چونڈہ میرا آبائی قصبہ ہے۔ 1947 ء میں میرے والد اور
داداجموں سے ہجرت کرکے چونڈہ آ کر آباد ہوئے۔ ضلع سیالکوٹ کی تحصیل پسرور
کے اس قصبہ کو دنیا میں شہرت حاصل شہرت عام ستمبر 1965 کی پاک بھارت جنگ
میں ملی جب یہ بھارتی ٹینکوں کا قبرستان بنا۔ دوسری عالمی جنگ میں کورسک کے
مقام پر جرمنی اور روس کے درمیان ہونے والی لڑائی کے بعد ٹینکوں کی سب سے
بڑی لڑائی سرزمین چونڈہ پر لڑی گئی۔چھ سو ٹینک اس لڑائی میں بد مست ہاتھیوں
کی طرح بر سر پیکار تھے۔دشمن کے ایک سو بیس ٹینک یہیں تباہ ہوئے اور کئی
ہماری شیر دل فوج کے قبضہ میں آئے۔ تین گنا سے زائد بھارتی فوج اور اُس کے
بھی وہ دستے جسے وہ بھی فخر ہند کے نام سے موسوم کرتے تھے اس محاذ پر تھے
لیکن اپنی پوری کوشش کے باوجود ناکام رہی اور چونڈہ ناقابل تسخیر رہا۔ پاک
فوج کے جانبازوں نے بے مثال قربانیوں جو تاریخ چونڈہ کے محاذ پر پیش کی وہ
چشم فلک نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی اور جب بھارتی فوج اور وزیراعظم نے
دیکھا جنگ بندی میں ہی عافیت جانی۔بھارتی ٹینکوں کے حملہ کو پسپا کرنے کے
لیے پاک فوج کے پاس ٹینک شکن ہتھیار کی قلت تھی۔ پاک فوج کے جوان اپنے
سینوں پر بم باندھ کر دشمن کے ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے اور وہ میدان بھارتی
ٹینکوں کا قبرستان بن گیا۔ ایف ایف اور بلوچ رجمنٹ کے جوانوں نے پاک وطن کے
دفاع میں اپنے خون سے جو تاریخ رقم کی وہ کبھی بھی فراموش نہیں کی جاسکے گی۔
وہ واقعی سیسہ پلائی دیوار بن گئے۔ چونڈہ اور اس سے ملحقہ پھلورہ، بھاگوال،
گڈگور، ظفر وال، ٹھرو منڈی، چوبارہ، اور خانے والی اس لڑائی کا میدان کار
زار تھے۔ اس علاقے مکین بھی بھارتی فواج سے خوف ذدہ نہ ہوئے۔چونڈہ کے بہت
سے مکانات دشمن کی گولہ بھاری کی زد میں آئے جن میں ہمارا آبائی گھر بھی
تھا۔
چونڈہ کے محاذ پر میجر جنرل ابرار حسین کی قیادت میں وطن عزیز کو دفاع کیا
اور دشمن کا جی ٹی روڈ پر قبضے اور سیالکوٹ کو لاہو سے کاٹنے کا منصوبہ نہ
صرف ناکام ہوا بلکہ دشمن کا عددی برتری کا گھمنڈ چونڈہ کی خاک میں مل گیا
اور ہماری افوج نے اپنے سے کئی گنا زیادہ فوج کی پیش قدمی روک دی۔ یہ پاک
فوج کا جوش جہاد تھا جسے تائید ِ ایزدی حاصل تھی جس کی بدولت دشمن کا
منصوبہ ناکام ہوا بصورت دیگر اگر چونڈہ کے علاقے تو دیکھیں تو یہ بالکل
میدانی علاقہ ہے جس میں کوئی قدرتی رکاوٹیں نہیں اور ٹینکوں کی لڑائی کے
موزوں ہونے کے ساتھ فوج کی پیش قدمی کے لیے آسان ہے۔ اس محاذ کے ہیرو کرنل
نثاراحمد خان اور اُن کی یونٹ تھی جس نے دشمن کو آگے نہ بڑھنے دیا۔ پھلورہ
چونڈہ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور یہ اس علاقے کا پولیس اسٹیشن ہے۔
