|
|
’چرواہا بھوکا تھا مگر شاید وہ ہم سے خیرات مانگنے میں
ہچکچا رہا تھا۔ اس لیے اُس نے ہم سے سودے بازی کی کوشش کرتے ہوئے درخواست
کی کہ اسے کچھ کھانے کے لیے دیا جائے جس کے بدلے میں وہ ہمیں بھیڑ بکریوں
کا دودھ دے سکتا ہے۔‘ |
|
بلوچستان کے ضلع کچھی کے علاقے مچھ میں تعینات اسسٹنٹ
کمشنر انجینیئر عائشہ زہری نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ’جب سیلاب
ٍمیں پھنسی بھوکی خواتین اور اُن کے بچوں کے لیےکھانا لایا گیا تو جن ماﺅں
کے دودھ پینے والے بچے تھے انھوں نے التجا کہ انھیں بیشک کھانا مت دیا جائے
مگر اُن کے بچوں کے لیے دودھ کا فی الفور انتظام کیا جائے کیونکہ وہ بھوک
سے نڈھال ہیں۔‘ |
|
عائشہ کہتی ہیں کہ ’میں بچوں کو بلکتا ہوا نہیں دیکھ
سکتی تھی اس لیے ان کے لیے دودھ کا انتظام کیا گیا اور دودھ کا انتظام کرنے
میں چرواہے سے بھی مدد لی گئی۔‘ |
|
عائشہ زہری نے لیویز فورس کے اہلکاروں کے ہمراہ نہ صرف درہ بولان کے دشوار
گزار علاقوں میں پھنسے ہزاروں لوگوں اور مسافروں کو ریسکیو کیا بلکہ ریلیف
کیمپوں میں سیلاب زدگان کے لیے خاطر خواہ انتظامات کو بھی یقینی بنایا۔ |
|
یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف جب گذشتہ دنوں ضلع کچھی کے دورے پر آئے
تو انھوں نے خاتون افسر عائشہ زہری کی سیلاب متاثرین کے لیے خدمات پر انھیں
خراج تحسین پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ان سے ملاقات بھی کی۔ |
|
’36 گھنٹے کی مسلسل بارش کے بعد تباہی ہی
تباہی تھی‘ |
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے عائشہ زہری نے بتایا کہ 25 اور 26 اگست کو
طوفانی بارشوں کا سلسلہ جب اندازاً 30 گھنٹے بعد تھما تو ’ہر طرف تباہی ہی
تباہی تھی۔‘ |
|
چونکہ مچھ اور بولان میں بارش کے پانی کی نکاسی کے بڑے قدرتی راستے موجود
ہیں اس لیے وہاں کے ندی نالوں میں طغیانی کی کیفیت پیدا نہیں ہوتی لیکن بہت
زیادہ بارشیں ہونے کی وجہ سے ان علاقوں میں کچے گھر منہدم ہو چکے تھے۔ |
|
وہ کہتی ہیں کہ ’قرب و جوار کے علاقوں میں نکلے تو وہاں کچے مکانوں کو زمین
بوس دیکھ کر یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے اس علاقے میں شدید بمباری ہوئی
ہے۔‘ |
|
ان کا کہنا تھا کہ ’چھتیں گرنے کی وجہ سے بعض لوگ زخمی تھے جبکہ بعض لوگوں
کے گھروں کے سامنے ملبے میں دب کر ہلاک ہونے والوں کی لاشیں پڑی تھیں۔‘ |
|
انھوں نے مزید کہا کہ ’مچھ ایک پہاڑی علاقے ہے۔ اس کے دونوں اطراف موجود پل
سیلابی پانی سے متاثر ہوئے تھے، اس لیے لوگوں کے لیے یہ مشکل تھا کہ وہ
اپنی میتوں کو کس طرح وہاں سے نکال کر تدفین کے لیے لے جائیں۔‘ |
|
|
|
فوری طور پر مچھ اور
نواحی علاقوں سے ریسکیو کا عمل شروع کر دیا |
