ترقی یافتہ قومیں اپنے کچھ اصول رکھتی ہیں جن پر وہ ہر
حال میں پورا اترتی ہیں،ان اصولوں میں اپنی خودداری ، تشخص ،ملی غیرت ،قومی
وقار کا خیال اور اپنی زبان اور تہذیب پر فخر واستقامت بھی شامل ہیں۔
بقول شاعر ~
اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغِ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا ،نہ بن ،اپنا تو بن !
دنیا میں اس وقت 3064 زبانیں بولی جاتی ہیں،ماہرین_تعلیم کے مطابق کسی قوم
کی بہترین تعلیم و تدریس کا راز یہ ہے کہ اسے اس کی مادری یا قومی زبان میں
تعلیم دی جائے کیوں کہ اسے سمجھنا اور یاد رکھنا آسان ہوتا ہے۔ چین کی مثال
ہمارے سامنے ہے جس کا تمام تر تعلیمی ،انتظامی اور عدالتی نظام چینی زبان
میں ہے۔چین کے سربراہ ماؤزے تنگ بہترین انگریزی زبان جانتے تھے لیکن پھر
بھی غیر ملکی مندوبین کے ساتھ چینی زبان میں،بذریعہ مترجم مذاکرات کیا کرتے
تھے۔دنیا بھر کی ترقی یافتہ اقوام نے نہ صرف اپنا سارا نظام _ تعلیم اپنی
زبان میں رائج کیا ہے بلکہ غیر ملکی طلباء اور طالبات کے لئے اپنے تعلیمی
اداروں میں داخلے سے قبل ،لازمی شرط رکھی ہوتی ہے کہ پہلے وہ اس ملک کی
زبان سیکھنے کے کورس کریں اور پھر ان کی یونیورسٹیوں میں داخلہ ہوگا۔
انڈونیشیا ، ملائیشیا ،کوریا ،ہانگ کانگ ،سنگاپور جیسے چھوٹے چھوٹے ممالک
نے بھی اپنا سارا نظام اپنی قومی زبانوں میں کیا ہوا ہے بلکہ سرکاری ریکارڈ
وغیرہ بھی اپنی قومی زبان میں محفوظ کرکے رکھا ہوا ہے۔ کوریا جیسے ملک میں
طالب علموں کو فراہم کئے جانے والے کمپیوٹر سوفٹ وئیرز بھی ان کی اپنی زبان
میں ہوتے ہیں۔
کچھ سال پہلے کی بات ہے جب امریکہ نے جاپان پر قبضہ کیا تو جاپان کے بادشاہ
نے ان سے صرف ایک چیز مانگی کہ ہم سے ہماری زبان مت چھیننا ! کیوں کہ انھیں
معلوم تھا کہ بحیثیت قوم ان کا احیاء اسی صورت ہوسکتا ہے جب ان کی زبان
محفوظ رہے ۔ زبان نہ صرف کسی قوم کا رابطہ اس کی تاریخ ،اقدارو روایات سے
جوڑے رکھتی ہے بلکہ اس کا علمی ،ادبی اور ثقافتی ورثہ بھی محفوظ رہتا ہے۔
ترکی میں جب خلافتِ عثمانیہ کا خاتمہ کیا گیا تو ان سے ان کی زبان بھی چھین
لی گئ اور رسم الخط بھی تبدیل کردیا گیا ،یہی وجہ ہے کہ آج وہاں مسلمانوں
کے ناموں پر بھی یورپین ہونے کا گمان ہوتا ہے۔2008ء میں یورپی یونین کی
سربراہی کانفرنس میں فرانسیسی صدر کے سامنے ،فرانس کے نمائندے نے انگریزی
زبان میں تقریر کرنا شروع کی تو فرانسیسی صدر اٹھ کے کانفرنس سے باہر چلے
گئے کہ میرے ملک کا نمائندہ فرانسیسی زبان میں تقریر کیوں نہیں کر رہا؟
قیامِ پاکستان کے موقع پر جب انگریز افسران واپس برطانیہ پہنچے تو انھیں
صرف اس لئے سرکاری نوکری سے فارغ کردیا گیا کہ غلاموں پر حکم چلانے والے اب
آزاد قوم کی قیادت کے اہل نہیں رہے لیکن افسوس ہمارے ملک میں ایسے لوگوں کو
حکمران بنادیا جاتا ہے جن کے ساتھ آکسفورڈ یونیورسٹی کا ٹیگ لگا ہو ،چاہے
وہ ملکی روایات ، اقدار اور تہذیب سے کوئی شناسائی نہ رکھتا ہو ۔
یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق ،اردو دنیا کی تیسری بڑی زبان ہے ۔اردو کو اب
چین ،ترکی ،بھارت اور جرمنی کی یونیورسٹیوں میں بھی پڑھایا جارہا ہے لیکن
پاکستان میں آئین کی دفعہ میں نفاذ اردو شامل ہونے کے باوجود اور عدالتی
فیصلے کے باوجود ابھی تک سرکاری زبان کی حیثیت سے نافذ نہیں کیا گیا۔نہ صرف
ہمارا تعلیمی نظام اردو میں ہونے سے معیار_تعلیم بہتر ہوگا بلکہ پاکستان کی
معاشی ترقی کے لئے بھی ضروری ہے کہ ہر شعبہ میں اردو بطور سرکاری زبان نافذ
ہو ،تاکہ ملک کا ہر فرد قومی ترقی میں فعال کردار ادا کرسکے۔ جاپان ،چین
،کوریا ،جرمنی اور ترکی جیسے ترقی یافتہ ممالک اپنا نصاب_تعلیم خود تیار
کرتے ہیں جب کہ ہمارے ہاں غیر ملکی ماہرین کو نصاب تیار کرنے کا کام سونپا
جاتا ہے جو قوم و ملت کے نظریات ، ضروریات ،تاریخ اور قومی مزاج سے ناواقف
ہوتے ہیں۔ NTS کا ٹیسٹ ہو یا GAT کا یا پھر CSS کا، یہ امتحانات انگریزی
میں دینا لازمی ہیں لیکن انگریزی میں مہارت نہ ہونے کی وجہ سے طلباء اور
طالبات بہت کم کامیاب ہوپاتے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی لاء کالج میں تقریباً
بیس برس تک قانون کی تعلیم ،اردو زبان میں دی جاتی رہی ہے لیکن بعد میں اس
سہولت کو ختم کرکے انگریزی زبان کو رائج کردیا گیا۔ عدالتوں میں ساری
کارروائی ،انگریزی میں ہونے کی وجہ سے وکیلوں کو فیصلوں کی من مانی تاویل
کرنے اور زیادہ فیس لینے کا جواز مل جاتا ہے، اس لئے عوام کو انصاف حاصل
کرنا ،عمر بھر کی سعیء لا حاصل معلوم ہوتا ہے اور اس سے لاقانونیت بڑھ رہی
ہے۔
اگرچہ دنیا ،گلوبل ویلج بن چکی ہے جس میں دور دراز کی قومیتیں بھی قریب
آگئی ہیں لیکن گلوبل ویلج میں اپنی شناخت ،اپنی تہذیب اور اپنی زبان کو
زندہ رکھنا ،وقت کا تقاضا بھی ہے اور قومی بقا کا راز بھی اس میں پوشیدہ ہے
!
|