پاکستان اور بھارت کے درمیان وادی کشمیر کولے کر تین بڑی
اور دو محدود پیمانے پرجنگیں ہو چکی ہیں،مقبوضہ وادی کشمیر کے 85لاکھ سے
زائد مسلمانوں پر تادم تحریربھارتی فوج کا ظلم وستم جاری ہے ،جس کی وجہ
بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری کی صورت نظر نہیں آتی ، 75سال میں
کئی مواقعوں پر تعلقات میں بہتری کے لئے جو کوششیں کی گئیں وہ بھی جلد ہی
مقبوضہ وادی کشمیر پر بھارتی حکومت کی ہٹ دھرمی اوربھارتی فوج کے زبردستی
تسلط کی نظر ہوگئیں ، بھارتی حکومت کشمیر کے مسئلہ پر اقوام متحدہ کی
قراردادوں کے مطابق عمل کرنے سے گریزاں ہے ،6 ستمبر کا دن وطن عزیز پاکستان
کے دفاع کیلئے عظیم قربانیوں کی یاد دلاتا ہے ا س دن کو یوم دفاع کے طور پر
پاکستانی قوم مناتی ہے، پاک افواج نے اپنی سرحدوں کی حفاظت کا حق ادا کرتے
ہوئے پاک سرزمین کے ایک ایک انچ کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے
،1965کی جنگ میں پاک فوج نے ملک کی سرحدوں کا دفاع بہادری جرات اورباوقار
انداز میں موثر بنایا اور ثابت کر دکھایا کہ ہم ایک زندہ اور بہادر قوم
ہیں،6 ستمبر 1965 کو بھارتی افواج نے لاہورکی جانب سے وطن عزیز پاکستان پر
حملہ کیا، جنگ ستمبر میں قوم کے بہادر سپوتوں نے جان کے نذرانے پیش کیے،پاک
افواج کے جوانوں نے57 سال قبل ازلی دشمن بھارت کی جانب سے رات کو کئے گئے
بزدلانہ حملے کو جواں مردی سے ناکام بناتے ہوئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش
کئے ،یہ اْن شہداء کی قربانیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ آج ہم آزاد فضا میں سانس
لے رہے ہیں،چھ ستمبر 1965 کی رات کو بھارتی فوج نے جنگ کا اعلان کیے بغیر
بین الاقوامی سرحد کو پار کرتے ہوئے پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کی
بھارتی جرنیلوں کا منصوبہ تھا کہ چھ ستمبر کی صبح لاہور میں اُس وقت کے
بھارتی وزیراعظم لال بہادر شاستری کو سلامی دیں گے اور شام کو لاہور جیم
خانہ میں کاک ٹیل پارٹی کے دوران بیرونی دنیا کو خبردیں گے،لیکن بھارتی
جرنیلوں کے ارادے اور منصوبے اس وقت ناکام ہونے لگے جب اُسکی افواج کو
مختلف محاذوں پر پسپائی ملی، سانچ کے قارئین کرام! جنگِ ستمبر 1965کے دوران
بھارتی فوج نے 17 دن میں 13 حملے کئے بھارتی افواج تعداد اور جنگی ساز و
سامان کے حوالے سے کئی گناہ طاقتور تھی جبکہ پاکستانی فوج تعداد اور تیاری
کے حساب سے بھارت سے کم تھی لیکن پاکستانی افواج کے جوانوں نے اپنی جانوں
پر کھیل کر مسلسل 17 دن تک دشمن کو لاہور میں داخل ہونے سے روکے رکھا اور
بھارتی افواج کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا،لاہور میں پاک فوج کی 150
سپاہیوں کی ایک کمپنی نے 12 گھنٹے تک ہندوستان کی ڈیڑھ ہزار فوج کو روکے
رکھا جس سے ہماری پیچھے موجود فوج کو دفاع مزیدمضبوط کرنے کا بھر پور موقع