عائشہ زہری نے بتایا کہ شدید بارشوں کے باعث سب کچھ تباہ
ہو کر رہ گیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ نہ موبائل فون نیٹ ورک تھا نہ گیس اور
نہ ہی بجلی۔ اسی طرح جو روڈ نیٹ ورک یا کچے راستے تھے وہ بھی سب ٹوٹ پھوٹ
گئے تھے۔ |
|
’ایک مکمل بحرانی کیفیت تھی۔ موبائل نیٹ ورک نہ ہونے کے
باعث کچھ پتہ نہیں چل رہا تھاکہ کہ مچھ ٹاﺅن کے نواح میں اور تحصیل کے دیگر
علاقوں کتنی تباہی ہوئی ہے۔‘ |
|
انھوں نے بتایا کہ ’مچھ ٹاﺅن اور اس کے نواحی علاقوں میں
جن لوگوں کے گھر گر گئے تھے ان کو ریسکیو کرنا شروع کیا اور جو سکول اور
دیگر سرکاری عمارتیں تھیں ان کو ریلیف کیمپ قرار دے کر لوگوں کو ان میں
منتقل کرنا شروع کیا۔‘ |
|
انھوں نے بتایا کہ ’مچھ میں ہندو برادری کے لوگ کھانا
پکاتے ہیں، میں نے ان سے لوگوں کے لیےکھانا تیار کرنے کے لیے کہا۔‘ |
|
'جب کھانا تیار ہو کر آیا تو ان لوگوں کو کھانا
کھلایا۔ چونکہ انھیں ایک ڈیڑھ دن سے صحیح معنوں میں کھانا نہیں ملا تھا۔ جب
ان لوگوں نے کھانا کھایا تو ان کی جان میں جان آئی۔‘ |
|
انھوں نے کہا کہ ’یہ کھانا اور چائے صرف خانہ
پری کی حد تک نہیں تھی بلکہ میں نے اور میرے عملے کے لوگوں نے ان کو اچھا
سے اچھا کھانا کھلانے کی کوشش کی۔‘ |
|
’چونکہ میرا پہلے سے وہاں سے تبادلہ ہو چکا تھا
چنانچہ مجھے کہا گیا کہ وزیر اعظم کے دورے تک رُک جائیں۔۔۔ وزیر اعظم کے
دورے کے بعد جب میں وہاں کی خواتین سے رخصت لینے گئی تو وہ مجھ سے گلے مل
کر رونے لگیں۔‘ |
|
’خواتین کو خود
چائے پیش کی‘ |
|
|
|
مچھ کے ایک کیمپ میں بنی ایک ویڈیو میں دیکھا
جا سکتا ہے کہ لیویز فورس کا ایک اہلکار ایک ٹرے میں چائے اٹھائے ہوئے ہے
جبکہ انجینیئر عائشہ زہری خواتین کو خود چائے کی پیالیاں پیش کر رہی ہیں۔ |
|
عائشہ نے بتایا کہ ’ان میں سے بعض خواتین کے
قریبی رشتہ دار ہلاک ہوئے، بعض بے گھر ہونے پر سخت پریشان تھیں جبکہ بعض
اپنے خاندان کے مرد حضرات کے لیے پریشان تھیں اور بار بار ان کے بارے میں
پوچھ رہی تھیں۔‘ |
|
بچوں کے لیے
دودھ کا انتظام |
جب ریسکیو کی جانے والے خواتین کے لیے کھانے کا
انتظام کیا گیا تو چھوٹے بچوں کی ماؤں نے کہا کہ اُن کے بچے بھوکے ہیں
کیونکہ ان کے لیے دودھ نہیں ہے۔ |
|
انھوں نے بتایا کہ ’میں بچوں کو بلکتا نہیں
دیکھ سکتی تھی اس لیے مچھ کے چھوٹے سے بازار میں جتنی بھی دکانیں تھیں اور
ان دکانوں میں جتنا بھی خشک دودھ پڑا تھا وہ میں اٹھا لائی۔‘ |
|
’اس موقع پر ایک شخص نے مجھے کہا کہ میڈم یہ
غریب لوگ ہیں۔ آپ ان کے لیے لیکٹوجن لے کر جا رہی ہیں جو کہ بہت مہنگا خشک
دودھ ہے۔ ان کے پیسوں کی ادائیگی کیسے ہو گی۔ میں نے کہا کہ کوئی بات نہیں
میں ان کے پیسے ادا کروں گی۔ اگر کسی نے اعتراض کیا تو میں دودھ کے پیسے