گیارہ ستمبر کو پھلورہ پر قبضہ کے بعد دشمن کی پوری کوشش تھی کہ اب چونڈہ
اور اس کے ریلوے اسٹیشن پر قبضہ کیا جائے۔ چونڈہ اس علاقہ کا سب سے بڑا
قصبہ ہے اور اگر اس قبضہ ہوجاتا تو لاہور سیالکوٹ ریلوے لائن بھی دشمن
افواج کے پاس چلی جاتی اور وہ مزید پیش قدمی کرسکتی تھی۔ چودہ اور پندرہ
ستمبر کو بھارتی افواج نے چونڈہ پر قبضے کے لیے بھر پور حملے کئے لیکن وہ
ناکام رہے اور بائیس ستمبر تک دشمن کی کوششیں ناکام ہوئیں اور چونڈہ پر پاک
پرچم لہراتا رہا۔ پاک فوج نے بھارتی افواج سے ظفروال کا علاقہ بھی واپس لے
لیا۔
جنگ سے دنیا کے مسائل کبھی حل نہیں ہوئے اور لیکن دوسری طرف اپنے دفاع کو
مضبوط رکھنا اور اپنی افواج کو چوکس رکھنے کی ضرورت ہے۔ سویڈن جیسا ملک جس
نے تین سو سال سے کوئی جنگ نہیں لڑی ، اب اپنی مسلح افواج میں اضافہ کررہا
ہے۔ حکومت اور حزب اختلاف دونوں دفاعی بجٹ بڑھانے پر رضا مند ہیں۔ موثر
دفاع اور مستعد افواج جنہیں اپنے عوام کی حمایت اور محبت حاصل ہو، وہی وطن
کے دفاع کو ناقابل تسخیر کرسکتی ہیں۔ بر صغیر میں کئی جنگیں ہوئی ہیں لیکن
مسائل کن ہونے کی بجائے بڑھتے گئے ۔ خطہ کے ممالک اپنے عوام کی غربت اور
مسائل کے باوجود دفاعی بجٹ بڑھانے پر مجبور ہیں۔ ہم سب امن چاہتے ہیں اور
جنگ کے متمنی نہیں لیکن کیا ظلم ، زیادتی اور دوسروں کے خلاف جارحانہ
کاروائیوں کے تسلسل میں امن اور دوستی ممکن نہیں ہے۔ بین الاقوامی قانون
اور اقوام عالم سے اپنے کیے ہوئے وعدوں اورمسلمہ اصولوں کی پاسداری کئے
بغیر امن ممکن نہیں۔پاک بھارت میں سب سے بڑا تنازعہ جموں کشمیر ہے۔ جب تک
یہ مسئلہ جموں کشمیر کے عوام کی مرضی سے حل نہیں ہوجاتا تب تک اس خطہ میں
امن قائم نہیں ہوسکتا ۔ پاکستان اور بھارت میں اگر جنگ و جدل کی بجائے امن
اور دوستی ہو تو اس کا فائدہ برصغیر کے عوام کو ہو گا۔ دونوں ممالک اپنے
بجٹ کا خطیر حصہ دفاعی بجٹ پر ضرچ کریں گے اور ان کے عوام بنیادی سہولتوں
کے لئے ترستے رہیں گے۔بھارت اگر یہ سمجھتا ہے کہ موجودہ صورت حال ہی مسئلہ
کا حل ہے تو یہ درست نہیں۔ کیا بھارت ہمیشہ اپنی آٹھ لاکھ فوج کے ساتھ جموں
کشمیر کے عوام پر جابرانہ قبضہ جاری رکھے گا۔ مسئلہ کشمیر کا مستقل حل سب
سے زیادہ بھارت ہی کے مفاد میں ہے اور وہاں کے دانشوروں کو یہ بات اپنی
عوام اور حکومت کو ضرور سمجھانی چاہیے۔
پاکستان کا شہری جنگ سمتبر کے موقع پر شہیدوں اور غازیوں کو خراج تحسین پیش
کرتا ہے۔ چونڈہ آج بھی دفاع وطن کے لیے پاک فوج کی شجاعت اور پامردی کی
گواہی دے رہا ہے۔ یہ بھارتی غرور اور گھمنڈ کے خاک میں ملنے کا گواہ ہے۔ اس
سرزمین ہمارے شہیدوں کا خون ملا ہوا ہے ۔ ۔ چونڈہ ناقابل تسخیر رہا ہے اور
آج بھی آباد ہے اور پک وطن کے دوسرے شہروں، قصبوں اور دیہات کی طرح ہمیشہ
آباد رہے گا۔ انشاء اﷲ
|