ملا،6 ستمبر 1965ء کو جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو میجر عزیز بھٹی
لاہور سیکٹر میں برکی کے علاقے میں ایک کمپنی کی کمان کررہے تھے کمپنی کے
دو پلاٹون بی آر بی نہر کے دوسرے کنارے پر متعین تھے میجر عزیز بھٹی نے نہر
کے اگلے کنارے پر متعین پلاٹون کے ساتھ آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا ان حالات
میں جب کہ دشمن تابڑ توڑ حملے کررہا تھا اور اسے توپ خانے اور ٹینکوں کی
پوری پوری امداد حاصل تھی میجر عزیز بھٹی اور ان کے جوانوں نے آہنی عزم کے
ساتھ لڑائی جاری رکھی اور اپنی پوزیشن پر ڈٹے رہے 9 اور 10 ستمبر کی
درمیانی رات کو دشمن نے اس سارے سیکٹر میں بھرپور حملے کے لیے اپنی ایک
پوری بٹالین جھونک دی میجر عزیز بھٹی کو اس صورتحال میں نہر کے اپنی طرف کے
کنارے پر لوٹ آنے کا حکم دیا گیا مگر جب وہ لڑ بھڑ کر راستہ بناتے ہوئے نہر
کے کنارے پہنچے تو دشمن اس مقام پر قبضہ کرچکا تھا تو انہوں نے ایک انتہائی
سنگین حملے کی قیادت کرتے ہوئے دشمن کو اس علاقے سے نکال باہر کیا اور پھر
اس وقت تک دشمن کی زد میں کھڑے رہے جب تک ان کے تمام جوان اور گاڑیاں نہر
کے پار نہ پہنچ گئیں انہوں نے نہر کے اس کنارے پر کمپنی کو نئے سرے سے دفاع
کے لیے منظم کیا دشمن اپنے چھوٹے ہتھیاروں،ٹینکوں اور توپوں سے بے پناہ آگ
برسا رہا تھادشمن کی راہ میں اس محاذ پر سب سے بڑی رکاوٹ میجر راجہ عزیز
بھٹی تھے ان کی نشانہ لگوانے کی خدا داد صلاحیت نے بھارتی فوج کو ناکوں چنے
چبوا دئیے تھے آپ کے ساتھی بھی آپکے ہر حکم پر جان کی پرواہ کئے بغیر ایک
پل کے وقفے میں اس طرح عمل کرتے تھے کہ ان کو خود پر حیرت ہوتی تھی۔اس محاذ
پر گزشتہ چھ دن اور چھ راتوں سے دشمن کا اس قدر جانی اور مالی نقصان ہو چکا
تھا کہ جس کا تصور بھی محال تھا۔بار بار کی ناکامی اور مسلسل نقصان نے دشمن
کو اعصابی دباؤ کا شکار کر دیا تھا اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ذ
ہنی طور پر بھارتی فوج اس محاذ پر ایک سو پچاس (150) مسلمان فوجیوں کی
مختصر نفری سے شکست کے جان لیوا احساس کمتری میں مبتلا ہو چکی تھی۔ ان کی
ہزاروں کی نفری صفر ہو کر رہ گئی تھی اب تک اس محاذ پر اس کے سینکڑوں فوجی
جہنم رسید ہو چکے تھے جبکہ جواب میں پاکستانی فوج کے صرف گیارہ (11) جوان
شہید ہوئے تھے۔12 ستمبر 1965 کا دن میجر عزیز بھٹی نے وضو کیا۔ فجر کی نماز
ادا کی۔ شیو بنائی، بالوں میں کنگھی کی۔ تیار ہو گئے تو خادم چائے لے
آیا۔چائے سے فارغ ہوئے تو وردی لانے کا حکم دیا۔ پتہ چلا کہ ان کی وردی
تیار نہیں ہے۔ خادم کسی اور کی تیار وردی لے آیا تو میجر عزیز بھٹی نے
انکار کر دیا اور ایک تاریخی فقرہ کہا:جوان وردی اور کفن اپنا ہی اچھا لگتا
ہے۔یہ کہہ کر میجر نے قدم پٹڑی کی جانب بڑھا دئیے جہاں کھڑے رہ کر انہیں آج
