ذمہّ دارانہ صحافت اور اخلاقی اقدار

 بین الاقوامی شہرت یافتہ معالج،سماجی کارکن اور طب و حکمت کے سپہ سالار حکیم محمد سعید (شہید پاکستان ) کو صحافت سے بھی عشق تھا، خود بھی اہلِ قلم تھے اور دوسرے اہلِ قلم حضرات سے ان کی محبت و شفقت بھی بے پایاں تھی، جب بھی پشاور تشریف لاتے تو ہم جیسے اہلِ قلم سے اپنی والہانہ محبت کا اظہار ضرور کیا کرتے تھے ۔انہوں نے پاکستان کے چار بڑے شہروں (کراچی،لاہور،اسلام آباد اور پشاور)میں ہر ماہ ’’شوریٰ ہمدرد ‘‘ کے نام سے اجلاس منعقد کرنے کی بنیاد رکھی جس کا انعقاد تادمِ تحریر ان کی دخترِ نیک سعدیہ راشد صاحبہ کی نگرانی میں ہوتا رہتا ہے ۔وہ ہر مہینے شوریٰ ہمدرد کے لئے ایک موضوع کا انتخاب کرتی ہیں ۔ جس پر شوریٰ کے اراکین اور مبصرین اظہارِ خیال کرتے ہیں ۔ اس مرتبہ انہوں نے جو موضوع رکھا ہے وہ ہے ’’ ذمہّ دارنہ صحافت اور اخلاقی اقدار ‘‘ یہ موضوع نہ صرف موجودہ دور میں اہمیّت و ضرورت کاحامل ہے بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ موضوع حکیم محمد سعید (مرحوم ) کے روح کے لئے بھی باعثِ مسّرت و شادمانی ہو گا ۔ با ایں وجہ اسے آج کالم ہذا کا عنوان چنا گیا ہے تاکہ اس پر سیرِ حاصل گفتگو کی جا سکے ۔۔۔

صحافت ایک عظیم لیکن ترقی پذیر فن ہے ،جسے جمہوریت کا چوتھا ستون بھی کہا جاتا ہے اس کا بنیادی مقصد عوام تک سچی خبریں پہنچانا،حقائق سے باخبر رکھنا اور عوام کو باشعور بنانا ہے۔رائے عامہ ہموار کرنے، حکومت بنانے یا بگاڑنے میں اس کا موثر کردار ہوتا ہے ۔صحافت کا دائرہ اثر تمام شعبہ زندگی پر بالواسطہ یا بِلا واسطہ ضرور پڑتا ہے ۔اخبارات کے کالم،ادارئیے،عوام کی اراء وغیرہ لوگوں کا مزاج بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔صحافت ایک بہت بڑی قوّت ہے اس کی نوعیت ایسی ہے کہ اسے نیک مقصد کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے اور اسے غلط مقاصد کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔خصوصا پاکستان میں جہاں جماعتی یا گروہی مفادات وسیع تر قومی مفاد پر غالب نظر آتے ہوں وہاں صحافت کے غلط استعمال کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ۔ جس طرح سیاست میں حب الوطنی کے نام پر بہت سے غلط کام ہو تے ہیں اسی طرح آزادی صحافت کے نام پر بھی صحافت کا غلط استعمال ہوتا ہے ۔ پاکستان کے قیام سے پہلے ہمارے ہاں آزادی صحافت کے لئے جد و جہد کی عظیم روایات قائم ہوئیں ۔دورِ غلامی میں بھی مسلمان صحافیوں نے حق گوئی کی روشن مثالیں قایم کیں۔انہوں نے اس راہ میں آنے والی مشکلات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا ۔

