صاحب صرف آٹھ آنے کا سوال ہے... اللہ کسی کو یتیم نہ کرے، ایک یتیم کی مظلومیت کی ایسی داستان جس کو اس کے اپنوں نے ہی لوٹ لیا

image
 
ہر انسان کی کوئی نہ کوئی کہانی ہوتی ہے۔ اگر دیکھنے والی آنکھ اور بیان کرنے کا طریقہ آتا ہو تو ہر روز دسیوں کہانیاں ہماری نگاہوں کے سامنے سے گزرتی ہیں جن کو بیان کیا جا سکتا ہے-
 
 ایسی ہی ایک کہانی ایک قلمکار سید شبیر احمد نے سوشل میڈیا پر شئير کی جو کہ بطور بنک مینیجر کام کرنے کے ساتھ ساتھ ادب سے بھی وابستہ ہیں انہوں نے اپنی زندگی کے مشاہدے کے طور پر ایک عام سے انسان کی بہت خاص کہانی بیان کی-
 
صرف آٹھ آنے مانگنے والا فقیر
یہ کہانی آزاد کشمیر کے ایک چھوٹے سے قصبے کی ہے جہاں پر شبیر صاحب جب بطور بنک مینجر پوسٹ ہوئے تو ایک دن بازار سے گزرتے ہوئے انہوں نے ایک فقیر کو دیکھا جو عمر میں تو زيادہ نہ تھا مگر اس کا حلیہ بہت گندا میلا ہو رہا تھا بال اور شیو بڑھی ہوئی اور ہاتھ بڑھا کر اس نے صرف آٹھ آنے کا تقاضا کیا۔ نہ دینے پر خاموشی کے ساتھ گزر گیا-
 
گارڈ نے بتایا کہ یہ کوئی پاگل ہے جس کو سب جالو آٹھ آنے والا کہتے ہیں اور یہ ہر ایک سے صرف آٹھ آنے کا تقاضا کرتا ہے مگر کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچاتا۔ البتہ اسی علاقے میں موجود چوہدری کے ہوٹل میں کھانا کھانے کے لیے اس کے ہوٹل کے باہر کھڑا ہو جاتا جہاں چوہدری اس کو بلا کر پیٹ بھر کھانا کھلا دیتا-
 
image
 
جالو کی آواز بہت اچھی تھی اکثر چوہدری کے ہوٹل میں بیٹھ کر فرمائش پر ہیر وارث شاہ یا سیف الملوک گنگنا لیتا تھا مگر ایسا صرف وہیں کرتا تھا- ایک بار شبیر صاحب کو جب جالو ملا تو انہوں نے اس کو آٹھ آنے کے بجائے ایک روپے کا نوٹ دیا اور اس کو کہہ دیا کہ ہر روز بنک آکر ایک روپیہ لے جایا کرے اور اس وقت سے وہ روز بنک آجاتا اور پیسے لے جاتا-
 
ایک دن جب وہ بنک سے نکلے تو ان کو اپنے سامنے جالو ایک تھیلا ہاتھ میں پکڑے جاتا نظر آيا تجسس کے مارے وہ اس کے پیچھے چلنے لگے انہوں نے دیکھا وہ ایک کوٹھری میں داخل ہوا کوٹھری کے باہر پانچ چھ کتے بیٹھے تھے- جالو باہر نکلا تو اس نے ان کتوں کو روٹی ڈالی اس کے اس عمل نے ان کو اس سے بہت متاثر کیا-
 
اگلے دن انہوں نے ایک دعوت کی تقریب میں وہاں موجود مقامی افراد سے جالو کا ذکر کیا تو انہوں نے اس کی جو کہانی سنائی وہ بہت دکھی کر دینے والی تھی- ان کا کہنا تھا کہ جالو جس کا اصل نام جلال تھا قریبی گاؤں کے ایک زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتا تھا جس کے والدین کا اس کے بچپن میں انتقال ہو گیا تھا- اس کی پرورش اس کے چچا نے کی جن کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ جالو نے پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ اس کی چچی اس پر بہت ظلم کرتی تھیں اور سارا دن اس کو ہر کام کے لیے بھگائے رکھتی تھیں یہاں تک کہ پانچویں کے بعد انہوں نے جالو کا اسکول جانا بھی بند کر دیا تھا-
 
