے 1,500 سے زیادہ تعداد میں مسافر لقمہ اجل بن گئے۔ مرنے والوں میں کچھ
معروف شخصیات بھی تھیں لیکن تباہ کن آئس برگ نے کس کی پرواہ کی۔ |
|
ایک کبھی نہ ڈوبنے والے جہاز کے نام سے تکبر کی یہ نشانی
جس میں ہر طبقے کے لوگ سفر کر رہے تھے اور وہ انسانی مہارت کی ایک تاریخ
رقم کرنا چاہتے تھے بے شک ان کی کہانیاں تاریخ کا حصہ تو بنی ہیں لیکن تکبر
کے انجام کے طور پر۔ |
|
لیکن ان شخصیات کے بارے میں کیا خیال ہے جو اس سفر سے محروم رہے؟ ان لوگوں
کے کیا ردعمل ہوں گے جب انھوں نے ٹائٹینک کے ڈوبنے کی سرخیاں پڑھی ہو گی؟
انھیں خوش قسمت لوگوں میں سے ایک شخص کی کہانی جو ہمارے لئے ایک سبق ہے۔ |
|
جب ٹائیٹینک کے سفر کے لئے ٹکٹ بک ہو رہے تھے تو ایک شخص کلارک جو کہ کسان
تھا اس کی شدید خواہش تھی کہ وہ اپنے پانچ بچوں اور بیوی کے ساتھ ان امیروں
کی شپ پر سفر کرے اس نے سات ٹکٹ بک کروا لئے۔ اس نے اپنی زندگی کی تمام جمع
پونجی ٹکٹوں پر لگا دی تھی وہ بہت خوش تھا اور بس 10 اپریل بدھ کے دن کا
انتظار کر رہا تھا جب وہ اس عالیشان جہاز کا حصہ بننے والا تھا- |
|
|
|
لیکن قدرت کو تو کچھ اور ہی منظور تھا ہوا کچھ یوں کہ
سفر سے ٹھیک سات دن پہلے اس کے پالتو کتے نے اس کے ایک بیٹے کو کاٹ لیا بچہ
بہت بیمار ہو گیا یہاں تک کہ ٹائیٹینک کی روانگی کا دن آگیا ٹکٹ بھی
refundable نہیں تھے۔ کلارک کی بیوی نے اس کو بہت کہا کہ وہ باقی کے چار
بچوں کے ساتھ چلا جائے لیکن کلارک کا دل کسی طرح نہ مانا وہ اپنے بیوی بچے
کو ان حالات میں چھوڑ کر نہیں جانا چاہتا تھا ۔ اس نے ٹائیٹینک کو روتی
آنکھوں اور بھاری دل کے ساتھ الوداع کیا جو ایک طرح سے اس کی ساری زندگی کی
جمع پونجی اور خوابوں کو الوداع کرنا تھا۔ |
|
جہاز کی روانگی کے پانچ دن بعد اس نے صبح اخبار اٹھایا
تو پہلی شہ سرخی جہاز کے برفانی تودے سے ٹکرا کر ڈوبنے کی تھی، وہ ساکت تھا
آج وہ اپنے آپ کو دنیا کا خوش قسمت ترین انسان سمجھ رہا تھا۔ جس کتے کو وہ
ایک ہفتے سے کوس رہا تھا آج اس کو اپنے کتے پر بہت پیار آرہا تھا۔ |
|
یقیناً قدرت کے ہر کام میں کوئی مصلحت ہوتی ہے ہماری
روزمرہ زندگی میں کتنے ہی واقعات ہوتے ہیں جو اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
ہم اپنی طرف سے پلاننگ کرتے ہیں، محنت کرتے ہیں جب ہم کامیاب ہوتے ہیں تو
وہ کامیابی ہمارے اپنے کھاتے میں آتی ہے لیکن ہم جب ناکام ہوتے ہیں تو ہم
اپنی قسمت کو کوستے ہیں یا مایوسی یا ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ |
|
ہمیں نہیں پتہ ہوتا کہ اپنی زندگی میں کئے گئے فیصلے نفع
میں جائیں گے کہ نقصان میں جائیں گے۔ مستقبل کی پیشن گوئی کوئی نہیں کر
سکتا بہت سی چیزیں جو آج ہمارے لئے اداسی کا باعث ہوتی ہیں کچھ عرصے کے بعد
پتہ چلتا ہے کہ یہ سب تو ہماری بہتری کے لئے تھا۔ |
|
|
|
بس محنت اور ایمانداری کا صلہ ہمیشہ مستقبل میں
ایک انعام کے طور پر واپس ملتا ہے کیونکہ اصل پلاننگ تو اللہ تعالیٰ نے کی
ہوئی ہوتی ہے۔ بے شک مایوسی کفر ہے !!!!! |