بھی اپنے دستے کے لئے او پی کے فرائض سر انجام دینا تھے۔بھارتی فوج کی
فائرنگ صبح کاذب سے شدت کے ساتھ جاری تھی۔ یوں لگتا تھا کہ اس کے پاس اتنا
وافر اسلحہ ہے کہ وہ بے دریغ چلائے جا رہی ہے۔ گولے میجر عزیز بھٹی کے
دائیں بائیں گر رہے تھے۔ دو تین گولے ان سے آگے چند گز کے فاصلے پر بھی گر
کر پھٹے۔سر۔۔۔۔ فائر آ رہا ہے۔ نیچے آجائیں۔حوالدار فیض علی نے پکار کر
کہا۔ میجر عزیز بھٹی نے ہنس کر کہا کتنی بار کہہ چکا ہوں کہ پٹڑی سے نیچے
دشمن پر نگاہ رکھنا ممکن نہیں اور ویسے بھی جو مزہ اس گولہ باری کی بارش
میں کھڑے رہ کر فرض ادا کرنے میں ہے وہ محفوظ مقام پر کہاں!اسی وقت عزیز
بھٹی نے دیکھا کہ برکی کی طرف سے چند بھارتی ٹینک تیزی سے نہر کی جانب بڑھے
چلے آ رہے ہیں۔ انہوں نے فوراََ توپ خانے کو اس طرف گولہ باری کا حکم دیا۔
فائر ٹھیک نشانے پر لگا۔ بھارتی ٹینک بچوں کے کھلونوں کی طرح فضا میں اچھلے
اور آگ کے شعلوں میں گھرے زمین پر گر پڑے۔شاباش خوش ہو کر میجر عزیز بھٹی
نے توپچی کو داد دی۔ اسی وقت ایک گولہ ان کے سامنے موجود درختوں پر آ کر
گرا۔ آگ، گردوغبار اور دھماکوں کا ایک طوفان اٹھا مگر میجر عزیز بھٹی کو
خراش تک نہ آئی۔ساڑھے نو صبح کا وقت تھا جب دشمن کے ایک توپچی نے گولہ فائر
کیا۔گولہ فضا میں بلند ہوا۔آگ کا دہکتا ہوا وہ گولہ سیدھا میجر راجہ عزیز
بھٹی کے سینے سے آ ٹکرایا اور پھیپھڑے پھاڑتا ہوا نکل گیا۔میجر عزیز بھٹی
اچھلے اور لڑکھڑا کر گر پڑے آپ نے فرض کی ادائیگی میں جام شہادت نوش
کیا،بھارت کا پسندیدہ اور اہم محاذچونڈہ کے سیکٹر پر تھا، پاکستانی فوج کے
جوانوں نے اسلحہ وبارود سے نہیں اپنے جسموں کے ساتھ بم باندھ کر بھارتی فوج
اور ٹینکوں کااُسے قبرستان بنادیا۔ بھارت کا نقصان اور تباہی کو دیکھ کر
پاکستانی افواج کی دلیری وبہادری کی مثالیں آج تک دی جاتی ہیں،ستمبر1965میں
نیوی کی جنگی سرگرمیاں بھی دیگر دفاعی اداروں کی طرح قابل فخر ہیں اعلان
جنگ ہونے کے ساتھ بحری فوجی یونٹس کو متحرک کر کے اپنے اپنے اہداف کی طرف
روانہ کیا گیا کراچی بندرگاہ کے دفاع کے ساتھ ساتھ ساحلی پٹی پر پٹرولنگ کا
سلسلہ جاری رہا پوری جنگ کے دوران پاکستان کا سامان تجارت لانے لے جانے
والے بحری جہاز بلا روک ٹوک اپنا سفر کرتے رہے یہاں تک کہ بھارتی بحریہ کو
بندرگاہوں سے باہر تک نہ آنے دیا، بھارت کے تجارتی جہاز’’سرسوتی‘‘اوردیگر
کافی عرصہ تک پاکستان میں زیر حراست وحفاظت کراچی کی بندرگاہ میں رہے،
7ستمبر1965 کا دن پاکستان کی فتح اور کامیابیوں کا دن تھااُس وقت پاکستان
کی واحد آبدوزپی این ایس غازی جس میں پاکستان نیوی کا بحری بیڑا شامل
تھا،بھارت کے ساحلی مستقر’’دوارکا‘‘پرحملہ کے لیے روانہ ہوئی صرف 20منٹ تک
دوار کا پر حملہ جاری رہا توپوں کے دھانے کھلے اور چند منٹ میں دوار کا