جالو نے جب جوانی کی حدود میں قدم رکھا تو چچی کے ظلم پر جب بھی افسردہ ہوتا تو اس کی چچی کی بیٹی اس سے ہمدردی کرتی تھی جس وجہ سے وہ اپنے چچا کی بیٹی کی محبت میں گرفتار ہو گیا اور اس کا بے دام غلام ہو گیا- مگر وہ اس سے بہت لیے دیے رہتی جس کو جالو اس کی فطری شرم سے تعبیر کرتا-
 
اسی دوران اس کی چچا کی بیٹی کی شادی کی بات اس کے انگلینڈ پلٹ بھانجے سے طے ہونے والی تھی تو اس نے اپنے چچا سے ان سے ان کی بیٹی کا ہاتھ مانگا مگر چچا نے اس کو سختی سے منع کر دیا اور کہہ دیا کہ اس بارے میں اپنی چچی سے بات کرے جب جالو نے چچی سے رشتے کا کہا تو انہوں نے اس کی بہت بے عزتی کی-
 
جالو نے آخری حربے کے طور پر اپنی کزن سے اس حوالے سے بات کی تو اس نے بھی اس کو دھتکار دیا اور کہا تم جاہل اجڈ انسان مجھ سے شادی کے خواب دیکھ رہے ہو۔
 
image
 
جس پر جالو نے جب چچا کو کہا کہ وہ غریب تو نہیں ہے بلکہ وہ تو برابر کی زمینوں کا مالک ہے تو اس کے جواب میں اس کی چچی نے کہا کہ تمھارے والدین تو اپنی زمینیں ہمیں بیچ چکے تھے۔ یہ تو ہمارا احسان ہے کہ ہم نے تم کو اپنے ٹکڑوں پر پالا اس کے بعد چچا کی بیٹی کی شادی والے دن جالو اپنے حواس کھو بیٹھا اس نے اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے اور گلیوں میں نکل پڑا-
 
اس کے بعد شبیر صاحب نے اگلے دن ایک کپڑوں کا جوڑا نکال کر جالو کو دیا کہ نہا کر کپڑے بدل کر آئے سب نے کہا کہ جالو ایسا نہیں کرے گا ۔ مگر شبیر صاحب کو اگلے دن حیرت ہوئی کہ جالو اگلے دن صاف ستھرے کپڑوں میں بنک میں موجود تھا جس کے بعد انہوں نے جالو کو ایک حجام بلا کر اس کی حجامت بنوائی اور اس کو پیسے اور نیا جوڑا دیا-
 
اس کے بعد شبیر صاحب نے اس کو بنک میں صفائی کے لیے ملازم رکھ لیا جالو نے خود کو بہت بدل دیا اور وقت پر بنک آتا صفائی کرتا صاف ستھرا رہتا تھا اب اس نے آٹھ آنے بھی مانگنا چھوڑ دیا اور فارغ وقت میں اخبار اور رسالے پڑھتا رہتا-
 
اسی دوران شبر صاحب کی پوسٹنگ کسی دوسرے شہر ہو گئی جب دس سال بعد ان کا آنا اس قصبے میں ہوا تو انہوں نے لوگوں سے جالو کے بارے میں پوچھا تو لوگوں نے ان کو اس کے مرنے کی افسوسناک خبر سنائی-
 
لوگوں کا کہنا تھا کہ شبیر صاحب کے جانے کے بعد ایک دن ایک عورت کو بنک میں دیکھ کر جالو اچانک غضب ناک ہو گیا تھا اور اس نے اس عورت سے بہت جھگڑا کیا جس کے بعد جالو کپڑے پھاڑ کر نکل گیا اور ایک دن اس کا کسی گاڑی سے ایکسیڈنٹ ہو گیا جس کے بعد اس کی موت واقع ہو گئی- لوگوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ جالو خود ہی گاڑی کے سامنے آگیا تاکہ وہ اس زندگی سے جان چھڑا لے اور وہ عورت کوئی نہ تھی بلکہ اس کی کزن تھی جس کو اس خوشحال زندگی گزارتا دیکھ کر زندگی ہار بیٹھا-
 
یتیم کے مال کو ہڑپ کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پالنے والوں نے ایک معصوم انسان کو تباہ کر دیا دنیا میں ہمارے ارد گرد ایسی سیکڑوں کہانیاں بکھری پڑی ہیں جن سے سبق سیکھنا ضروری ہے-
YOU MAY ALSO LIKE: