کہانی لکھنا بہت ہی پیچیدہ اور مشکل کام ہے۔ کہانی کے
اندر اترکر اس کے ہر کردار کو محسوس کرنا پڑتا ہے۔ اس کے لئے ریاضت اور
گہرا مشاہدہ درکار ہوتا ہے۔ کہانی تنہائی میں نہیں بنتی کہانی معاشرے کی
بھٹی میں جل جانے کے بعد نظر آتی ہے، سمجھ آتی ہے اور لکھی جاتی ہے۔ معاشرے
میں ہر وقت ہمارے اردگرد بے شمار کردار اور بے شمار کہانیاں بکھری ہوئی
ہوتی ہیں بس ضرورت انہیں دریافت کرنے کی ہے۔ کچھ مناظر، کچھ تصویریں اور
کچھ کردار جب ملتے ہیں تو کہانی بنا دیتے ہیں۔ کہیں تو ایسا انسانی المیہ
ہوجاتا ہے کہ ایک ہی منظر پوری کہانی تشکیل دے دیتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں
ایک کہانی اس تصویر سے بنی جس میں بے بس،مجبور اور غربت کی ماری ہوئی ماں
اپنے بچے کی لاش گود میں لئے صاحب اقتدار کی غلام گردشوں میں بیٹھی ہےکہ
غربت کی وجہ سے وہ کتے کے کاٹنے کی ویکسین نہ خرید سکی اور سرکاری ہسپتال
سے ویکسین کی بجائے دھکے اور ذلت ملی ۔ ایک دل دہلا دینے والے منظر سے
بلوچستان میں کہانی بنی جس میں غریب ماں باپ سٹرک پر اپنے نوجوان بچے کی
لاش گود میں لئے بیٹھے ہیں۔ جو دکھ، اذیت اور کرب کی گہری کیفیت اس تصویر
کا حصہ بنی وہ کہانی کے الفاظ بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ دکھ اس بات کا کہ جس
کا نام حیات تھا وہ حیات سے ہی محروم کر دیا گیا۔ ایک کہانی ساہیوال سے
پیدا ہوئی جس میں غلط فہمی کی دھند میں شناخت کئے بغیر گاڑی پر گولیاں برسا
دی گئی۔ ایک کہانی اسلام آباد کی سڑکوں پر لکھی گئی جس میں برسائی جانے
والی گولیوں نے ایک نوجوان کو زندگی کے حسن سے محروم کر دیا اب یہ کہانی اس
موڑ پر ہے کہ جہاں بحث چل رہی ہے کہ گولیاں آگے سے چلیں یا پیچھے سے۔ ایک
کہانی لاہور ماڈل ٹاؤن میں دن دیہاڑے لکھی گئی جو آج بھی نامکمل ہے۔ کراچی
کی سڑکیں ان گنت کہانیوں کی گواہ ہیں جن کی اکثریت گم نام ہے۔ تقدیر کے
قرطاس پر ایک کہانی زینب کے نام سے لکھ دی گئی مگر اس بے حس معاشرے اور بے
رحم ارباب اقتدار کو کوئی فرق نا پڑا۔
ایک کہانی مچھ میں کوئلے کی کان میں لکھی گئی۔ جس کا دکھ اس دھرتی نے بھی
محسوس کیا۔ بے شمار غریب مزدور ملبے تلے دب کر جان کی بازی ہار گئے۔ ایک ہی
منظر میں کئی چراغ گل ہو گئے۔ یہ ملبے تلے مزدور نہیں بلکہ کئی خاندانوں کی
روٹی دب گئی۔ کچھ کہانیاں زلزلوں اور سیلابوں نے لکھیں۔ قدرتی آفات تو اپنی
جگہ مگر ان آفات کے دوران یا بعد میں صاحب اختیار لوگوں کے جو رویئے سامنے
آتے ہیں وہ کہانی کو مزید دردناک بنا دیتے ہیں۔ سیلاب کے دوران لوگ اپنے
پیاروں کو تلاش کرتے رہے اور پانی اترنے کے بعد خشک زمین کو کہ اپنے پیاروں
کی تدفین کر سکیں۔ گھر، کھیت کھلیان تو برباد ہوئے ہی مگر المیہ یہ ہے کہ
کہیں ماں باپ ہیں تو بچے سیلاب لے گیا، کہیں بچے ہیں تو ماں باپ سیلاب کی
نذر ہو گئے۔ کوئی پیاروں کی جدائی پر تو کوئی گھر کے ملبے پر ماتم کر رہا
ہے تو کوئی محرومی و بے بسی کی آگ میں جل رہا ہے۔ سیلاب نے بے شمار کہانیاں
لکھیں بے شمار کلیجہ چیر دینے والے منظر تخلیق کئے۔ تیرتی ہوئی لاشیں، بھوک
سے بلکتے بچے، بیماری سے مرتے ہوئے انسان یہاں تک کہ روتے ہوئے مویشی ۔۔۔
اور جو سیلاب سے بچ گئے ان کے چہروں پر مستقبل کے خوف کے سائے ۔۔۔ میں کس
کس درد بھری کہانی کا تذکرہ کروں یہ دکھ اس قدر گہرا اور جان لیوا ہے کہ
کلیجہ چیر دے گا۔ اتنی ساری دردناک کہانیاں پڑھ کر ہر سوچنے والے ذہن میں
یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سب کہانیاں ناقص منصوبہ بندی کیوجہ سے
ظہور پذیر ہوئیں ہیں، غربت سے پیدا ہوئی ہیں، معاشی ناہمواری وجہ بنی،
جہالت کے اندھیرے نے انسان کو ڈرا دیا یا بھوک کے جن نے بے بس کر دیا۔۔۔
میں اکثر سوچ میں گم ہو جاتا ہوں کہ آزادی تو ہم نے کب کی حاصل کر لی مگر
شاید منزل مراد کی طرف سفر ابھی جاری ہے۔منزل مراد تک شاید یہ قوم بہت پہلے
پہنچ جاتی، شاد و آباد ہو جاتی اگر ریاست ماں کی طرح مہربان ہوتی ، سیاست
ذمہ داری سے ہوتی اور حقوق طلب کرنے والے فرائض سے غافل نا رہتے۔ مجھے لگتا
ہے کہ ہر المناک کہانی کی وجہ کہیں نا کہیں بھوک، معاشی ناہمواری اور انصاف
کی عدم فراہمی سے جڑ جاتی ہے۔ اس کو سمجھنے میں، اپنی سوچ کو پرکھنے میں
اور نتیجے تک پہچنے میں بہت ساری دکھ بھری کہانیوں نے میری مدد کی مگر دنیا
کی یہ تمام مددگار کہانیاں خود ابھی نتیجے کی منتظر ہیں ابھی بھی انصاف پر
مبنی انجام کے بغیر ادھوری ہیں اور منطقی انجام تک پہنچانے والے کسی کہانی
کار کی شدت سے منتظر ہیں۔
|