اپنی تنخواہ سے دوں گی۔‘ |
|
انھوں نے بتایا کہ جب ہم دکانوں سے بچوں کے لیے
دودھ لے کر گئے تو بچوں کی ماﺅں کی خوشی دیدنی تھی۔ |
|
’ایک بچہ بہت رو رہا تھا۔ شاید وہ بہت بھوکا
تھا ۔جب میں نے دودھ کا پیکٹ اس کی جانب بڑھایا تو اس نے وہ پیکٹ دونوں
ہاتھوں سے پکڑ کر اپنے سینے سے لگا لیا۔ |
|
’وہ لمحہ میرے لیے بہت زیادہ خوشی اور اطمینان
کا تھا۔ میں نے اس کی تصویر اپنے موبائل سے اُتاری۔ تصویر میں آنسو اس کے
آنکھوں میں نظر آ رہے ہیں۔‘ |
|
|
|
سبی سے آنے
والے ججوں کے پھنسنے کی اطلاع موصول ہوئی |
عائشہ زہری نے کہا کہ وہ ریسکیو اور ریلیف کی
کارروائیوں میں مصروف تھیں کہ انھیں وائرلیس پر یہ کال موصول ہوئی کہ سبی
سے بعض جج کوئٹہ کی جانب آ رہے تھے مگر وہ بی بی نانی کے پُل کے قریب پھنس
چکے ہیں۔ |
|
ان کا کہنا تھا کہ ’متاثرہ لوگ جس حال میں تھے
وہ خود ان کو چھوڑ کر نہیں جا سکتی تھیں تاہم انھوں نے لیویز فورس کے چار
اہلکاروں کو ان کو نکالنے کے لیے بھیج دیا۔ |
|
’یہ اہلکار انتہائی مشکل سے وہاں پہنچے تھے اور
وہاں سے جج صاحبان کو نکال کر کوئٹہ کی جانب روانہ کیا۔‘ |
|
انھوں نے کہا کہ جب یہ جج صاحبان مچھ کی حدود
میں پہنچے تو انھیں بی بی نانی میں تشویشناک صورتحال سے آگاہ کیا۔ |
|
لوگوں کو لیویز
تھانے کی عمارت تک پہنچانے کے لیے رضاکاروں کی تلاش |
عائشہ زہری کا کہنا تھا کہ چار اہلکاروں کے
ساتھ اتنی بڑی خلقت کو پانی سے نکال کر لیویز فورس کے قریبی تھانے تک
پہنچانا بالکل ممکن نہیں تھا۔ |
|
انھوں نے کہا کہ قریبی سکیورٹی فورسز کے کیمپ
میں گئی اور اُن کے کیپٹن سے بات کی اور اُن کو مدد کے لیے نکلنے کے لیے
کہا۔ |
|
’اس کے ساتھ وہاں مجھے دس پندرہ پشتون لوگ ملے
جو کہ اپنے لوگوں کی مدد کے لیے کوئٹہ سے آئے تھے۔‘ |
|
'میں نے ان سے درخواست کی کہ لوگوں کے نکالنے
میں ان کی مدد کی جائے جس پر انھوں نے کہا کہ وہ اپنے لوگوں کو نکالنے کے
لیے آئے ہیں تاہم میری درخواست پر وہ راضی ہوئے۔‘ |
|
ان کا کہنا تھا کہ ’لیویز فورس اور ان لوگوں نے
صبح سے رات گیارہ بجے تک لوگوں کو نکالنےمیں میری مدد کی۔ رات کو ان
رضاکاروں نے کہا کہ اب وہ جانا چاہتے ہیں۔ |
|
’ان لوگوں کے نام میں نہیں جانتی لیکن ان کی
تصویریں میرے ساتھ ہیں۔ انھوں نے جس طرح سے ہماری مدد کی وہ اس پر انعام کے
مستحق ہیں۔‘ |
|
|
|
’اتنے لوگوں کے
لیے کھانا تیار کرنا ایک بڑا مسئلہ تھا‘ |
انھوں نے بتایا کہ اُن کے پاس گاڑی میں راشن کے
کچھ تھیلے تھے جو انھوں نے ہوٹل والوں کو دیے اور ان سے کہا کہ کھانا تیار
کریں۔ |
|
’ہوٹل والوں نے کہا کہ یہ ان کے لیے ممکن نہیں
ہے کیونکہ ان کے پاس جو لکڑی تھی وہ ختم ہو گئی ہے اور وہ اس صورتحال میں
کہاں سے لکڑیاں لائیں گے۔ جس کے بعد انھوں نے وہاں لیویز فورس کے اہلکاروں
کو قرب و جوار سے لکڑیاں لانے کے لیے کہا۔‘ |
|
عائشہ زہری نے بتایا کہ پھر وہاں جو گاڑیاں
موجود تھیں جن کو مقامی زبان میں ٹانگو کہتے ہیں ان کو ان گاڑیوں میں کوئٹہ
کی جانب روانہ کرنا شروع کیا۔ |
|
’ان میں سے بعض رات گزارنے کے لیے مچھ کے ریلیف
کیمپوں میں رہے جبکہ دیگر لوگ کوئٹہ کی جانب چلے گئے۔‘ |
|
ان کا کہنا تھا کہ بی بی نانی میں جو مسافر
پھنسے تھے وہ ناقابل یقین حد تک ایک مشکل صورتحال سے دوچار تھے جن کی خدمت
کا اللہ تعالیٰ نے انھیں موقع دیا۔ |
|
بھوکے چرواہے
نے ہمیں خوراک کے بدلے میں دودھ کی پیشکش کی |
خاتون افسر نے بتایا کہ بی بی نانی جاتے ہوئے
اُن کی گاڑی راستے میں متعدد بار پھنسی۔ |
|
ایک جگہ جب وہ گاڑی کو نکالنے کے انتظار میں
تھیں کہ ان کے قریب سے ایک چرواہا بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کے ساتھ گزر رہا تھا۔ |
|
’چرواہا ہمارے پاس آیا اور کہا کہ انھیں کچھ
کھانے کے لیے دیا جائے وہ اس کے بدلے میں ان کودودھ دیں گے۔ میں نے اس کو
کہا کہ ہم آپ کے ساتھ سودا نہیں کریں گے بلکہ ویسے ہی آپ کو کھانے پینے کی
اشیا دیں گے۔‘ |
|
انھوں نے کہا کہ ’ہم نے چرواہے کو کھانے پینے
کی اشیا دیں جس کے بدلے اس نے دودھ دیا۔‘ |
|
عائشہ زہری کون
ہیں؟ |
عائشہ زہری کا تعلق بلوچستان کے ضلع خضدار سے
ہے۔ وہ بلوچوں کے معروف قبیلے زہری سے تعلق رکھتی ہیں۔ |
|
انھوں نے ایف ایس سی تک تعلیم خضدار سے حاصل کی
اور اس کے بعد انجینیئرنگ یونیورسٹی خضدار سے ڈگری حاصل کی۔ |
|
ان کے بقول انھوں نے تمام امتحانات
اعزازی نمبروں سے پاس کیے اور انجینیئرنگ یونیورسٹی سے انھوں نے دو مرتبہ
طلائی تمغہ حاصل کیا۔ |
|
انھوں نے بتایا کہ انجینیئرنگ کی ڈگری حاصل
کرنے کے بعدوہ واپڈا میں بطور ایس ڈی او بھرتی ہوئیں۔ |
|
’جب میں ایس ڈی او بھرتی ہوئی تو میرے خاندان
کے لوگوں نے مجھے کہا کہ اب آپ بجلی کے کھمبوں پر چڑھیں گی؟‘ |
|
پھر انھوں نے پی سی ایس کرنے کا سوچا کیونکہ ان
کے بقول ’انتظامی شعبے میں ملازمت ایسی ہے کہ انسان اپنے لوگوں کے لیے بہت
کچھ کر سکتا ہے۔‘ |
|
انھوں نے پی سی ایس کا امتحان اعزازی نمبروں سے
پاس کیا اور اسسٹنٹ کمشنر کی حیثیت سے ان کی پہلی تقرری خضدار میں کمشنر
قلات کے دفتر میں سٹاف آفیسر کی حیثیت سے ہوئی۔ |
|
انھوں نے بتایا کہ اس کے بعد ان کی تعیناتی
اسسٹنٹ کمشنر دالبندین کی حیثیت سے ہوئی۔ اس کے بعد وہ سیکریٹریٹ میں
تعینات رہیں جس کے بعد ان کی تقرری مختلف عہدوں پر ہوئی۔ |
|
سول سیکریٹریٹ میں مختلف عہدوں پر کام کرنے کے
بعد ان کی تقرری اسسٹنٹ کمشنر مستونگ کے طور پر ہوئی۔ |
|
مستونگ میں فرائض سرانجام دینے کے بعد وہ
اسسٹنٹ کمشنر مچھ تعینات ہوئیں۔ |
|
Partner Content: BBC Urdu |