اگر ہم آج کی صحافت کا جائزہ لیں تو بظاہر صحافت کا منظر بہت مسحورکن، جاذبِ نظر اور دلکش نظر آتا ہے مگر سچی بات یہ کہ اس کے پس منظر میں بہت ساری ایسی بھیا نک اور دل ہلا دینے والی حقیقتیں بھی ہیں جس سے کوئی ذی شعور اور محبِ وطن شخص انکار نہیں کر سکتا ۔پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے ۔اس حوالے سے اس کے نظریاتی تشخص کی حفاظت اور مقدم جاننا ہر صحافی کا بنیادی فرض ہے لیکن دیکھا جائے تو یہاں پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا،وہ نظریاتی اور فکری یک جہتی پیدا کرنے کی بجائے انتشارپھیلا رہے ہیں ۔جبکہ ذمہ دارانہ صحافت ہمیشہ غیر جانبدار اور تعصب سے پاک ہوتا ہے،منصفانہ، جائز اور حقائق پر مبنی ہوتا ہے،شائستہ،آبرومندانہ اور مہذب ہوتا ہے مگر افسوس کہ آج کی صحافت دو حصوں میں بٹا ہوا نظر آتا ہے ۔ آج آپ ٹی وی کا کوئی بھی چینل دیکھیں تو صاف نظر آتا ہے کہ صحافی حضرات دو حصوں میں بٹے ہوئے ہیں ۔ بعض حضرات سابق وزیر اعظم عمران خان کی تعریفیں کر کر کے نہیں تھکتے جبکہ بعض اس کے مخالف قیادت کو تمام مسائل کا نجات دہندہ سمجھتے ہیں ۔ اس طرح کے تبصروں اور تحاریر سے سامعین اور قارئین کے ذہنوں میں انتشار ہی پیدا ہوتا ہے ۔

صحافت ایک مقدّس پیشہ ہے ، اور اس پیشے کا تقاضایہ ہے کہ صحافت کے اخلاقی اقدار کو ہمیشہ مقّدم رکھا جائے ۔ مسلمان ہونے کی حیثیّت سے ہمارے ایمان کا بھی یہی تقاضاہے کہ صحافت کے شعبہ میں بھی قران و سنّت کی طرف رجوع کریں ۔دینِ اسلام ایک مکمل ضابظہ حیات ہے اور زندگی کے ہر معاملہ میں ہماری راہنمائی کے لئے واضح ہدایات موجود ہیں ۔سورہ النساء میں اﷲ جل جلالہ فرماتے ہیں ۔

’’ آئے لو گو جو ایمان لائے ہو ! انصاف کے علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو ، اگر چہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد میں خود تمہاری اپنی ذات،یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو ، فریقِ معاملہ مالدار ہو یا غریب،اﷲ تم سے زیادہ ان کا خیر خواہ ہے ، لہذا تم اپنی خواہشِ نفس کی پیروی میں عدل سے نہ ہٹو ۔‘‘ اسی طرح سورہ احزاب میں اﷲ تعالیٰ فر ماتے ہیں ’’ ائے لوگو جو ایمان لائے ہو !،صاف سیدھی اور کھری بات کیا کرو ‘‘ اﷲ تعالی کا یہ فرمان ذمہ دارانہ صحافت اور اخلاقی اقدار کے لئے بنیادی اصول متعین کرتا ہے ۔ ہمارے صحافی حضرات کو بھی ان اصولوں پر چلنا چاہئیے ، کبھی کسی قسم کی مصالحت،دنیاوی خواہش،طمع یا لالچ کا شکار نہیں ہونا چاہئیے اور نہ ہی اسے خوشامد، چاپلوسی اور بِلا استحقاق مدح سرائی کو اختیار کرنا چاہئیے۔اپنے قلم، زبان اور بیان کو ہمیشہ اﷲ کی امانت سمجھنا چاہئیے

پاکستان کی موجودہ صورتِ حال بڑے شدّت سے اس بات کا متقاضی ہے کہ ہماری صحافت دوبارہ سے اپنے مشن اوراپنی اصل کو مہمیز دے۔حق گوئی، سچائی،ایمانداری،غیر جانبداری اور ملکی فلاح و سلامتی کے مطابق ترجیحات کا تعین کرتے ہوئے قوم کی فکری تربیت کرے۔جس طرح 1947میں اس قوم کو ملک کی ضرورت تھی اس طرح آج اس ملک کو ایک بیدار قوم کی ضرورت ہے ۔اس قوم کو بیدار کرنے، بیدار رکھنے اور پر امید رکھنے کے لئے باضمیر صحافت کی اشّدضرورت ہے ۔

 

roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 285051 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More