تباہ ہو گیا پی این ایس غازی کا خوف بھارت کی نیوی پر اس قدر تھا کہ بھارتی
فلیٹ بندرگاہ سے باہر آنے کی جرات نہ کرسکا بھارتی جہاز’’تلوار‘‘کو
پاکستانی بیڑے کا سراغ لگانے کے لیے بھیجا گیا مگر وہ بھی’’غازی‘‘ کے خوف
سے کسی اور طرف نکل گیا۔ پاک فضائیہ نے اپنے دشمن کے خلاف ہوا باز وں کو
تیار کر رکھا تھاہمارے ہوا بازوں نے7ستمبر کو اپنے اپنے ہدف کو حاصل کرنے
کے لیے دشمن پر جھپٹے ایک طرف سکوارڈرن لیڈر ایم ایم عالم جیسے سپوت نے ایک
منٹ سے بھی کم وقت میں دشمن کے پانچ جہازوں کومار گرایاتو دوسری طرف
سکوارڈرن لیڈر سر فراز رفیقی اور سکوارڈرن لیڈر منیر الدین اور علاؤالد ین
جیسے شہیدوں نے بھی وطن کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے ، سانچ کے
قارئین کرام! نشانِ حیدر پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز ہے جو اب تک پاک
فوج کے دس جوانوں کو مل چکا ہے، جبکہ ایک کو ہلال کشمیر سے نوازا گیا جو کہ
پاکستان کے نشان حیدر کے مساوی ہے۔ پاکستان کی فضائیہ کی تاریخ اور پاکستان
کی بری فوج کے مطابق نشانِ حیدر حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے نام پر دیا جاتا ہے
کیونکہ ان کا لقب حیدر کرار تھا اور ان کی بہادری ضرب المثل ہے۔ یہ نشان
صرف ان لوگوں کو دیا جاتا ہے، جو وطن کے لیے انتہائی بہادری کا مظاہرہ کرتے
ہوئے شہید ہو چکے ہوں۔ ان میں میجر طفیل نے سب سے بڑی عمر یعنی 44 سال میں
شہادت پانے کے بعد نشان حیدر حاصل کیا، باقی فوجی جنہوں نے نشان حیدر حاصل
کیا ان کی عمریں 40 سال سے بھی کم تھیں جبکہ سب سے کم عمر نشان حیدر پانے
والے راشد منہاس تھے جنہوں نے اپنی تربیت میں 20 سال 6 ماہ کی عمر میں
شہادت پر نشان حیدر اپنے نام کیا۔ آج تک پاکستان میں صرف دس افراد کو نشانِ
حیدر دیا گیا ہے ،اور ایک کو ہلال کشمیر سے نوازا گیا ہے ۔27 جولائی
1948کیپٹن راجہ محمد سرور2/1 پنجاب رجمنٹ پاک بھارت جنگ 1947 ، 7 اگست
1958میجر طفیل محمدسولہویں پنجاب رجمنٹ مشرقی پاکستان رائفل پاک بھارت جنگ
1965 ، 10 ستمبر 1965راجہ عزیز بھٹی17 پنجاب رجمنٹ پاک بھارت جنگ 1965 ، 20
اگست 1971راشد منہاس نمبر۔ 2 فائٹر کنورڑن یونٹ، پاک فضائیہ پائلٹ آفیسرپاک
بھارت جنگ 1971، 6 دسمبر 1971میجر شبیر شریف6 فرنٹیئر فورس رجمنٹ پاک بھارت
جنگ 1971، 10 دسمبر 1971سوار محمد حسین20 لانسرز (آرمرڈ کور)، پاک فوج
سوارپاک بھارت جنگ 1971، 5 دسمبر 1971میجر محمد اکرم 4 فرنٹئیر فورس رجمنٹ
پاک بھارت جنگ 1971، 17 دسمبر 1971لانس نائیک محمد محفوظ15 پنجاب رجمنٹ پاک
بھارت جنگ 1971 ،7 جولائی 1999کرنل شیر خان سندھ رجمنٹ/12 ناردرن لائٹ
انفنٹری کارگل جنگ ، 7 جولائی 1999حوالدار لالک جان12 ناردرن لائٹ انفنٹری،
نائیک سیف اﷲ جنجوعہ (ہلال کشمیر)ان کو ہلال کشمیر سے نوازا گیا جو کہ
پاکستان کے نشان حیدر کے مساوی ہے٭
|